سندس شہزاد خٹک، قبیلے کا فخر۔۔اے وسیم خٹک

کرونا وائرس نے جس طرح تمام اداروں میں ایک نئی جہت کی بنیاد رکھی ہے اسی طرح اس بیماری نے لوگوں کے روئیوں میں بھی کافی تبدیلی رونما کی ہے ۔ میں نے اس کورونا وائرس اور لا ک ڈاؤن میں ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے جن کے گھر میں خود کچھ نہیں تھا مگر وہ دوسروں کی مدد کرتے تھے ۔ ہر علاقے میں لوگوں نے خاص کر نوجوانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت چندہ اکٹھا کرکے غریب اور نادارلوگوں کی مدد کی ہے ایک جذبہ ان نوجوانوں میں موجزن تھا کیونکہ حالات جس نہج پر جارہے تھے تو امید تھی کہ لوگوں کے پاس کھانے پینے کی اشیا کم ہوجائیں  گی ۔ پورے ملک میں سوشل ورکر دن رات کورونا کے خود کے بغیرعوام تک راشن پہنچانے میں مگن تھے ۔ خود میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر مہم چلائی اور چھوٹے سے علاقے میں تیس لاکھ روپے تک اکٹھے کئے اور لوگوں میں تقسیم کئے ۔ نوجوانوں میں اگر لڑکے ایکٹیو تھے تو ایسے میں کالج اور یونیورسٹیوں کی لڑکیاں بھی اس کارخیر میں حصہ ڈال رہی تھیں، جس میں ایک ہمارے ضلع کرک کی خاتون سوشل ایکٹیویسٹ سندس شہزاد خٹک بھی شامل تھی ۔ جس نے اپنے علاقے میں کورونا لاک ڈاؤن کے دوران   خدمات انجام دیں اس دوران وہ خود کرونا کا شکار بھی ہوئیں مگر انہوں نے سماجی کام نہیں چھوڑا اور اپنی طبیعت کی بحالی کے بعد سندس نے دیگر کورونا مریضوں کو اپنا پلازمہ عطیہ کرنے کی  غرض سے اسلام  آباد چلی گئی تھیں۔

سندس  شہزاد خٹک کی انہی خدمات کی بدولت پاکستان میں قائم امریکی سفارتخانے نے ضلع کرک سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن سندس شہزاد خٹک کی کورونا لاک ڈاؤن کے دوران گِراں قدر خدمات اور کامیابیوں کو سراہا۔سندس شہزاد خٹک کا نام عالمی گنیز  بک ریکارڈ میں دنیا بھر سے 8000 رہنماوؤں میں سے ایک کے طور پر چنا گیا، جو وبائی امراض کے دوران سماجی کاموں سمیت معاشرے کیلئے دیگر مثبت اقدامات میں شامل تھے۔ سندس شہزادی خٹک ضلع کرک کے کرنل (ر) فیض اللّٰہ خٹک کی نواسی اور میجر لعل شہزاد کی دختر ہیں۔ سندس کے دادا کرنل (ر) فیض اللہ کو کوہاٹ کیڈٹ کالج کے بانی کے طور پر جانا جاتا ہے سندس خٹک پشاور کے ایک  مینجمنٹ سائنس کے  ادارے سے سوشل سائنسز میں بیچلر کی ڈگری حاصل کر چکی ہیں اور وہ 10 سالہ سماجی کاموں کا تجربہ رکھتی ہیں۔

سندس شہزاد خٹک بلاگر اور ایک پاکستانی سماجی کارکن کے علاوہ وہ سال 2019 کے بین الاقوامی ‘وزیٹر لیڈرشپ پروگرام’ کی  طالبہ بھی رہ چکی ہیں۔اور اس کے ساتھ ساتھ اسے حکومت پنجاب اور حکومت خیبر پختونخوا  کے ساتھ مختلف سماجی بہبود کے پراجیکٹس پر کام کر نے کا بھی تجربہ ہے ۔ اس کے علاوہ سندس دیگر مختلف این جی اوز کیساتھ بھی منسلک رہی ہیں۔سندس شہزاد خٹک اس سے پہلے بھی سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں مگر کورونا لاک ڈاؤن کے دوران پشاور اور نوشہرہ میں انہوں نے کئی گھریلو تنازعات کو ایک این جی او کی مدد سے اٹھایا جنکی امداد ممکن بنائی گئی۔ ان متاثرہ خواتین میں سے ایک کو سندس شہزاد نے فری لانسنگ کا کام سیکھایا جو آج کل بہترین منافع کما رہی ہیں۔ضلع کرک اور پشاور میں وہ گزشتہ کئی سالوں سے سندس شہزاد خٹک خواتین کے حقوق، سیاحت کو فروغ دینے، نوجوانوں کی ترقی، تعلیم کو آگے بڑھانے سمیت کئی سماجی امور کے لئے کام کررہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جبکہ حال ہی میں ایک ‘جینڈر بیسڈ’ لوکل این جی او نے سندس شہزاد کو بطور سربراہ کی آفر کی جو کہ انہوں نے اپنی الگ منزل اور وسیع سوچ کی وجہ سے ٹکرا دینے کرونا لاک ڈاون کے دوران سندس خٹک کی طرح کے بہت سے خواتین وحضرات نے عوام کی فلاح وبہبود کا کام سرانجام دیا ۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ سندس شہزاد خٹک کی طرح خیبر پختونخواہ کے ہر ضلع میں سوشل ایکٹیویسٹ خواہ وہ مرد ہوں یا خواتین ان کا ڈیٹا اکٹھاکرکے اُن کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں اپنی ٹیم کا حصہ بنائیں جن کی بدولت حکومت ایسے مشکل حالات میں ان سماجی کارکنوں سے کام لے سکتی ہے کیونکہ یہ صرف ضلع کرک کی سندس شہزاد خٹک نہیں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جنہوں نے لاک ڈاﺅن میںبہترین خدمات انجام دیئے ہیں۔ جس طرح سندس شہزاد خٹک نے کرک اور قبیلہ خٹک کیلئے ایک اعزاز حاصل کیا ہے اسی طرح بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے خیبر پختونخوا میں بے سہارا، غریب اور نادار خاندانوں کو کھانے کے پیکیج کے علاوہ مالی اور سماجی معاونت کی ہے ۔ میں خود ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو سوشل میڈیا پر بہترین کام کررہے ہیں اور عوام ان پر اعتماد کر رہی ہے ۔ اّن کے ایک پوسٹ پر لوگ اپنے عطیات دینا شروع کردیتے ہیں ، وہ مالی مدد ہے یا پھر خون کے عطیات دینے کے حوالے سے عوامی مہم ہے اس میں ایسے نوجوان شامل ہیں جن کو حکومتی سرپرستی کی ضرورت ہے خدا نہ کرے مستقبل میں ایسی کوئی صورتحال پیش آجائے تو ایسے نوجوان جو ایک جذبے کے تحت سماجی کام کرتے ہیں ان سے مدد لی جاسکتی ہے ۔ حکومت کو سندس شہزاد اور دیگر ایسی نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو تلاش کر اُ ن سے کام لینا چاہیئے ۔ جو ملک اور قوم کا فخر بنیں

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply