بندے کو پہاڑ نہیں، کنکر مارتا ہے۔۔عارف انیس

کیا آپ نے آج اپنا جوتا چیک کیا؟
یاد رکھیں آپ کا مقابلہ پہاڑ کی بلندی سے نہیں، ایک چھوٹے سے کنکر سے ہے، بندے کو سفر کی بلندی نہیں مارتی، اس کے جوتوں کے اندر گھسا ہوا کنکر مارتا ہے۔
یہ کنکریاں ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ یہ ہمیں پھسلا دیتی ہیں، سوچوں کو مسل دیتی ہیں، خوابوں کو چرا لیتی ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے سے کام ہوتے ہیں جو ہمیں کھا جاتے ہیں۔
کبھی کنکر میں جوتے کے ساتھ سفر کیا ہے؟ بھلے سے آپ نے لاکھوں روپے مالیت کے نئے اطالوی جوتے پہنے ہوئے ہوں، اگر ان کے اندر کوئی چھوٹا سا کنکر بھی موجود ہے، تو راستہ کھوٹا اور لمبا ہوجائے گا۔ سفر توانائی چوس لے گا اور منزل پر پہنچنے کی بجائے کنکر سے نجات پانے کی فکر کھا جائے گی۔ ورنہ پاؤں کا چھالا تنگ کرتا رہے گا۔ یہ محمد علی کا قول ہے اور باکسنگ کے رنگ میں اس کی معنویت اور واضح ہوجاتی ہے۔
آج کا دن شروع کرتے ہوئے آپ کے ذہن میں کچھ ایسے کام ہیں جو آپ نے ضرور کرنے ہیں۔ فرق اس سے پڑتا ہے کہ دن کے اختتام پر کیا کچھ ہو چکا ہے۔ زندگی ہم سے نیت کے ساتھ عمل کا بھی خراج مانگتی ہے۔ لیکن مسئلہ دن کا نہیں، ہفتے، مہینے، سال اور زندگی بھر کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے جس پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا تھا، کیا ہم اسی پر موجود ہیں یا چھوٹی کنکریوں کی وجہ سے ہم ابھی ڈھلوانوں پر موجود ہیں اور پھسلتے جارہے ہیں۔
یہ ہمارا راستہ کھوٹا کرنے والے کنکر سچ مچ کے بھی ہوسکتے ہیں اور نفسیاتی اور جذباتی بھی ہوسکتے ہیں سٹریس ،انزائٹی وغیرہ نفسیاتی کنکر ہیں جب کہ غصہ، ڈر، حسد، نفرت، شرمندگی، اداسی وغیرہ 27 جذباتی کنکروں میں شامل ہیں جو ہماری رفتار توڑ دیتے ہیں۔ کبھی ہمارے بیمار رشتے اور ناطے یہ کنکر بن جاتے ہیں۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اداسی کسی بھی دوسرے انسانی جذبے کے مقابلے میں انسانی شخصیت کے اندر 240 گنا زیادہ دورانیے تک اپنا اثر برقرار رکھتی ہے۔ کسی بھی رشتے دار کی موت یا بری خبر کے بعد لوگوں کو اس کے اثر سے نکلنے کے لیے کم از کم 120 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ جبکہ شرمندگی کے اثر سے باہر نکلنے میں صرف 30 منٹ کا عرصہ ہی درکار ہوتا ہے۔ نفرت کا جذبہ 60 گھنٹے تک انسان کو اپنے حصار میں لیے رکھتا ہے جبکہ خوشی کا احساس 35 گھنٹے تک برقرار رہتا ہے۔ بیزاری وہ جذبہ ہے جو 2 گھنٹوں میں انسانوں کے ذہن سے نکل جاتا ہے جبکہ امید، ڈر وغیرہ 24 گھنٹے، حسد 15 گھنٹے اور جوش و خروش 6 گھنٹے تک آپ کا احاطہ کیے رکھتا ہے۔ شکر گزاری کے احساس کو تحلیل ہونے میں 5 گھنٹے درکار ہوتے ہیں تو سکون کا احساس تین سے چار گھنٹوں میں چھن جاتا ہے۔
منزل کی طرف جانے کے رستے میں کنکر تو ہوتے ہیں اور وہ چاہتے، نہ چاہتے ہوئے بھی ہمارے جوتوں میں گھس جاتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ یا تو انہی کنکریوں سمیت سفر جاری رکھا جائے اور آبلہ پائی کی جائے، یا چند ثانیے رکا جائے، جوتے اتارے جائیں اور انہیں جھاڑ لیا جائے، لمبے سانس لے کر مراقبہ کرلیا جائے یا دعا مانگ لی جائے اور سفر پھر سے شروع کرلیا جائے۔ یاد رکھیں یہ آخری کنکر نہیں ہوگا، اگلے کنکر کی تیاری بھی رکھیں، پھر اس سے نبٹیں اور سفر جاری رکھیں۔ بس یہ ذہن میں رکھیں کہ یا آپ جیتیں گے یا کنکر جیتے گا۔ اگر آپ نے کنکر ڈھونڈ لیا تو جوتے جھاڑ کر چلنا آسان ہوجائے گا۔
آج چلتے چلتے رکیں، لمبا سا سانس لیں، اپنے جوتوں کے اندر موجود کنکر کو محسوس کریں۔ آپ کیا بوجھ اپنے ساتھ لیے جارہے ہیں ؟کون سے کنکر آپ کا راستہ کھوٹا کر رہے ہیں؟ آپ رک کر اپنے جوتے کب جھاڑیں گے؟
عارف انیس
مصنف کی زیر تعمیر کتاب “صبح بخیر زندگی” سے اقتباس

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply