• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • ماہرینِ طبیعیات کو کیونکر تاریخ کامطالعہ کرنا چاہیے؟ میتھیو سٹینلے (ترجمہ: عاصم رضا)حصّہ اوّل

ماہرینِ طبیعیات کو کیونکر تاریخ کامطالعہ کرنا چاہیے؟ میتھیو سٹینلے (ترجمہ: عاصم رضا)حصّہ اوّل

نوٹ: زیرِنظر ترجمہ، تاریخ ِ سائنس کے امریکی پروفیسر میتھیو سٹینلے، نیویارک یونیورسٹی کے ایک مضمون بعنوان ’’Why should physicists study history ‘‘ پر مشتمل ہے۔ میتھیو سٹینلے کا مذکورہ مضمون، معروف مجلے ’’معاصر طبیعیات‘‘ (Physics Today) کے شمارہ نمبر 7، جلد نمبر 69، 2016 میں شائع ہوا ۔

جس طرح طبیعیات دنیا سے متعلق فہرستِ حقائق تک محدود نہیں ہے ، تاریخ بھی اسماء اور تعیناتِ زمان کا نام نہیں ہے ۔ یہ ایک قوی اور بصیرت افروز فکر کی حامل بھی ہو سکتی ہے ۔

طبیعیات کی تعلیم کے دوران ، طبیعیات سے متعلقہ چند چیزوں پر بہتر انداز سے عبور حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ وہ بے ترتیب اور غیرہموار دھارے ہیں جو ہر شے کو دشوار بنا دیتے ہیں : لوگوں کے ساتھ معاملات خواہ انفرادی ہوں یا اجتماعی ؛ غلط فہمیاں ہوں ؛دشمنیاں اور یہاں تک کہ ایک دوسرے سے مطابقت نہ رکھ سکنے والی دوستیاں ہوں ۔ ماہرین ِ طبیعیات اکثر اوقات ایسے مسائل کو خود سائنس کے لیے کارآمد نہیں سمجھتے ۔ تاہم سماجی تعاملات درحقیقت سائنس دانوں کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ بیشر ماہرین طبیعیات کٹھن راہ سے گزر کر ایک سبق کو سیکھتے ہیں کہ وہ ایک ممکنہ مثالی تنہائی کی بجائے ایک حقیقی سانجھی دنیا میں رہنے کے لیے خود کو کیسے لیس کر سکتے تھے ۔

تاریخ مدد کر سکتی ہے ۔ ایک مکمل علمی شعبہ یعنی تاریخ ِ سائنس غیرہموار دھاروں کا مطالعہ کرتا ہے ۔ ہم مؤرخین ِ سائنس اپنے آپ کو یوں دیکھتے ہیں جیسے کہانیوں میں پائی جانے والی قوت کی صورت گری کررہے ہیں ۔ کیسے کوئی معاشرہ اپنی سوچ میں آنے والی تبدیلی، کے مطابق اپنی تاریخ میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے بات کر سکتا ہے ۔ سائنس کا ایک تاریخی تناظر ماہرین ِ طبیعیات کو یہ بات سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے کہ ان کی ہنرمندی کے دوران کیا کچھ ہو رہا ہے ، اور یہ بے شمار آلات فراہم کر سکتا ہے جو خود ماہرین ِ طبیعیات کے لئے مفید ہیں ۔

طبیعیات ایک سماجی سرگرمی ہے

تحقیق افراد کے ہاتھوں انجام پاتی ہے ۔ اور افراد پسند و ناپسند ، اناؤں اور تعصبات کے حامل ہوتے ہیں ۔ ماہرین ِ طبیعیات بھی دوسرے لوگوں کی مانند اپنے پسندیدہ تصورات کے ساتھ جڑ جاتے ہیں اور غالباً ایک طویل عرصہ تک ان کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں ۔ برقی مقناطیسی ایتھر ایک کلاسیکی مثال ہے یعنی ایک بے پایاں کارآمد تصور جو انیسیویں صدی کی طبیعیات پر زیادہ عرصہ تک غالب رہا ۔ اگرچہ یہ بات کھل گئی کہ نظریۂ ایتھر مسائل کو حل کرنے سے زیادہ دشواریاں پیدا کر رہا ہے ، ماہرین ِ طبیعیات 1905ء میں آئن سٹائن کے خصوصی نظریۂ اضافیت کے ہاتھوں اس کے فالتو (superfluous) قرار دیے جانے کے بعد بھی کئی برسوں تک وضاحت کی غرض سے اسی تصور کو ایک مرکزی آلہ کی حیثیت سے استعمال کرتے رہے ۔ تاریخ ِ طبیعیات خوبصورت نظریات سے بھری پڑی ہےجو بہت زیادہ وفاداری کے متقاضی ہیں ۔

لوگ بہت سی جگہوں سے آتے ہیں ، اورماہرین ِ طبیعیات اپنے گھروں کو دوسروں کی مانند محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ۔ اس بات کو فراموش کرنا آسان ہے کہ سو سال قبل پہلی جنگ ِعظیم کے دوران برطانوی سائنس دانوں نے میدان ِ جنگ کے دوسری جانب اپنے جرمن ساتھیوں سے بات چیت کرنے سے انکار کر دیا ۔ حتی کہ جنگ کے اختتام پر جرمن اور ان کے جنگی اتحادیوں کو عالمی سائنسی تنظیموں میں شمولیت اختیار کرنے سے سرکاری طور پر منع کر دیا گیا ۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران ، ایڈولف ہٹلر کے ہاتھوں میں جوہری بم کے آسیب نے اتحادی ماہرین ِ طبیعیات کو جوہری ہتھیاروں کے پنڈورا باکس کو کھولنے پر مجبور کر دیا ۔ بعد ازاں اس میں شامل ہونے والے بیشتر سائنس دانوں نے شدید غم کا اظہار کیا ۔ تاہم جنگ اور قومیت پرستی ، طاقت ور محرک بنتے ہیں ۔

یہ کوئی استثنائی واقعات نہیں ہیں ۔ ماہرین ِ طبیعیات سیاسی رائے ، فلسفیانہ ترجیحات اور شخصی جذبات سے لاپرواہ افراد نہیں ہیں ۔ تاریخ ِ سائنس روز مرہ کی زندگی سے کٹ کر زندگی بسر کرنے والے خالص عقلی عبقری کے اسطورے کو درہم برہم کرنے میں مدد دے سکتی ہے ۔

اور انسانیت کے نسبتاً زیادہ قریب طبیعیات ایک عمدہ شے ہے ۔ مبتدیوں خاص طور پر طلباء کے لیے ، یہ طبیعیات کو زیادہ قابل ِ دسترس بناتی ہے۔ بہت سے ہونہار طلباء سائنس کی تعلیم کو ادھورا چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ ان کو تعلیمی مواد مجرد (disembodied)اور اپنی زندگیوں سے کٹا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ سائنسی تعلیم کے محققین نے تلاش کیا ہے کہ ان تمام گم شدہ طلباء کو ’’اِس شے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی لت تھی کہ وہ جن طریقہ ہائے کار کا اکتساب کر رہے ہیں وہ کیسے وجود میں آئے تھے ، ماہرین طبیعیات و کمیا کیونکر فطرت کو اپنے تصورات کے عین مطابق سمجھتے تھے اور ان کے سیکھے ہوئے اور عظیم تر کائنات کے مابین کیا تعلقات تھے ‘‘۔ اس بات کا امکان ہے کہ طلباء اس حیرت اور تجسس سے ہاتھ دھو بیٹھیں جس نے پہلی مرتبہ میں ان کو سائنس کی جانب کھینچا ۔ تاریخی بیانیے فطری طریقے پر علمی ، فلسفیانہ ، سیاسی ، اخلاقی یا سماجی سوالات کو اٹھاتے ہیں اور یہ امر طلباء کی اپنی زندگیوں کے لیے طبیعیات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے ۔ وہ شعبہ دوسرے شعبوں سے قدرے زیادہ پرکشش ہے جس میں افراد حسابی مشینوں کی بجائے انسان کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔

طبیعیات کی انسانی جہت کی تفہیم طلباء (کے اذہان )کو ماہرین ِ طبیعیات کے حقیقی کام کے بارے میں زیادہ ہموار کرے گی ۔ ماہرین ِ طبیعیات گروہ کی صورت میں کام کرتے ہیں ۔ انہیں بات چیت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ طبیعیات ایک سماجی سرگرمی ہے ۔ تصورات اور تجرباتی سازوسامان مستقل بدلتا رہتا ہے ۔ عمومی نظریۂ اضافیت کے ابتدائی ایام میں ، آئن سٹائن اور اس کے قریبی لوگوں سے براہ راست رابطے کے بغیر نظریے میں مہارت حاصل کرنا نہایت ہی دشوار تھا ۔ اور چونکہ جنگِ عظیم سر پہ تھی ، چند ہی ماہرین ِ طبیعیات کو براہ راست رسائی حاصل ہو سکتی تھی ۔ عمومی نظریۂ اضافیت اسی وقت زیادہ مقبولیت حاصل کر پایا جب ویلم دی سیٹر (Willem de Sitter) نے غیر جانبدار نیدرلینڈ میں آئن سٹائن سے براہ راست رابطہ کے بعد اضافیت سے متعلق اپنی مہارت کو برطانیہ میں آرتھر ایڈنگٹن کو منتقل کیا ۔ خوش قسمتی سے ایڈنگٹن ایک امن پسند انجمن سے تعلق رکھتا تھا (Quaker pacifist) اور ایک جرمن نظریے پر نگاہ ڈالنے کے متمنی چند برطانوی سائنس دانوں میں سے ایک تھا۔ طبیعیات میں تحقیقات اسی وقت ہوتی ہیں جب لوگ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں ، اور تبادلہ خیال ہمیشہ آسان نہیں ہوتا ۔

طبیعیات سادہ نہیں ہے

پیچھے مڑ کر دیکھنے پر ہر شے واضح دکھائی دیتی ہے ۔ تدریسی کتب تجرباتی نتائج کو بدیہی اور نظریات کواپنے ثبوت کے واسطے درکار ریاضی کے چند صفحات کا محتاج دکھاتی ہیں ۔ تاہم شفاف تفصیلات سائنسی نتائج تک پہنچنے کے عمل کے دوران بروئے کار آنے والے تذبذب اور بے پناہ تحقیق کا پردہ فاش کرتی ہیں۔ تاریخ طبیعیات ہمیں یاد دہانی کرواتی ہے کہ شمس مرکزیت سے لیکر جوہری نظریے تک جیسے تصورات جو اب ہمیں سادہ دکھائی دیتے ہیں ، ان کو جواز دینا کتنا دشوار تھا ۔

سادگی کی بجائے پیچیدگی نے عمل ِ سائنس پر حکمرانی کی ہے ۔ ہر دریافت لوگوں ، تصورات ، حادثات اور دلائل کے بے ترتیب اکٹھ سے برآمد ہوئی ہے ۔ عام طور سے ایک مشاہدے یا نظریے کے مطلب کو سمجھنے کی خاطر بہت جدوجہد کرنا پڑتی ہے ۔ مثال کے طور پر، تیل کے قطروں سے متعلق میلیکان کا تجربہ (Millikan oil drop experiment) ایک غیرمبہم تجرباتی ڈیزائن اور بروقت مؤثر نظری تعبیر کے ایک ماڈل کی حیثیت سے تدریسی کتب میں نظر آتا ہے ۔ تاہم رابرٹ میلیکان کی لیبارٹری نوٹ بک پر ایک سرسری نگاہ اجاگر کرتی ہے کہ اس کے لیے اپنے تجرباتی کام کو سرانجام دینا کس قدر دشوار تھا۔

فطرت شاذ ہی سیدھا جواب دیتی ہے۔ چنانچہ سائنسی محققین کو بعض اوقات اندھے راستوں پر چلنا پڑتا ہے اور عام طور سے سعی و خطا اور تخمینے لگانے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ جوں ہی ایک مضبوط نتیجہ حاصل ہوا ، سائنس دان اس تک پہنچنے کے لیے ہونے والی تمام تر جان توڑ محنت کو بھول جانے کا میلان رکھتا ہے ؛ سادگی بظاہر پیچیدگی سے زیادہ مؤثر دکھائی دیتی ہے ۔ تاہم پیچیدگی ہی درحقیقت تسلی بخش ہے ۔ طلباء اور نوجوان محققین کی حوصلہ افزائی اکثر وبیشتر اس بات کو سیکھنے کی بدولت ہوتی ہے کہ طبیعیات سخت محنت طلب ہے اور ان کی کاوشوں کے لیے موزوں ہے کہ وہ ایک تدریسی کتاب میں دیے جانے والے اظہار کی مثل نہیں ہیں ۔ عظیم الشان سائنسی ترقیاں اس بات کی تحسین کے ساتھ مل کر نسبتاً زیادہ نمایاں ہو جاتی ہیں کہ وہ وجدانی لمحوں کی بجائے جدوجہد اور ناکامیوں کا صلہ ہیں ۔ طبیعیات کے نتائج بدیہی نہیں ہیں ۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ جائزہ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply