کراچی : نفرتوں کی دھول میں اٹا شہر(حصّہ اوّل)۔ناصر منصور

پاکستان میں اربنائزیشن کا عمل تیزی سے جاری ہے لیکن یہ عمل عمومی طور پر غیرمنظم اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے جاری ہے۔ گو اسلام آباد پاکستان کا نیا آباد کیا جانے والا جدید ترین منصوبہ بند شہر تھا لیکن آج یہ بھی بے ہنگم طور پر چار سو پھیلا چلا جارہا ہے۔ دیگر اربن سینٹرز میں سے اکثر اپنی ماضی کی تاریخ میں نہایت منظم اور منصوبہ بند شہر رہے ہیں لیکن ترقی کے سرمایہ دارانہ راستے اور منافع کی نجی نوعیت نے شہروں کو ہول ناک اذیتوں اور مسائل سے دوچار کر رکھا ہے۔ شہر اپنی ترقی کے بوجھ تلے دبے چلے جارہے ہیں۔ اس کی ایک عبرت ناک مثال اڑھائی کروڑ سے زائد انسانوں کا شہر کراچی ہے جو اپنی شہری حکومت کے قیام کے ایک سو دس برس گزارنے بعد بھی بدترین سماجی، سیاسی، انتظامی اور ماحولیاتی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔

صورت حال یہ ہے   کہ شہر کو درپیش گھمبیر ہوتے بحرانوں کی وجوہات تلاش کرنے کی بجائے بدقسمتی سے شہری مسائل کی آڑ میں ایسی سیاست کو فروغ دیا جارہا ہے جو کسی صورت شہری زندگی کو بہتر بنانے کی سکت نہیں رکھتی۔ یہ طرزِ عمل نفرت، آگ، خون اور تباہی کا ایسا الاؤ دہکائے گا جسے ٹھنڈا  کرنے میں کئی ایک دہائیاں درکار ہوں گی۔ شہر اس سے پہلے بھی اپنی زندگی کی کئی دہائیاں ایسی ہی لگائی نسلی و لسانی آگ کی نذر کر چکا ہے۔ اس شہر کی مثل اس اساطیری پرندے کی سی ہے جو جلنے  کے بعد ہر بار نئے جوش کے ساتھ پھر جی اُٹھتا ہے۔

مسائل کا شکار تو پاکستان اور بالخصوص سندھ کے تقریباً تمام اربن سنٹرز ہیں ہی لیکن کراچی میں شہری سہولیات کا خطرناک حد تک فقدان شہریوں کے غصے اور افسردگی کو اس لیے بھی شدید کر دیتا ہے کہ یہ شہر ملک کے دیگر شہروں کی بنسبت ٹیکسوں اور آمدن کی مد میں اتنا کچھ دیتا ہے کہ اس کا مقابلہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ شہر ایک محل و وقوع کی بنا پر ہمیشہ ہی جاذب نظر رہا ہے، اس کی زمین اور دولت ہی اس کی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔

شہر میں واقع دو سمندری بندگاہیں، ایک بین الاقوامی ہوائی اڈے، پچانوے فی صد غیر ملکی تجارت اور نصف سے زائد فی صد ملکی و غیر ملکی صنعت، اور کاروباری اور مالیاتی اداروں کا مرکزہ ہونے کے باوجود یہاں نہایت ہی بنیادی نوعیت کی انسانی ضروریات شرم ناک حد تک ناپید ہیں۔ یہ دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے جس کی سالانہ جی ڈی پی ایک سو چونسٹھ ارب ڈالرز یعنی ستائیس ہزار چھ سو پچاس ارب روپے ہے جوکہ ملکی جی ڈی پی کا بیس سے پچیس فی صد اور سندھ کی جی ڈی پی کا پچانوے فی صد ہے۔ یہ شہر ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ نو سو اسی ارب روپے سے زائد ٹیکس کی مدد میں دیتا ہے جو جمع ہونے والے مجموعی ٹیکس کا اکتالیس فی صد ہے۔ لیکن اس کے جواب میں شہر سالانہ 30 ارب سے بھی کم اپنی ضروریات کے لیے حاصل کر پاتا ہے۔

شہری سیاست کا رخ ہمیشہ ہی بے تابی کا سا رہا ہے ، دارالحکومت کی حیثیت چھننے ، صنعتی اور تعلیمی مرکز ہونے نے جہاں اسے ایوب آمریت کے خلاف مشترکہ اپوزیشن کا مضبوط مورچہ بنا دیا وہیں انقلابی تحریکوں کا گڑھ بھی بنا دیا۔ لیکن یہی شہر آگے چل کر مذہبی جماعتوں کو اس وقت پارلیمینٹ میں پہنچانے کا باعث بنا جب پورا ملک ترقی پسند اور قوم حقوق کی علم بردار سیاسی قوتوں کی آواز ب ا ہوا تھا۔ اور ایک وقت میں نسلی اور لسانی ابھار نے شہر کی ہر اس اعلی روایت کو بندوق اور خوف کے زور پر مسخ کر ڈالا جسے اس نے صدیوں کے سماجی سفر میں پال کر توانا کیا تھا۔

شہر کے ان دعویداروں  نے وہ تباہی مچائی ہے جو شاید حملہ آور بھی نہیں کرتے انہوں نے نہ صرف اس کی ہر خوب صورتی کو بگاڑا بلکہ  شہر کی تاریخ ہی کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی۔ اس ساری واردات میں نامعلوم قوتوں کا مکمل  آشیر باد حاصل رہا۔ اپنی شاندار تاریخ رکھنے والا یہ شہر ایک تاریخی کُل یعنی سندھ کا جُز ہے اور نہایت اہمیت کا حامل جُز لیکن یہ کُل نہیں ہے اور نہ ہی تاریخی کُل سے جدا کیا جاسکتا ہے۔ اسی تاریخ حقیقت پر ہر بار ضرب لگانے کی لاحاصل کوشش کی جاتی رہی ہے اور نفرت کے انگارے بھڑکا کر ہاتھ تاپنے کی کوشش میں نہ صرف ہاتھ جلے بل کہ اس الاءو میں شہر کی ہمہ رنگ خوب صورتی بھی جھلس گئی۔

سندھ پر 1847 میں میانی کی جنگ کے بعد برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضہ کا آغاز ہوا اور اٹھارہ سو چالیس سے اسے سندھ کا کیپیٹل قرار دیا گیا۔ سندھ کے اس ساحلی شہر کو میونسپلٹی بننے کا اعزاز 1910میں ملا اور اس کے پہلے صدر سر چارلس مول اور ان کے بعد غلام علی چھاگلہ اس عہدہ پر فائز ہوئے جن بیٹے نے پاکستان کا سرکاری ترانہ کمپوز کیا تھا۔ کراچی کے نامور شہری محترم جمشید نسروانجی مہتا بھی بیس برس اس عہدہ پر رہے۔1933 میں کراچی سٹی میونسپل کمیٹی ایکٹ پاس ہوا اور اس کا سربراہ مئیر قرار پایا۔ پاکستان وجود میں آنے سے کچھ ماہ پہلے حکیم محمد احسن کراچی کے مئیر بنے تھے۔ اب تک چوبیس مئیر شہر کے انتظامات چلاتے آئے ہیں۔ یہ برصغیر کی اولین میونسپلٹی تھی جس نے رہائشی/ پراپرٹی ٹیکس عائد کیا۔

سندھ کو ممبئی پریذیڈنسی کے ماتحت کر دیے جانے کے خلاف ایک طویل اور مسلسل جدوجہد کے بعد جب یکم اپریل انیس سو چھتیس کو سندھ بمبئی سے علیحدہ ہوا تو کراچی ایک بار پھر اس کا دارالحکومت بنا۔ پاکستان بنے کے کراچی ملک کا کیپٹل قرار پایا اور اسے سندھ اسے1948  میں الگ کر دیا گیا جس کے نہایت برے اثرات مرتب ہوئے۔ اکتوبر 1955 میں ون یونٹ کے نام پر سندھ کی صوبائی حیثیت ختم کر دی گئی جو ون یونٹ مخالف تاریخی تحریک کے نتیجے میں یکم جولائی1970میں دوبارہ بحال ہوئی اور کراچی ایک بار پھر سندھ کا کیپٹل قرار پایا۔

سندھ اور اس کے اکثر شہروں اور خصوصاً کراچی کی ڈیموگرافی میں غیرمتاسب طور پر تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ ملک کے قیام کے بعد ہجرت کر کے ہندوستان سے آنے والوں کی اکثریت سندھ اور خصوصاً اس کے شہروں میں رہائش پذیر ہوئے، کراچی کے کیپٹل بننے کے نتیجے میں ملک کے دیگر علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد میں سندھ اور خصوصاً کراچی کی جانب نقل مکانی ہوئی، ون یونٹ کے پندرہ سالوں میں ملک کے دیگر علاقوں سے اس شہر کی جانب آنے کا سلسلہ جاری رہا، صنعتی شہر اور واحد سمندری بندرگاہ ہونے کی بنا پر روزگار کے متلاشیوں کے لیے یہ شہر ہمیشہ توجہ کا مرکز رہا، بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وہاں سے آنے والوں کے لیے بھی کراچی ہی وہ شہر تھا جہاں وہ رہائش اختیار کرنا چاہتے تھے، اسی عرصہ میں برما سے بھی بہت سی برادریوں نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ اسی کی دہائی کے آخری سالوں میں ایران میں شاہ مخالف انقلاب اور افغانستان پر تھوپے جانے والے جہاد کے نتیجہ میں لاکھوں افغان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ بھی اسی شہر کی جانب ہی تھا، اس کے بعد حالیہ برسوں میں قبائلی اور دیگر علاقوں میں جاری آرمی آپریشن کے نتیجے میں بھی متاثرین کی ایک بڑی تعداد نے اس شہر کا رخ کیا، سندھ کے مختلف علاقوں میں روزگار کے سکڑتے امکانات نے بھی لوگوں کو کراچی کا رخ کرنے پر مجبور کر دیا ہے، یہی صورت حال پنجاب کے جنوبی علاقوں کی ہے جہاں سے کراچی کی جانب مائیگریشن کا سلسلہ جاری ہے۔ 2010 میں آنے والے تباہ کن سیلاب اور غیر معمولی بارشوں نے بھی سندھ کے دیہی علاقوں سے سیلاب متاثرین کی ایک بڑی تعداد کراچی میں پناہ لینے پر مجبور کیا ۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ کراچی میں آبادی کا دباؤ عام شرح کے برعکس بہت تیزی سے بڑھا ہے لیکن اسی تناسب سے ترقی کے مدارج طے نہ ہو سکے۔ شہر کو اس کی آبادی کے تناسب سے وسائل کی فراہم کبھی بھی ممکن بنانے کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی۔ اگر شہر کی آبادی ہی اصل سے تیس سے چالیس فی صد کم کر دی جائے تو پھر شہر کا بحرانوں کی گرداب میں پھنس جانا کوئی اچنبے کی بات نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

شہر کی نمائندگی کے دعویداروں کے نزدیک اس کے شہریوں کی ترقی کبھی بھی مقصود نہیں رہی بلکہ شہر کی دولت اور قیمتی زمینیں ہی ان کا مطمع نظر رہا ۔ پارک ، باغ ، میدان، ندی نالے تو ہمیشہ سے ہی قبضہ گیروں کے لیے تر نوالہ ثابت ہوئے لیکن انہوں نے اسکول ، کالج کی عمارتوں کو بھی جاگیر تصور کر لیا۔ بجلی ،پانی کے ترسیل کے مناسب نظام کو تہہ و بالا کر دیا ۔ بجلی کے سو سالہ طریقہ کار کو غیر ملکی کمپنی کے ناتجربہ کار گروہ کے حوالے کردیا جس نے شہریوں کو تاریکیوں میں ڈوبی الم ناک داستان کے سوا کچھ نہیں دیا ۔ پانی جیسی انسانی ضرورت تک شہریوں کی رسائی ناممکن بنا دی گئی ، شہریوں کے موجود پانی مافیا نے شہریوں ہی بیچنا شروع کر دیا ۔ شہر کے چالیس فی صد سے زائد علاقے آج بھی پانی کی پائپ لائینز سے یکسر محروم ہیں ۔ نکاسی آب کے نظام کی حالیہ بارشوں نے قلعی کھول کر رکھ دی ہے ۔

Facebook Comments


بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply