غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔5)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

​ اصل و شہود و شاہد و مشہو د ایک ہے
حیران ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
(اس نظم میں دو بحور کا اشتمال اور اشتراک روا رکھا گیا)

طالبعلم ایک
ہے”اصل ” سے مراد کیا بنیاد، بیخ، جڑ؟
یا اصلیت، سچائی، کھری صاف سچی بات؟
یا قطعی درست ، بے آمیز شروعات؟
یا امر ِ واقعی کہ جو ہو من وعن درست؟

طالبعلم دو
میرے خیال میں تو ہے بنیاد، بیخ ، جڑ
یعنی شہود ، شاہد و مشہود ۔۔تین اسم
ہیں من وعن درست فقط اک اصول میں

طالبعلم ایک
ہاں، عین سامنے ہیں یہ الفاظ ، اور پھر

چوتھا “مشاہدہ” ہے ۔ تو اب آپ کچھ کہیں

طالبعلم دو
ہے “اصل” گر اتمان، قطعیت و ماہیت
“اصل ِ شہود” تب ہوئی ابدا “ظہور” کی
یعنی شہود ِ اصل، اصیل، ابتدا، جناب

طالبعلم ایک
گر یہ ہوئی “شہود” کی آیت، حدیث ِ حق
“مشہود” تب حقیقت ِ کُل ہے، جناب ِ من
مشہود، یعنی صاف، اُجاگر، عیاں ، کھُلا

طالبعلم دو
“شاہد ” کو تو بھلا دیا ہم نے ، کہاں ہے وہ؟
پوچھیں تو اس کی “اصل” ہے کیا اس تکون میں؟

طالبعلم ا یک
“اصل ِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے”
(دہرا رہا ہوں پھر وہی اصلی کلید ِ کُل)
یعنی کہ اس مساوی الاضلاع تکون میں
“شاہد” کہاں ہے؟ “دیکھنے والا”، نظر جمائے؟

طالبعلم دو
تینوں حدوں میں ایک برابر ہے یہ تکون
پھر بھی ہیں چشم پوش ہمارے یہ بیت باز
رک رک کے پوچھتے ہیں وہی اک سوال پھر
“حیر اں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں”

استاد ستیہ پال آنند
غالبؔ کو” بیت باز”کا برحق نہیں خطاب
آداب یہ غلط ہے، ذرا متنبہ رہو

طالبعلم دو
نادم ہوں، قبلہ ، اپنی اس بے ہودگی پہ میں
رکھیں “مشاہدہ” کو کہاں اس تکون میں؟

Advertisements
julia rana solicitors

استاد ستیہ پال آنند
آنکھوں کو طاق پر رکھیں، مژگاں کو موند لیں
پھر شاہد و بینندہ نظر، لالٹین سی
اک ہاتھ میں لیے ہوئے “اندر” کا رُخ کریں
بیدار، مگن، منہمک، چوکس رہیں اگر
نظارگی کے شوق میں نگراں رہیں اگر
دیکھیں، نہ دیکھیں کچھ بھی، مگر اس سبیل سے
چلتے چلیں جہاں تلک ممکن ہو، پاؤں پاؤں
رکھیں مداومت میں لگاتار یہ عمل
اور دیکھتے چلیں یہ سب “اندر کی آنکھ” سے
ہے یہ عمل مشاہدہ، جاری، رواں دواں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اس نظم میں دو بحور کا اشتمال اور اشتراک روا رکھا گیا)

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply