کر لو کرنی ہے جو کمائی آج۔اسد مفتی

تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث دنیا بھر میں متبادل توانائی کے ذرائع بائیو فیول کو ایندھن کے طور پر استعمال کے فروغ کے لیے کوششیں تیز ہوگئیں ہیں، ہالینڈ کے انرجی ریسرچ سنٹر کے ڈائریکٹر اور توانائی کے امور کے ڈچ ماہر ٹون ہاف نے دنیا کو وارننگ دی ہے کہ تیل اور توانائی کے دوسرے معدنی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں ،جس سے وسائل کے متبادلات کی تلاش میں سست روی سے وقت ختم ہوتا جارہا ہے۔

عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہیں، اور وہ وقت جلد آنے والا ہے جب یہی قیمتیں آسمان پر پہنچ کر ہماری دسترس سے باہر ہوجائیں گی۔ لیکن تب کافی دیر ہوچکی ہوگی،توانائی کے امور کے ڈچ ماہر نے اہل سیاست اور سرمایہ داروں کو خبردار کیا ہے کہ متبادل توانائی کی قیمتوں کو اس سطح پر لانے کے لیے ابھی پچاس ساٹھ سال لگیں گے،جہاں انہیں عام استعمال کیا جائے،انہوں نے کہا ہے کہ اس وقت تیل کی قیمت کئی گنا زیادہ فی بیرل ہوچکی ہے،یہی وجہ ہے کہ ہالینڈ نے متبادل توانائی کے ذرائع تلاش کرتے ہوئے استعمال شدہ بیج سے بائیو فیول کی پیداوار کے ایک پلانٹ کا افتتاح کیا ہے۔عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں ریکارڈ سطح پر پہنچنے کے بعد یورپی ممالک نے گنے اور سبزیوں کی مدد سے بائیو فیول کی تیاری کو فروغ دینے کے اقدمات شروع کر دیے ہیں۔

سولر آئل سسٹم کہلانے والا یہ پلانٹ پیور پلانٹ آئل پیدا کرتا ہے،جو کسی بھی چھوٹی یا بڑی کار میں استعمال کیا جاسکتا ہے،ہالینڈ کے سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ بائیو فیول کی نسبت ایک صاف اور دوستانہ ماحول والے ایندھن کے طور پر متعارف کرایا جارہا ہے۔ جو پٹرول اور ڈیزل کا ایک کامیاب اور اچھا متبادل بھی ہے۔

میرے حساب سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں لگاتار ہونے والا اضافہ نہ  تو تعجب خیز ہے اور نہ ہی باعث ِ حیرت۔ چونکہ آج کچے تیل کی حالت ایک انار سو بیمار والی ہوگئی ہے۔ یہ کچا تیل بھی چند ممالک ہی پیدا کرتے ہیں، جبکہ ساری دنیا میں اس کی مانگ بڑھتی جارہی ہے۔ ایسے میں قیمتوں میں اضافہ ہونا فطری بات ہے،

دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کنوؤں کی شکل میں تیل کے یہ ذخائر بہت محدود ہیں ،ایک نہ ایک دن ان کا خشک ہوجا نا طے ہے،اور یہ منحوس دن اتنی ہی تیزی سے ہمارے قریب آتا جارہا ہے،جتنی تیزی سے کچے تیل کی مانگ بڑھتی جارہی ہے،یہی وجہ ہے کہ دنیا کے عظیم ممالک نے عراق کے ذخائر پر اپنا قبضہ جمانے کی کوششوں میں اپنے 6000 سے زائد سپاہیوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔  پٹرول کی سیاست سے لت پت مغربی ممالک نے پٹرولیم کے موثر متبادل کی زور شور سے تلاش شروع کردی ہے،جن میں ہالینڈ پیش پیش ہے۔

“ایندھن کنگ “بننے کی دوڑ میں فل الحال سب سے آگے ہائیڈروجن کا نام ہے،یہ گیس یوں تو ہماری آب و ہوا میں زبردست طور پر گھلی ہوئی ہے،لیکن اسے “الگ”کرنا اور  ایندھن کے طور پر استعمال کرنا اتنا آسان نہیں ہے،آگ سے قریبی رشتہ رکھنے والی  اس گیس کو محفوظ ذخیرے کی شکل میں رکھنا ایک ٹیڑھی لکیر ہے،اس کی پیداواری لاگت بھی فی الحال زیادہ ہے،اور اس کے باوجود جرمنی اور جاپان نے بی ایم ڈبلیو اور فردا جیسی قیمتی کاریں ہائیڈروجن گیس سے بنا کر سڑکوں پر دوڑا دی ہیں ،کہتے ہیں 2020 تک امریکہ میں ہائیڈروجن سے چلنے والی گاڑیاں عام طور پر دکھائی دینے لگیں گی۔ایندھن کے طور پر ہائیڈروجن کے استعمال کا ایک پرانا فائدہ  یہ ہے کہ اس سے ماحول میں آلودگی تقریباً ختم ہوجاتی ہے۔

پٹرولیم  کا دوسرا متبادل “بائیو فیول”یا “بائیو ڈیزل”ہے۔یہ متبادل تیزی سے ابھر رہا ہے، جیسا کہ نام  سے ظاہرہے کہ بائیو فیول پیڑ پودوں سے حاصل ہونے والا تیل ہے  جسے انجن میں استعمال کیا جاسکتا ہے،بائیو ڈیزل پر تحقیق کے ابتدائی دور میں ارنڈی ،سورج مکھی، ناریل،سویا بین ،زیتون ،بنولا اور تاڑ جیسی فصلوں کے تیل ڈیزل ایندھن میں آزمائے گئے ہیں ، اور کامیاب  بھی رہے، ان کے ساتھ کچھ تکنیکی مسائل کے علاوہ اونچی قیمتوں   کا چیلنج  بھی تھا ،لیکن جلد ہی سائنسدانوں نے “جٹ روفا”نامی جنگلی پودے کے بیج سے ملنے والے   تیل کو ڈیزل کی جگہ لاکر  دیگر تیلوں کے چیلنج کو ختم کردیا۔آج جیٹ روفا  کا  تیل بائیو ڈیزل کا ہم معنی بن گیا ہے۔اس کے بیج سے ملنے والے تیل کو ڈیزل میں بدلنے کے لیے  ایک خاص کیمیائی عمل سے گزارنا پڑتا ہے،لیکن ڈیزل انجن میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کرنی پڑتی۔

پیڑ پودوں سے حاصل کرنے والے پٹرولیم متبادلات میں اینتھال کا نام بھی کافی نمایاں ہے،یہ ایک طرح کا الکحل ہے،(مسلمان احتیاط کریں)جسے گنے کے رس یا شیرے سے بنایا جاتا ہے،خالص اینتھال کو پٹرول کی جگہ استعمال نہیں کیا جاسکتا،برازیل گنا پیدا کرنے والا ایک اہم ملک ہے ،یہاں گزشتہ ستر سالوں سے اینتھال کو پٹرول میں ملا کر استعمال کیا جا رہا ہے، شروعات پانچ فیصد اینتھال ملانے سے ہوئی تھی،اور آج وہاں پٹرول میں پچیس فیصد اینتھال ملایا جارہا ہے،اس سے برازیل میں پٹرول کی مانگ قریباً ایک چوتھائی کم ہوگئی ہے،

امریکہ میں ہر سال ڈیڑھ ارب گیلن اینتھال 10 فیصد شرح فیصد سے پٹرول میں ملایا جارہا ہے۔ اینتھال ملا ہوا پٹرول  ماحؤلیات کو بہتر بنانے کا کام بھی کرتا ہے۔اس سے پٹرول کی آتش گیر معدیت میں اضافہ ہوتا ہے۔علاوہ ازیں دھواں بھی کم ہوتا ہے،اینتھال کی طرح    مینتھال بھی ایک الکحل ہے،جسے بارہ فیصد کی شرح سے پٹرول میں ملایا جاتا ہے۔

بیٹری سے چلنے والی گاڑیاں انسان کا پرانا خواب ہے،آلودگی سے پوری طرح پاک یہ گاڑیاں دنیا بھر کی پہلی پسند ہے،لیکن جب انہیں بڑے پیمانے پر اپنانے کی بات کی جاتی ہے تو معاملات آگے نہیں بڑھتے ،اس کے دو اسباب ہیں ،ایک تو یہ کہ بیٹری والی گاڑیاں زیادہ رفتار سے نہیں چل پاتیں ،دوسرے بیٹری طویل مدت تک ساتھ نہیں نبھاتی،کیوں کہ اسے بار بار چارج کرنے کا مسئلہ ہے جو فی الحال ٹیڑھا مسئلہ ہے،تاہم ان پریشانیوں سے نمٹنے کے لیےنئی قسم کی بیٹریاں بنانے پر دنیا کی اہم تجربہ گاہو ں میں کام ہورہا ہے،جن میں ہائیڈروجن بھی شامل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

حرفِ آخر کے طور پر مجھے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کے موئثر متبادل کے طور پر کئی ایندھن سامنے آئے ہیں ،کئی آرہے ہیں ،جس دن حضرتِ انساں نے یہ سب کچھ پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ،جس دن یہ ایندھن تیار ہوگیا ،اس دن نہ صرف پٹرول کو الوداع کہنے میں دیر نہ  کی جائے گی،بلکہ ہمارے عرب بھائیوں کو اپنے سونے چاندی کے بنے ہوئے محلوں کو خیر باد کہہ کر پھر سے دشت و صحرا کی خاک چھاننا پڑے گی۔
کل یہاں کاروبار ہیں سب بند
کرلو کرنی ہے جو کمائی آج!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply