منٹو(کچھ پرانی یادیں )قسط1۔۔آغا شورش کاشمیری

منٹو سب کے دوست تھے،وہ دست بننے اور بنانے میں چنداں تلف نہ برتتے،پہلے تعارف میں ہی یارِ غار نظر آتے۔
پاکستان بنا تو ابتدائی دنوں میں وہ ساحر لدھیانوی کے ہمراہ دفتر آزاد میں تشریف لائے۔میں ان دنوں آزادکا ایڈیٹر تھا۔۔
مصافحہ کیا اور بے تلف ہوگئے۔۔وہیں ترقی پسند کانفرنس کی صدارت کے لیے ان کا نام تجویز ہوا،میں نے چائے پیش کی تو مسکرائے۔۔انہیں شعرو شاعری سے کچھ واجبی سا ہی تعلق تھا۔پھر بھی ایک جوش کا ایک شعر چائے کی پیالی کے منہ پر طمانچے کی طرح رسید کیا۔۔
ادب کراس خراباتی کا جس کو جوش کہتے ہیں
کہ یہ اپنی صدی کا حافظ و خیام ہے ساقی
میں خاموش رہا۔۔میرے لیے سگریٹ کا دھواں ہی پریشان کُن تھا۔اور یہاں شراب کی طلب تھی۔ساحر نے خدا جانے کان میں کیا کہا،کہ مطالبہ کبابوں پر آن ٹھہرا۔۔
میں نے ملازم سے کہا
وہ کباب لے آیا۔۔اور سیر ہو کر چلے گئے۔۔اگلے دن اعلیٰ الالصبح پھر موجود تھے۔۔
بھئی یہ خطبہ تیار ہوگیا ہے۔۔ذرا ایک نظر ڈال لو۔۔
آپ خطیب ہو؟۔۔۔۔میں نے سوال کیا
آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔منٹو کا خطبہ اور میں دیکھوں؟۔۔
اصرار کیا۔۔نہیں ایک نظر۔۔؟پبلک کا معاملہ ہے۔
ظاہر ہے کہ اس میں ان کا تیکھا انداز ِ بیان موجود تھا۔
میں نے  اصرار   کیا تو قہقہہ لگایا،اور کہا۔۔اچھا ایک دس روپے کا نوٹ نکالو،میں نے دس روپے کا نوٹ نذر کیا،ایک ردی کاغذ کی طرح اٹھایا اور چلے گئے۔۔
میں سورج ڈھلتے ہی ساحر کے ہاں پہنچا تو میز پر بوتل رکھی تھی،اور تِکوں کا شادِ کام ہورہے تھے۔۔
منٹو دیکھتے ہی اُچھلے۔۔۔آگئے!
تمہارا نوٹ کار گر ہوگیا۔۔بلا واسطہ نہ سہی بالواسطہ ہی سہی۔۔
انہوں نے یہ الفاظ اس تیزی سے کٹے پھٹے لہجے میں کہے ککہ میں نے سوچے سمجھے بغیر کوئی مصرعہ جڑ دیا۔۔منٹو نے پیگ حلق سے نیچے کیا،اور میں اُن کے شگفتہ چہرے کی طرف دیکھتا رہا۔۔جو شراب سے اور بھی نکھر رہا تھا۔
اسے کہتے ہیں۔۔
مالِ حلال بود بجائے حرام رفت
میں نے منٹو سے ازراہِ شرارت کہا۔منٹو نے کھٹ سے مصرع جڑ دیا
مالِ حرام بود بجائے حلال رفت
اور پھر خود ہی اس کی توضیح میں لگ گئے۔حرام۔حرمت سے ہے،اور حلال سے مراد ہے،صبوحی۔۔۔اور ا ب ذرا اس پر غور کرلو،تم صحافی اور خطیب لوگ الفاظ استعمال نہیں کرتے،ان سے چار چار نکاح پڑھاتے ہو۔۔منٹو کے حواس او ر زبان دونوں بے قابو تھے۔۔
ان میں اور اختر شیرانی میں بہت سی باتیں مشترک تھیں،مثلاً دونوں شراب کی نذر ہوگئے۔۔دونوں نے اس طرح پی کہ ان کی زندگی میں سے شراب نکال دی جائے تو باقی زندگی ایک چوتھائی رہتی ہے۔دونوں میں انا تھی۔۔اختر تو رکھ رکھاؤ کی بات بھی کرلیتے تھے،مثلاً عدم مل گئے تو اُس سے کہا،عدم تم غزل کے بادشاہ ہو اور میں نظم کا شہنشاہ۔۔لیکن منٹو میں یہ تکلف بھی نہ تھا،یعنی اپنے سوا کسی کو شاذ ہی مانتے تھے۔۔
وہ اپنے آپ کو اس برصغیر کا سب سے بڑا افسانہ نویس سمجھتے تھے،اور ان کا یہ دعویٰ کسی حد تک درست بھی تھا،لیکن اپنے معاملے میں وہ سخت غیر روادار تھے۔ترقی پسندوں سے ان کی جھڑپ کا ای سبب یہ بھی تھا کہ وہ کسی صف میں شریک ہوکر نہ تو اپنی انفرادیت کھونا چاہتے تھے،اور نہ انہیں پارٹی مینڈیٹ قبول تھا۔ان کا خیال تھا یہ “ہدایت نامہ خاوند” کوئی منفرد ادیب گوارا نہیں کرسکتا،انہیں نعرہ ازی سے سخت نفرت تھی،وہ بے تحاشا اور بے روک لکھنے کے عادی تھے۔ان کا خیال تھا کہ جب تک زندگی کی مکروہ صورتوں کو سامنے نہ لاؤ،اور عوام کو ان کی زبان میں انہی کے زخم نہ دکھاؤ،یہ معاشرہ کبھی اصلاح پذیر نہیں ہوگا۔وہ اس دور میں واعظ کے نہیں بلکہ طنز کے قائل تھے۔ان کا نظریہ تھا کہ برہنہ معاشرے کو برہنہ گوئی ہی سے زچ کیا جاسکتا ہے۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply