وہ کون تھے؟۔۔ٹیبی شاہدہ

گول گول کالی سیاہ آنکھوں والی ببلی بےچین روح تھی ۔ اسے انوکھے کام کرنے اور انوکھی راہوں پر چلنے کا خبط تھا ۔ جب وہ کسی نئی واردات کے بارے غور و فکر میں  مصروف ہوتی اس وقت اس کی زبان چپ سادھ لیتی اور اس کی بولتی آنکھوں کی چمک مزید بڑھ جاتی ۔ اسے دیکھ کر گمان گزرتا کہ گیان دھیان میں مصروف ہے پر کسی کو خبر نہ ہوتی کہ وہ تو کسی نئی کھوج کسی نئے شعبدہ کی تلاش میں غرق ہے ۔

ان دنوں شہر سے دور  نیو کیمپس پنجاب یونیورسٹی کا وسیع  علاقہ بے حد سنسان بلکہ بیاباں ہوتا تھا ۔  نیو کیمپس کے ہوسٹلز اور تدریسی عمارت کے بیچ نہر بہتی تھی جس پر طالب علموں کی آمد و رفت کے لئے چھوٹے چھوٹے پل بنے ہوئے تھے ۔ شام ڈھلے یہ علاقہ مزید سنسان ہو جاتا ۔ کبھی کبھار اکا دکا طالب علم نظر  آ جاتا ورنہ دور دور تک کسی ذی روح کا نشان تک نہ ملتا ۔  ایسی ہی اک شام ہوسٹل جانے کے لئے ہم نہر کے پل پر پہنچے ۔ پل پر چلتے چلتے ببلی کے قدم یک لخت رک گئے ۔ اس کی نگاہ کا مرکز اک اکیلی کشتی تھی جو نہر کنارے بے حس وحرکت کھڑی تھی ۔ قریب ہی ملاح بےزاری سے کھڑا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا ۔ نجانے وہ کب سے کھڑا  اس خاموش ماحول کو سہہ رہا تھا ۔ ببلی نے پل پر دھرے اپنے قدم موڑے اور سیدھی ملاح کے سر پر جا کھڑی ہوئی ۔

ہم چار و نا چار اس کے پیچھے چل دئیے ۔  ” چلو  آؤ تمھیں کشتی کی سیر کراؤں  ۔ ” ببلی نے کمال شوق سے دعوت دی جو ہم نے بھی بلا تامل قبول کر لی اور  کشتی کی اور چل دئیے ۔ گرمی کا موسم تھا اور یونیورسٹی میں چھٹیاں ہو چکیں تھیں ۔ بہت سے طالب علم اپنے گھروں کو لوٹ چکے تھے اور باقی جانے کی تیاری میں مصروف تھے ۔ سخت گرم دن کے بعد شام سمے  آسمان پر بادل اتر آئے تھے ۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی اور کشتی پانی اور ہوا کے سنگ ہلکورے لے رہی تھی ۔ اس پس منظر میں کشتی کی سیر کا خیال ہمیں بہت دلچسپ لگا ۔

ہم شوق کے مارے  فورا ً ہی   کشتی میں کود گئے  اور ببلی کے پہلو میں براجمان ہو گئے ۔  ۔ ملاح نے چپو سنبھالے اور  کشتی میں چھلانگ لگا نے ہی لگا تھا کہ ببلی نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا اور فرمایا ، ” میں خود کشتی چلا سکتی ہوں اس لئے  یہ چپو آپ میرے حوالے کر کے تشریف لے جا سکتے ہیں ۔ ” ملاح نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا ۔ پر ببلی نے اصرار  کیا،رسی مضبوطی سے تھامے رکھی ۔ وہ بدستور ملاح کو اپنے کشتی رانی کے  ہنر اور مہارت کی داستان سے قائل کرنے کی کوشش کرنے لگی ۔

وہ نہ مانا ۔۔۔ ببلی نے بھی ضد کا دامن نہ چھوڑا ۔ آخر کافی تکرار کے بعد معصوم ملاح کو ببلی  کے مبینہ ہنر اور مہارت کے آگے چپوؤں کا ہتھیار ڈالتے ہی بن پڑی ۔ وہ بادل ناخواستہ چپو ببلی کے حوالے کر کے کشتی سے باہر کود گیا ۔ وہ چلتے چلتے  بار بار مڑ کے بے یقینی سے ہمیں دیکھتا جا رہا تھا ۔ اس سمے ہم تین تھے اور ہمارے ساتھ کشتی اور نہر تھی ۔

شام ابھی تک سرمئی تھی ۔ ہلکی ہلکی ہوا اور پانی کے امتزاج سے ماحول میں  میٹھی سی ٹھنڈ گھل مل رہی تھی ۔ ہم بہت خوش تھے ۔دبلی پتلی  مہم جو  ببلی نے چپو چلا کے نہری سفر کا آغاز کر دیا ۔ ہم  خوشی سے  قریباً ناچ اٹھے اور ببلی کی واہ واہ کرنے لگے ۔ ہم معصوم انجانوں کا سارا تکیہ ببلی کے فن کشتی رانی پر تھا کہ ہم اس فن میں مکمل صفر تھے ۔ وہ کمال یکسوئی سے چپو چلا رہی تھی اور ہم  کبھی تالی بجا کے اور کبھی ببلی کی ستائش کر کے محض محظوظ ہو رہے تھے ۔ نہر اپنے جوبن پر تھی بلکہ اس سے بھی کچھ آگے تھی ۔ تھوڑی ہی دیر میں ہمیں احساس ہوا کہ ببلی کی جملہ خصوصیات کے مقابلے میں پانی کافی ڈھٹائی اور  سرکشی کا مرتکب ہو رہا ہے ۔

ببلی کا پورا زور لگانے کے باوجود کشتی کی رفتار ایک میٹر فی گھنٹہ سے آگے نہیں بڑھ پا رہی تھی  بلکہ  دھیرے دھیرے  تنزلی رفتار کی خبر دے رہی تھی ۔ ببلی کے چپو اور پانی کے بیچ لڑائی میں صاف صاف پانی کا پلا  بھاری دکھائی دے رہا تھا ۔ لیکن اس کے باوجود ببلی کی تگ و دو جوان تھی ۔ پر پانی   کسی بھی قسم کی مفاہمت ، مصالحت اور تعاون کے لئے تیار نہ تھا بلکہ اس نے تو  دو چار قدم آگے چل کے   یکسر انکار کا عندیہ دے  دیا ۔ پانی جوبن پر تھا اور ببلی نڈھال ۔

چند گام  چلنے کے بعد ببلی نے پانی کے سامنے بالکل ویسے ہی ہتھیار ڈال دیے جیسے ملاح  نے ببلی کے سامنے ڈالے تھے ۔

” میرے بازو شل ہو گئے ہیں میں مزید چپو نہیں چلا سکتی ۔

اب تم دونوں مل کے چلاؤ ” ببلی نے شکست تسلیم کرنے کا اعلان کرنے کے ساتھ ہم دونوں پر بار چپو ڈالنے  کی کوشش کی ۔

ہم سہم کے رہ گئے اس کے علاؤہ ہمارے پاس کوئی چوائس نہیں تھی ۔ ببلی ہم سے ازلی مایوس تھی سو جواب کی پرواہ کئے بنا اپنی کالی کالی گول گول  حیران آنکھوں سے کشتی کو ایک جانب جھکتا ہوا دیکھنے میں مصروف ہو گئی ۔ ہم امید بھری نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے ۔ اب جو کرنا تھا وہ پانی نے یا اس ارسطو زادی نے کرنا تھا۔۔ ہم تو تھے ہی ہمیشہ کے امن پسند شہری ۔

دیکھتے ہی دیکھتے پانی  دھیرے دھیرے کشتی کو سیراب کرنے لگ گیا ۔ ببلی بدستور حیران حیران نظروں سے پانی کو  ایسے دیکھ رہی تھی جیسے  پانی کسی  غیر متوقع حرکت کی جسارت کر رہا ہو ۔ اس کی شکایتی آنکھیں  گلہ کر رہی تھیں  کی مجھے تم سے یہ امید ہر گز  نہ تھی ۔ جونہی پانی عاصمہ کے پیروں سے اوپر کی طرف سرکنا شروع ہوا تو اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ۔اس کی کچی پکی امیدیں  و آس سب دم توڑ گئیں جس کا اعلان اس نے فلک شگاف چیخ مار کے کیا ۔

ببلی نے اپنی حیران آنکھوں میں مزید حیرت بھر کے اسے اچنبھے سے  دیکھا ۔ عاصمہ ہذیانی کیفیت میں مدد کے لئے  کبھی ماں کو پکارتی کبھی اللہ کو اور کبھی اللہ کے رسول کو ۔بیچ بیچ میں سانس بحالی کے وقفہ کے دوران وہ ان سب  قرآنی آیات کا ورد کرنے لگ جاتی جو اسے از بر تھیں  ۔  سانس بحال ہوتے ہی اس کی چیخوں کا سلسلہ وہیں سے شروع ہو جاتا جہاں سے ٹوٹا ہوتا ۔ اس کی آہ و بکا کے دوران میں اور ببلی حالت سکوت میں تھے ۔

پانی دل جمعی سے بدستور کشتی میں بلا روک ٹوک داخل ہو رہا تھا ۔ اور کشتی بھی اسی رفتار سے مزید جھکتی جا رہی تھی ۔ ارد گرد ہُو کا عالم تھا   عاصمہ کی آہ و فغاں  سننے والا وہاں کوئی نہ تھا ۔ وہ بھی اب نڈھال سی ہو گئی تھی ۔ یقینی موت کا منظر ہمارے سامنے تھا ۔ چاروں اور موت اور پانی کے سوا ہمیں اور کچھ نظر نہیں آ رہا تھا ۔ میں نے دل جمعی سے اپنے سارے کردہ نا کردہ گناہوں کی اللہ سے معافی مانگ لی اور مرنے کے لئے تیار ہو گئی ۔

ببلی بالکل ساکت بیٹھی ابھی بھی پانی کو گھور رہی تھی جیسے شکوہ کر رہی ہو کہ تم نے ہمارے ساتھ  اچھا نہیں  کیا ۔ یکایک  ہمیں ایک بہت بڑی کشتی جس میں بہت سے لڑکے سوار تھے اپنی جانب بڑھتی نظر آئی ۔ ہم تینوں جو قریب المرگ تھے  ،  ناامید تھے خاموش تھکی نظروں سے انھیں دیکھنے لگے ۔ عاصمہ کا گلا تو چیخنے کی وجہ سے رندھ گیا تھا لیکن ہم دونوں کا بنا چیخے ہی جواب دے گیا تھا ۔ وہ بلا کی تیزی سے ہماری طرف آئے اور ہماری کشتی کو کنارے کی سمت دھکا دینے لگے حتیٰ کہ کشتی نہر  کنارے  گیلی مٹی میں دھنس گئی ۔

اس سارے عمل کے دوران نہ وہ کچھ بولے نہ ہم ۔ اپنا کام کر کے جس تیزی سے وہ آئے تھے اسی تیزی سے وہ آگے بڑھ  گئے ۔ ہم  یکے بعد دیگرے  اچھل کے کنارے پر کود گئے ۔ عاصمہ سڑک پر ہی سجدہ ریز ہو گئی اور سسکیاں بھرتے ہوئی اس نے وہیں  شکرانے کے نفل ادا کئے ۔

اب رات اتر آئی تھی سو ہم نے اپنے اپنے گھر کی راہ لی ۔ جب میں نے گھر کی گھنٹی بجائی  تو خلاف معمول اور خلاف توقع  میری ماں نے دروازہ کھولا ۔ مجھے دیکھتے ہی وہ چیخ پڑیں ۔ ” کہاں تھی تو ؟ تجھے کیا ہوا  ؟؟ کیا ہوا تیرے ساتھ ؟؟ ”  وہ سانس لئے  بغیر بولے چلی جا رہی تھیں ۔ ان کے ہاتھ میں پکڑی تسبیح کے دانے لرز رہے تھے ۔ ” مجھے لگ رہا تھا  جیسے تو پانی میں ڈوب رہی ہے ۔ میں کتنی ہی دیر سے جائے نماز پر بیٹھی صرف اور صرف تیری زندگی کی دعائیں مانگ رہی ہوں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بول کیا ہوا تھا  ؟؟ تو بولتی کیوں نہیں ؟؟ بتاتی کیوں نہیں ؟؟  بول بول ۔ ۔۔ ” وہ مجھے جھنجھوڑنے کے سے انداز میں بولےجا رہی تھیں اور میں صم بکم مبہوت کھڑی کبھی اس نوجوانوں بھری کشتی کو اور کبھی  اپنی ماں کو دیکھے جا رہی تھی ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply