علامہ مرحوم اور تعصب۔۔حسان عالمگیر عباسی

علامہ خادم حسین رضوی مرحوم اب ہم میں نہیں رہے۔ مولانا فضل الرحمان صاحب سے پوچھا گیا کہ بے نظیر صاحبہ دنیا سے رخصت ہو گئی ہیں, لہذا وہ کیا کہیں گے۔ مولانا صاحب نے کہا کہ وہ کیا کہہ سکتے ہیں, جانے والے کے لیے تو قرآن مجید کہہ رہا ہے, ‘انا للہ وانا الیہ راجعون۔’ کل دوست کے ساتھ چائے کے میز پر تھا تو کہنے لگا کہ جانے والے کو تو ابلیس بھی چھوڑ دیتا ہے۔ کیا ہم اتنے بدتر ہو چکے ہیں کہ ابلیس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے؟

خادم رضوی صاحب ایک بہت بڑی تعداد کے پیر و مرشد ہیں۔ سب سے بڑی مذہبی جماعت کے سربراہ تھے۔ محض خادم حسین رضوی صاحب سے نفرت کرتے ہوئے لاکھوں چاہنے والوں کو اندھے کنویں میں دھکیلنا کسی معالج کو زیب دیتا ہے؟

جب منور حسن صاحب رخصت ہوئے تو کتنے ہی ایسے بد اخلاق حضرات برائی کرتے پائے گئے تھے۔ کل رات سے ایک مخصوص سوچ کے حامل اخلاقی گراوٹ کا شکار گروہ خادم رضوی صاحب پہ باتیں کس رہا ہے۔ یہ انتہائی شرم کا مقام ہے۔ چھوڑ جانے والا اگر سو قتل بھی کر کے جائے تو بھی انسانوں کو حق نہیں پہنچتا کہ بدگمانی کریں۔ سو قتل کی معافی بھی اسلامی تاریخ سے ثابت ہے۔ کتے کو پانی پلانی والی بدکار عورت کے جنتی ہونے کی مثالیں دینے والوں کو اسلام مزید گہرائی جھانکنے کی بھی دعوت دیتا ہے۔

خادم حسین رضوی صاحب بلا شبہ ایک ایسی سوچ چھوڑ کر رخصت ہوئے ہیں جو ان کی مخالفین کو ہضم نہیں ہو سکے گی۔ لیکن ان کی یوں اچانک ‘رخصتی’ میں ان کے بدترین مخالفین کے لیے بھی ایک سبق سمویا ہوا ہے۔ کل کو مرنا سیکولر اور لبرل نے بھی ہے اور تاجدارِ ختم نبوت بھی دھرتی نے ہی اچک لینا ہے۔ وحی کے منکر ‘کل نفس ذائقہ الموت’ کا انکار نہیں کر سکتے۔

خادم رضوی صاحب کا کارکن یا کوئی بھی متشدد شخص سیکولرز اور لبرلزم کو اتنا ہی دین بیزار سمجھتے ہوئے قابل نفرت تصور کرتا ہے جتنا کہ کتے کی وفاداری سے متاثر گھر میں جگہ دینے والا ایک آزاد خیال شخص ان کو قابل گردن زدنی خیال کرتا ہے۔ یہ جو آزاد خیالی کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں ان سے زیادہ متعصب روحیں کرہ ارض پہ اپنا وجود ہی نہیں رکھتیں۔ خادم حسین رضوی صاحب نے کسی کو نہیں بخشا۔ لیکن ہمیں خدا سے ان کی بخشش کی دعا مانگنی چاہیے۔ گالی اور تعریف کے علاوہ تیسرا آپشن بھی زیر غور رہنا چاہیے۔ خاموشی بھی سود مند رہتی ہے۔

آج خادم حسین رضوی صاحب رخصت ہو گئے ہیں لہذا دوسروں کا تعصب سامنے آیا ہے وگرنہ مذہبی روایت پسندوں کا مخالف نظریات کے حوالے سے رویہ بھی دردناک ہے۔ کوئی بھی معالج بننے کو تیار نہیں ہے۔ ہمارا معاشرہ مرض میں مبتلا ہے لیکن ڈاکٹرز سرخوں نے پیدا کیے، نہ لبرلزم نے اور نہ ہی مذہب پسندوں نے ایسی کوئی کوشش کرنا گوارا کیا۔ لبرل ازم اور مذہبی شدت پسندی خصوصاً ہمارے معاشرے میں دو انتہائیں ہیں۔ دونوں ہی مردود ہیں۔ درمیانہ راستہ صرف دین ہے۔

خدا کے بندوں پہ اور اس کی زمین پہ کسی شخص کا نظام قابلِ عمل نہیں ہو سکتا۔ یہ جو خدا کی زمین یعنی پاکستان میں وحی کا انکار کرنے والے ایسا کر کے اتراتے ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں, انتہا پسندی کے عروج پہ ہیں اور ان کا زوال خادم رضوی صاحب نہیں بلکہ ان کی اپنی انا و تعصب ہے۔

علامہ جاوید احمد غامدی صاحب ایک بڑا نام ہے۔ ان کی سوچ سے اختلاف جائز ہے۔ ان سے کہا گیا کہ ایسا کچھ بتائیں کہ امت کی تقسیم دم توڑ جائے یا امت کسی نکتے پہ متفق ہو جائے۔ آپ نے کہا کہ امت جب اختلاف رائے سیکھ لے گی تو فرقہ واریت دم توڑ جائے گی۔ آپ سے پھر کہا گیا کہ کیا ایک جماعت کو دوسری جماعت یا ایک سوچ کو دوسری سوچ برداشت کرنی چاہیے؟ جوابا عرض کیا کہ برداشت وہ چیز کی جاتی ہے جو ناپسند ہو۔ ان کا ماننا ہے کہ ایک دوسرے کو کیوں ناپسند کیا جائے؟ ان کے مطابق برداشت تو بہت آگے کی بات ہے۔

جب سید منور حسن مرحوم دنیا سے رخصت ہوئے تو غامدی صاحب سے پوچھا گیا کہ وفات کا سن کر دکھ تو ہوا ہوگا۔ آپ نے جن الفاظ میں سنجیدگی سے رنجیدگی کا مظاہرہ کیا, ہفت روزہ ایشیا منور حسن نمبر میں شائع ہو چکا ہے۔ آپ نے کہا کہ منور حسن صاحب انتہائی دیندار شخص تھے۔ ان کی نیت میں ذرہ برابر بھی شک کی گنجائش ممکن ہی نہیں ہے۔ آپ نے کہا کہ کوئی شخص دین کو کہاں کھڑا ہو کر دیکھ رہا ہے اور اس کی نیت کیسی ہے, اہمیت کا حامل ہے۔ کسی کے چلے جانے پہ مغلظات بکنا غامدی صاحب کے دل کو شدید کھٹکتا ہے۔ آپ نے یہاں تک کہہ دیا کہ طالبان دین کو کہاں کھڑے ہو کر دیکھ رہے ہیں یا ان کی نیت میں کیا چھپا ہے, اہمیت کا حامل ہے۔

قاضی صاحب مرحوم کی بیٹی محترمہ راحیل قاضی صاحبہ کا عاصمہ جہانگیر مرحومہ کے ساتھ رشتہ دیدنی تھا۔ مختلف سوچ و خیال کے لوگ محبت پہ کیوں متفق نہیں ہو سکتے, یہ سوال خود ہی ایک تبصرہ ہے۔ عاصمہ جہانگیر مرحومہ کی وفات پہ جس محبت کا اظہار راحیل قاضی صاحبہ نے کیا, قابل تقلید ہے۔ بات سے بات نکلتی ہے اور مضمون بنتا چلا جاتا ہے۔ خود عاصمہ جہانگیر مرحومہ نے اپنے پیشے و نظریے سے اس حد تک پیار کیا اور ان کا اخلاص باقی رہا کہ وہ کہنے پہ مجبور ہو گئیں کہ کسی دہشت گرد حتی کہ طالبان میں سے بھی کسی کو ماورائے عدالت قتل کی گنجائش قانون میں ہے اور نہ اخلاقیات اس چیز کا درس دیتی ہیں۔ یہ معالج تھیں۔ اب ہمیں صرف معالجوں کی ضرورت ہے۔

ملک بلا شبہ کسی اور خادم حسین رضوی صاحب کا شاید متحمل نہیں ہو پائے کیونکہ اپنی تشریح کو قانون کا درجہ دے کر گستاخی کا الزام دھرنے سے قتل کے اقدام تک کا سفر بڑا کٹھن ہے اور اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے جیسا کہ ایک نام نہاد عاشق نے قائد آباد میں صرف اس لیے منیجر کو قتل کر دیا کیونکہ اس کے نزدیک وہ گستاخ تھا۔ جب پوچھا گیا کہ گستاخی کیا کی تھی؟ جواب میں کہنے لگا کہ یہ صرف فرائض نماز پڑھنے کا کہتا تھا۔ رسول ص کی سنت (نوافل) ترک کرنا اس کے لیے گناہ کا درجہ نہیں رکھتا تھا۔ مزید برآں نبی ص کو منیجر ،بشر سمجھتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رسول ص نے نماز کا حکم دیا ہے, میرے خیال سے نماز سے بغاوت اصل گستاخی ہے۔ اس گستاخی پہ کسی کو قتل کرنے کی اجازت مجھے قانون نہیں دے سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر گستاخی پہ گردن مار دی جائے تو قانون قاتل سے پوچھتا ہے کہ آیا مقتول نے گستاخی کیا کی تھی۔ کیا قائد آباد کا عاشق کٹہرے میں جاکر ثابت کر سکتا ہے کہ وہ بری الذمہ ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمیں قانون کا پابند بنا دے اور جو وفات پا گئے ہیں ان کے لیے دعائے مغفرت کے لیے ہاتھ اٹھانے والا بنا دے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply