مرکز ِ نگاہ,۔۔نذہت جہاں ناز

انسان کو اللہ نے جو صلاحیتیں اس کی فطرت میں ودیعت کی ہیں ان کا تقاضا یہ ہے کہ فہم و ادراک کے ذریعے انھیں بروئے کار لایا جائے ، غور و فکر کو اپنی عادت بلکہ فطرتِ ثانیہ بنا لیا جائے اور پھر مستند ذرائع سے حاصل شدہ علم کو مشعلِ راہ بنا کر زندگی کے راستے متعّین کیے جائیں۔ آنکھیں بند کرکے کسی کی تقلید حیوانی رویّہ ہے اور اللہ رب العزت نے انسان کو تمام مخلوقات سے افضل و اشرف بنایا ہے۔شعور و لاشعور کے درمیان تفریق یا مادّی و روحانی وجود کو لے کر کسی ابہام کا شکار نہ ہونا ہی ایک انسان کی زندگی کو صحیح رویّہ کی جانب عازمِ سفر کرتا ہے۔ قدرت انسان کو اس کی پیدائش کے ساتھ لاشعور میں ایک توشہ ، ایک زادِ راہ کے طور پر فطری علم اس کے ہمراہ کرتی ہے اور دوسرا وہ تا حال دریافت شدہ جامع اور تحقیقی علم جو گزرتا وقت اور بڑھتی عمر اسے انسانی تاریخ کے مشاہدوں اور تجربوں کی صورت میں عطا کرتے ہیں اور پھر یاد رہے کہ قدرت انسان کو اپنے ودیعت کردہ فطری علم کے ساتھ تنِ تنہا ہی نہیں چھوڑدیتی بلکہ اس کی رہنمائی کا بھرپور انتظام اپنی آسمانی و الہامی کتب کے ذریعے سے بھی کرتی ہے۔

اس کے بعد ایسا کوئی نکتہ رہ نہیں جاتا جو کسی کو الجھن میں مبتلا رکھے سوائے علمِ غیب کے اور وہ اس عالم الغیب کے ا ن خزانوں میں سے ہے جس میں ا س نے انبیا علیہم السلام کو بھی بہت محدود حد تک شریک کیا ہے اور ہمیں ہماری اس دنیا سے رخصت کے بعد ہی روزِ آخرت میں شریک کرنے کا ارادہ ظاہر فرماتا ہے۔ اور وہ بھی پھر اس وقت تک کہ جب وہ ازل سے ابد تک پیدا ہونے والے تمام جن و انس کو نیک و بد میں تقسیم نہ کرلے اور پھر انھیں ان کے اعمال کے لحاظ سے دو مختلف النّوع جہانوں میں بھیج نہ دے جنھیں عرفِ عام میں جنت و جہنم کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ وہاں پہنچنے کے بعد وہ تمام نیک لوگ جنہوں نے اپنی دنیاوی زندگی کو محدود کرکے اللہ کی رضا کے مطابق بسر کیا تھا اور نتیجے میں بہشت میں پہنچائے گئے تھے ، ا س نئی آنے والی زندگی میں وہ اِسی وصفِ الٰہی سے انعام کیے جائیں گے جسے ہم خالقِ کائنات کے “کُن” سے تعبیر کرتے ہیں اور ہماری تمام کی تمام دنیوی آزمائش و امتحان بھی اِسی ایک وصف کی بنا پر ہے کیونکہ یہاں تو ہمیں محدود اختیارات دے کر امتحان میں ڈالا گیا جو وہاں پہنچ کر ہمیں اپنی تمام خواہشات کو پورا کرنے کے لامحدود اختیار میں تبدیل کردیا جائے گا۔

یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ یہ اختیار اگر کسی ایسے انسان کے ہاتھ میں آجائے جسے دنیا جیسی جگہ پر اپنے محدود اختیار کے باوجود اپنی خواہشات پر اتنا قابو بھی نہیں تھا کہ وہ انھیں پورا کرنے کے سلسلے میں اپنے ساتھی انسانوں کے نفع نقصان کا بھی خیال کرنے کی سوچ سکتا تو ایسے لا محدود اختیار کو وہ کیسے مثبت طور پر استعمال کرسکے گا؟یہی وجہ ہے کہ یہ دنیا ہمیں اک ایسے اسٹیج کی صورت عطا کی گئی ہے جس میں نیکیوں کی ریہرسل کر کے ہم خود کو ا س عظیم الشّان بہشت کے قابل بنا سکیں اور اِس دنیاوی امتحان گاہ سے کامیاب لوٹیں تو روزِ قیامت بہشتی ایوارڈ کے حقدار قرار پائیں
حاصلِ گفتگو یہ کہ اگر ہمیں اپنی ذات سے حقیقت میں محبت ہے اور ہم اسے ا س اعلیٰ مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں جس کی وہ قدرتی حقدار ہے تو انسانی شخصیت کی تمام تر شیطانی ترغیبات اور منفی رجحانات کے باوجود خود پر قابو رکھنا ہمارا اولین زاویہءنگاہ و مطمحِ نظر ہونا چاہیے کیونکہ خالقِ حقیقی کی اِسی توقع کے پیشِ نظر ہمیں اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ اک مخلصانہ مشورہ ہے کہ دنیا میں پہلے ہی ہزارہا ایسے امور موجود ہیں کہ جنھیں ہنوز انسان نہ مسخر کر سکا ہے نہ ہی زیر۔ تو ان کی جانب اپنی توجہ مرکوز کیجیے اور اپنی ذات کے ایسے رموز و اسرار کو اس دن تک کے لیے موقوف کردیجیے جب وہ ہم پر از خود واضح ہوجائیں گے یا کر دیے جائیں گے۔ فی الحال ان کی کھوج اور اس تگ و دو میں پڑ کر کہیں ہم اپنی دنیا یا آخرت یا دونوں ہی برباد نہ کر بیٹھیں۔ بعض اوقات خیالات کی شدت انسان کو غلط راہوں پر گامزن کردیتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنی مکمل بربادی بلکہ خودکشی جیسے مذموم فعل کا بھی مرتکب ہو سکتا ہے اللہ ہم سب کو راہِ ہدایت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے جو کہ بناہماری طلب کے ہمیں قطعی میسر نہیں آسکتی ، آمین!
اللہ نگہبان !

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply