لوٹ کے گڈو گھر کو آئے۔۔ربیعہ سلیم مرزا

کرونا کی وجہ سے اسکول بند تھے ۔آمنہ اورگڈو گلی کے بچوں کے ساتھ پکڑن پکڑائی کھیل رہے تھے۔ کبھی کبھار کسی بچے کی اماں اسے آواز دیتیں تو کھیل کچھ دیر کے لیےرک جاتا۔تھوڑا جھنجھلانے کے بعد سب بچے پھر سے مگن ہو جاتے۔
دھیرے دھیرے سب بچے ایک ایک کرکے گھروں کو چلے گئے،۔گڈو اور آمنہ کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کب وہ اکیلے رہ گئے ،کھیل ہی کھیل میں وہ دونوں دور نکل آئے تھےکہ اب گلی بھی اجنبی تھی اور راستہ بھی۔
دونوں بری طرح گھبرا گئے ۔آمنہ گڈو سے کچھ بڑی تھی۔اس نے لپک کر گڈو کا ہاتھ تھام لیا، جیسے وہ کہیں کھو جائے گا۔ دونوں دائیں بائیں دیکھتے، راستہ کھوجتے آگے بڑھنے لگے۔شاید کوئی شناسا چہرہ دکھائی دےیا بھولا ہوا راستہ یاد آجائے۔

گلی کچھ سنسان سی تھی۔اتنے میں ایک آدمی دونوں کے پاس آکر کہنے لگا۔!
“ارے تم دونوں یہاں ہو،پچھلی گلی میں تمہارے ابا تم دونوں کوڈھونڈھ رہے ہیں ”
“نہیں ہم گھر جا رہے ہیں، ہمارے ابو نے کسی کے ساتھ جانے سے منع کیا ہے ” آمنہ نے ڈرے بغیر، ڈپٹ کر، اماں کا سو دفعہ کا ذہن نشیں کروایا جملہ بولا ۔اور پھر گڈو کا ہاتھ پکڑتے ہوئے تیزی سےچوک کی طرف چل دی، جہاں بہت سےلوگ آتے جاتے دکھائی دے رہے تھے ۔یہاں وہ دونوں کچھ محفوظ رہ سکتے تھے۔آمنہ کی بے خوفی دیکھ کر وہ آدمی وہیں رک گیا۔
تیز تیز چلتے وہ ابا کا فون نمبر یا گھر محلےکا پتہ، گلی کی کوئی نشانی یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔کتنی ہی دفعہ ابو نے اسے اپنا نمبر یاد کروایا تھا لیکن اس وقت ،کھو جانے کے خوف نے اسے سب کچھ بھلا دیا ۔اس نے گڈو سے کچھ مدد لینےکی کوشش کی۔
“گڈو تمہیں ابا کا نمبر یاد ہے، گلی کی کوئی نشانی وغیرہ” ؟

“نہیں،لیکن مجھے ڈر لگ رہا ھے اوربھوک بھی لگی ہے” ۔گڈو نےمنہ بسورتےہوئےجواب دیا پھر کہنے لگا،
“آپا۔،اگر کسی نے ہمیں پکڑ لیا تو” ؟
آمنہ کا رنگ مزید فق ہو گیا۔
“ڈرو مت۔گھبراؤ  نہیں، پتہ ہے ناں ! اماں نے سمجھایا تھا کہ اگر ذرا سی بھی گڑبڑ لگے تو ڈر ے بغیر خوب شور مچانا ہے ۔لوگوں کو مدد کے لیے بلانا ہے ۔”
وہ خود بھی سہمی ہوئی تھی کہ شام ہو رہی ہے ۔اماں کس قدر پریشان ہو رہی ہوں گی ۔
یہ خیال آتےہی اس کا ذہن تیزی سے حل ڈھونڈنےلگا۔
اب گڈو نے باقاعدہ بھوک بھوک کی گردان شروع کر دی تھی۔وہ راہ میں نظر آتی ہرکھانے والی چیزکیلئے مچل رہا تھا ۔
“گڈو ۔اماں نے بتایا تھا نا، کسی سے کوئی شے لے کر نہیں کھانی ۔ہم ابھی گھر پہنچ جائیں گے۔تم اپنی گلی یا محلے کی کسی دوکان کا نام یاد کرنے کی کوشش کرو ناں ۔”؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اچانک گڈو بولا، آپا ہماری گلی کی لکی بیکری مشہور ہے۔
ارے ہاں، لال گنبد والی مسجد بھی تو ہے۔
وہ گڈو کا ہاتھ تھامے ایک بوڑھے دکاندار کے پاس رک گئی۔
اماں کی نصیحتیں، اسے کسی دوکان یا مکان کے اندر جانے سے روک رہی تھیں ۔وہ باہر کھڑے کھڑے دوکان دار سے کہنے لگی،
” انکل، آپکو لال گنبد والی مسجدکا پتہ ہے”؟
“وہ تو بہت دور ہے ،دو تین گلیاں پیچھے ۔تم دونوں چھوٹے ہو ۔وہاں تک کیسے جاؤ گے۔؟دکاندار نے بغور دیکھ کر کہا ۔
“انکل ہم گھر کاراستہ بھول گئے ہیں ۔”
دوکان دار اللہ کانیک بندہ تھا۔اس نے اپنے بیٹے کو دوکان سنبھالنے کا کہا اور خود ان کے ساتھ چل پڑا۔ آمنہ اب بھی کسی پہ اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھی ۔ واپس گھر کی طرف لوٹتے، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر راستہ پہچانتی رہی ۔چلتے چلتے بالآخر وہ سب لال گنبد والی مسجد کے پاس پہنچ گئے ۔اپنی گلی پہچانتے ہی گڈو بھاگ کر گھر میں داخل ہوا تو اماں زاروقطار رو رہی تھیں ۔ابا بھی پریشان تھے ۔کچھ محلے والے ابا کو تسلی دے رہے تھے ۔
جیسے ہی گڈو اندر داخل ہوا۔ابا نے دوڑ کر اسے گود میں اٹھا لیا۔اور آمنہ کے بارےمیں پوچھنے لگے ۔اتنے میں آمنہ بھی بوڑھے دوکاندار کے ساتھ گھرپہنچ گئی ۔سارا واقع سن کر سب لوگوں نے دوکاندار کا شکریہ ادا کیا۔اور اسے چائے پلا کر رخصت کیا ۔
رات میں اماں ابا نے گڈو اور آمنہ سے تمام واقعہ سنا اور آمنہ کی خاضر دماغی اور بہادری کی بہت تعریف کی۔اور اپنے دوستوں اور کلاس کے بچوں کو بھی یہ سب بتانے کا کہا کہ شاید بہت سے دوسرے بچے گم ہونے سےبچ جائیں اوراپنے گھروں کولوٹ آئیں ۔

Facebook Comments