حرم کعبہ اور حرم نبویﷺ کے کبوتر ۔۔منصور ندیم

یوں تو  آپ مدینہ منورہ یا مکہ مکرمہ میں  جائیں تو ہر تاریخی مقام یا دونوں حرمین کے علاوہ تمام ہی مساجد حتیٰ  کہ  غار ِ ثور یا غارِ  حرا پر آپ کو مقامی خواتین یا لڑکے کبوتروں کا دانہ بیچتے نظر آتے ہیں اور مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام اور مدینہ میں مسجد نبویﷺکے اطراف بہت سے معتمرین یا حج کے دنوں میں ثواب کی امید پر کبوتروں کی ایک بڑی تعداد کو گندم کا دانہ ڈالتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بلکہ آپ جیسے ہی ان مقدس شہروں کی زمین پر پاؤں رکھتے ہیں تو کبوتروں کے جھنڈ کے جھنڈ لوگوں کا استقبال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

سیکڑوں برس سے زائرین اور حرم کے کبوتروں کے درمیان ایک رشتہ قائم ہے۔ یہاں کبوتر مسجد الحرام کے اطراف چکر لگاتے ہیں اور وقتا فوقتا زائرین کے سروں پر منڈلاتے رہتے ہیں اور اپنی انسیت کا اظہار کرتے ہیں۔ کبوتر ڈار  کی شکل میں جب ایک عمارت یا دوسری عمارت یا صحن حرم میں اترتے ہیں تو یہ منظر بڑا دلکش ہوتا ہے۔ زائرین بھی کبوتروں کو دانہ ڈال کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔

حرم مکی کے کبوتر منفرد رنگ رکھتے ہیں۔ مسجد الحرام کےاطراف  اِس کے صحنوں او ر مکہ کی سڑکوں پر اڑتے ہوئے بڑے بھلے لگتے ہیں۔

سرمئی مائل نیلے رنگ کے پَر اور گردن کے پاس سبز حلقہ بڑا خوبصورت لگتا ہے۔ گردنوں کے نزدیک نیلے یا سبز مائل پَروں والے یہ کبوتر خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ۔ یہ ایسی خصوصیات ہیں جو دیگر قسم کے کبوتروں اور پرندوں میں نہیں پائی جاتیں۔

اس لیے کہ احرام کی حالت میں یا اس کے بغیر بھی کسی طور ان کا شکار جائز نہیں ہے۔ ان کے شکار یا قتل کرنے کی صورت میں فدیہ یا دم واجب آتا ہے۔ ان کبوتروں کے ساتھ خاص معاملہ کیا جاتا ہے۔ احرام پوش ہوں یا سادہ لباس میں۔ زائر مقامی شہری ہوں یا مقیم غیر ملکی کسی کو بھی کبوتروں کے شکار یا انہیں مارنے کی اجازت نہیں ہے۔ ان کبوتروں کو اپنے ٹھکانے سے بھگانے کے لیے ان کے انڈے توڑنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔

مسجد الحرام کے اطراف کبوتروں کے حوالے سے عمرہ اور حج زائرین میں کئی قصے اور کہانیاں رائج ہیں۔ مکہ کی تاریخ اور سیرت طیبہ کی کچھ کتب سے یہ حوالہ ملتا ہے کہ یہ حرم کے کبوتروں کی نسل غار ثور کے دہانے پر گھونسلہ بنانے والے کبوتر سے ہے۔ اسی لئے ان کبوتروں کو نقصان پہنچانے کی حرمت اس امر سے وابستہ ہے کہ یہ اُن کبوتروں کی نسل سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے غارِ ثور میں قیام کے دوران غار کے دروازے پر گھونسلے بنا ڈالے تھے۔

ویسے مدینہ اور مکہ کے کبوتروں کی اس کے علاوہ کوئی خصوصیت نہیں ہے کہ حج یا عمرہ کے احرام باندھے ہوئے شخص کے لئے اس کا شکار کرنا اور اسے بھگانا جائز نہیں ہے، اسی طرح اس غیر محرم کے لئے بھی یہ ناجائز ہے جو مکہ یا مدینہ کے حدود حرم کے اندر ہو، لیکن جب ان دونوں کی  حدود سے باہر نکل جائے تو غیر محرم کے لئے ان کا شکار جائز ہے، جس طرح دیگر جانوروں کے شکار کا مسئلہ ہے۔

ذوالحجہ کے ابتدائی پانچ دنوں میں کبوتروں کے جھنڈ کے جھنڈ مکہ مکرمہ کی جانب آتے ہیں اور پھر مہینے کے درمیان ایک مرتبہ پھر مدینہ منورہ لوٹ جاتے ہیں۔ حرم مکی کے باہر موجود کبوتر مختلف ناموں، رنگوں اور نسلوں کے ہیں۔ تاریخ اور دستاویزی کتابوں میں بھی کبوتروں کی اقسام کی تفصیلات ملتی ہیں۔ ان میں سے بعض کی گردن گہرے نیلے رنگ کی ہوتی ہے۔ ان کے پروں کے کنارے اور دم سیاہ ہوتی ہے جبکہ ان کا باقی حصہ سفیدی مائل نیلے رنگ کا ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سعودی عرب کی تاریخی دستاویز میں ہے کہ ’حوطہ سدیر‘ کا ایک زرعی فارم حرم مکی کے کبوتروں کی نگہداشت اور افزائش کے لیے وقف ہے مکہ کا ایک شہری حرم کے کبوتروں کے لیے ایک عمارت وقف کیے ہوئے ہے اس کی آمدنی سے ان کا دانہ ڈالا جاتا ہے اور ان کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ یہاں انواع و اقسام کے کبوتر مکہ مکرمہ بالخصوص مسجد حرام اور مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے اطراف میں ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ بلکہ مدینہ میں مسجد قباء، مسجد قبلتین، میدان احد اور مکہ میں غار ثور اور غار جبل پر بھی کثرت سے ان کبوتروں کی آماجگاہ ہے ۔

Facebook Comments