• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گوئٹے اور فاؤسٹ کا ایک تنقیدی جائزہ: بشیشور منور لکھنوی(مرتب: عاصم رضا)قسط3

گوئٹے اور فاؤسٹ کا ایک تنقیدی جائزہ: بشیشور منور لکھنوی(مرتب: عاصم رضا)قسط3

بیس سال کی عمر میں گوئٹے کو بیماری اور کمزوری کے باعث لیپزگ(Leipzig) کی پڑھائی حوصلہ شکن ثابت ہوئی اور اسی لیے انہوں نے پلٹ کر پھر وطن کی راہ لی اور یہی وہ زمانہ تھا جب ان کی کچھ توجہ الکیمیا کی طرف مبذول ہوئی ۔ اسی زمانے میں ان کے ایک خاندانی دوست  فرالیں  فان کلیشن برگ کے ذہنی تاثرات نے ان کے دل میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ زندگی کے مقدس سفر میں بدی کا پیش آنا لازمی ہے اور اس میں شک نہیں کہ گوئٹے نے فاؤسٹ کے مقدر کو ان روحانی قدروں سے معمور کر دیا جو گناہ و سزا کی قدیم دقیانوسی لغویتوں سے بہت دور تھیں ۔ ان کی فراست بڑی تیزی کے ساتھ پختہ ہو رہی تھی ۔ دوسری طرف ان میں مضحکہ و طنز کا سریع عنصر بھی برقرار رہا اور جیسا کہ آگے چل کر بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ عنصر ان کی زندگی میں برابر قائم رہا ۔ وہ مضبوط قوت ِ ارادی والے ایک گریجویٹ(فاضل) تھے اور پروفیسروں پر اس طرح آواز ہ کشی کر بیٹھتے جس طرح انہوں کے فاؤسٹ کی اولین خود کلامی کے دوران کی ہے اور اس سے بھی زیادہ خود کلامی انہوں نے اس مکالمے میں اختیار کی ہے جو فریشمین اور ڈاکٹر مفسٹوفلیس کے درمیان ہوا تھا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پھر اسی نوعمر گوئٹے نے اتنی دیرپا اور عمیق فراست کے ساتھ کام لے کر اظہارِ فضیلت کے خیال کو بے نقاب بھی کر دیا ہے ۔ للکار بھرے فقرے جن الفاظ میں ان ایسے نوجوانوں نے دنیا کو تحقیر کا نشانہ بنایا ہے،ان (الفاظ)  میں ان کے شیطان کی طعنہ زنی کا انداز معلوم ہوتا ہے ۔ فاؤسٹ کی ذات میں بھی شک اور گمان کی نیت سنجیدہ اور بالغ ہے اور یہ کیفیت ان حالات میں نہیں ہوتی جب اس کو تلخی کے لیے اکسایا جاتا ہے ۔ بہرحال چونکہ فاؤسٹ اور گوئٹے کا خالق ان دونوں کے بمقابلہ نسبتاً زیادہ عظیم ہے اس لیے گوئٹے کو مفسٹوفلیس کے بمقابلہ گوئٹے سے زیادہ متشابہ (مقابل )نہیں کرنا چاہیے ۔ گوئٹے جذباتی قسم کے انسان تھے ، ان میں بردباری اور انکسار کی خو (عادت) تھی اور خودضبطی  (ضبط نفس) کا مادہ بھی ان میں کچھ اسی قسم کا تھا جس کا اظہار زیادہ حد تک وہ ان ہیروؤ ں (خاص  کرداروں ) کے سامنے نہیں کرتے تھے جن کا تعلق صیغہ ذکور(مرد)  سے تھا ۔ گوئٹے سمجھتے تھے کہ زعم اور خودآرائی کا شمار فاؤسٹ کے عیبوں میں داخل ہے ۔ ٖفاؤسٹ صرف زبردست ارضی روح سے یہ نہیں کہتا تھا کہ میں ہر لحاظ سے تیرا ہم پلہ ہوں کیونکہ میرا نام فاؤسٹ ہے۔لیکن وہ اپنی ساری ڈانت پھٹکار کو بھول جاتا ہے اور پھر آگے چل کر روح (اسپرٹ) کی طاقت کا دعویدار ہوتا ہے ۔ اس کے مزاج میں خود آرائی ہے اور وہ مارگریٹ کی قابل تعریف سادگی کو ضرب پہنچاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ قصور وار قرار پاتا ہے ۔

اس میں شک نہیں  کہ حصول ِ اقتدار کی بیتابانہ تلاش کی دھن فاؤسٹ کے دماغ میں موجود ہے اور یہی وجہ  ہے کہ وہ جو کچھ پہلے کرتا دھرتا ہے ، بعد میں اس کو بہت بڑی حد تک ملیامیٹ بھی کر دیتا ہے لیکن خود گوئٹے میں انسانی دسترس سے باہر جا کر بھی تکمیل ِ کار کا جو حد سے زیادہ حوصلہ  موجود تھا ، اس کا ردعمل ایک ناقابل تسخیر جرات سے ہو جاتا ہے جس کو ہر قسم کے سکون پذیر جذبے میں کمزوری نظر آتی تھی ۔ گوئٹے حرکت ِ باعمل کی احتیاج کو حد درجہ زیادہ ممتاز مذہبی منزلت سمجھتے تھے ۔ دوران ِ مطالعہ جب فاؤسٹ سینٹ جان کے الفاظ کی نظر ثانی کے لیے نہایت مستعدی اور ایمانداری کے ساتھ قولِ فیصل صادر کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے ، اس میں جس چیز کو بہت  بڑھ چڑھ کر قدرومنزلت دی جاتی ہے وہ عہد نامے کو دی جاتی ہے ۔ مفسٹوفلیس کے ساتھ اپنے عہدوپیمان میں فاؤسٹ کو اسی حالت میں واقعی مردود سمجھنا چاہیے اگر شیطان اس کو حرصِ داز میں گرفتار کر کے سوقیانہ قسم کے اطمینان اور آسودگی کی زنجیر میں جکڑ دیتا ہے اور کہتا ہے :

جو وقت گریزاں سے یہ میں کہوں

حسین تو ہے لے تو توقت سے کام

اس تحریض و ترغیب میں مغنی کی طرف مائل ہونے والے مفسٹوفلیس کو اپنے مقصدِ حیات میں کبھی کامیابی نہیں حاصل ہو سکتی ۔ اور ٹسٹامنٹ (عہد نامے) کے زیرِ عنوان ان کی ایک نظم میں خود گوئٹے کا ایمان چیخ اٹھتا ہے :  صرف بارآور شے کو آپ سچائی کہیں۔

فاؤسٹ کے پہلے حصے کی داستان اگرچہ بڑی پائیدار اور شہرہ آفاق داستان ہے مگر ڈرامے کی حیثیت میں اس کی ہیئت کے لحاظ سے اس میں کوئی غیررسمی پہلو نہیں نظر آتا ۔ فاؤسٹ کے دماغ میں جو کشمکش جاری و ساری نظر آتی ہے ، اپنی زندگی پر اس کی محنت گیرانہ تنقید سے ہمیں جو سابقہ پڑتا ہے اس سے اسٹیج کے بمقابلہ قارئین کے لیے بڑی دلچسپ تقریریں سننے  میں آتی ہیں ۔ اس میں ڈرامے کے لیے ایک خاص پرداز ایک خاص اٹھان اختیار کرنا پڑتا ہے ۔ جہاں تک تھیٹر کا تعلق ہے خود گوئٹے کی نظر میں اپنے شاہکار کی کامیابی بہت مشکوک تھی اور اسی لیے یہ ثابت کرنا زیادہ آسان ہے کہ اسٹیج کے بمقابلہ وہ ایک بڑی ڈرامائی  نظم پیش کرنے کا ارادہ کر رہے تھے مثلاً شاعر تفصیل کے ساتھ یہ بات زیادہ بیان نہیں کرنا چاہتا کہ ویلنٹائن کی موت اور والپرگس(Walpurgis) کی رات کے درمیان ایک سال کی مدت گزر چکی ہے اور نہ اس کو کرداروں کا ، منظریات کا یا ڈرامے کے اداکاروں کا تفصیلی ذکر پسند ہے ۔ ایک بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام الناس کے سامنے عظیم حصہ اول کا کوئی تماشا اس وقت تک پیش نہیں کیا جا سکا جب تک گوئٹے اپنی عمر کے 80ویں سال میں نہیں پہنچ گئے ۔ وائمر(Weimar) میں اسی 80ویں جنم دن کے موقع پر ایک مزید کھیل پیش ہوا ۔ وجہ یہ تھی کہ جامع اور بھرپور تربیت کا سہرا خود گوئٹے کے سر تھا ۔

بعد کی جن نسلوں کی پرداخت گونوڈ کے ایک خلاصے پر ہوئی تھی ان کو یہ بات یاد رہنا چاہیے کہ گوئٹے کی خاص اداکارہ دراصل انسان کی مصیبت زدہ وہ  روح ہے جو ہم سب میں پائی جاتی ہے اور جو ہمارے پراسرار طریقے کے لیے جستجویانہ دوا دوش (دوا دارو) کے سلسلے میں جرات تلاش کرتی ہے اور اس کا جواب اس مقام پر طلب کرتی ہے جہاں جواب آسانی کے ساتھ سننے میں نہیں آتا ۔ بہرحال کچھ بھی ہو ، اس چیستان کا نقطۂ معراج  حاصل ہوتا ہے تو گریچن  کی تازہ دم نرمی کے طفیل حاصل ہوتا ہے اور یہی وہ موضوع ہے جس میں نوعمر گوئٹے بیشتر اپنے داخلی تجربے کی دل پذیر حقیقت میں اپنے یقین و ایمان کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے ۔

اس مقام پر مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُن پڑھنے والوں کے لیے جن کو اس میں دلچسپی حاصل ہو ، اس عظیم الشان  کارنامے کی فنکارانہ ترقی کا ایک مختصر سا خاکہ پیش کیا جائے لیکن جن لوگوں کو ادب کے نقطہ خیال سے اس قسم کی ابتدائی تصنیف سے کوئی دلچسپی نہ ہو ، وہ اُسے چھوڑ کر پانچویں سیکشن کی توجہ مبذول کرنا پسند فرمائیں تو خوب  ہو ۔

گوئٹے کا شوق شروع شروع میں قدیم قصے کے ایک پہلو کی طرف راغب ہو گیا تھا جسے فاؤسٹ نے ٹرائے کی ایک حسینہ کو جادو کے زور سے جگایا تھا اور نیک خصالی کے اس نمونے سے اس کے دماغ میں ایسی تقلیب  ہیئت ہو گئی جس سے معلوم ہوا کہ یونانی حسن و فن (یونانی جمالیات ) حقیقت کے قالب میں ڈھل  گیا ہے ۔ حالانکہ ایک قدیم روایت کے مطابق صاف بیانی سے کام لے کر اس کے سوا اس کا اور کوئی مقصد نہ تھا لیکن اس کے توسل سے حظِ نفسانی کی کوئی صورت پیدا ہو جائے ۔ ہیلن کا یہ تصور گوئٹے کے خیالات میں برابر جاری رہا اور اس کے بعد وہ فاؤسٹ کے دوسرے حصے میں جمالیاتی اہمیت کے ساتھ نمودار ہوئی لیکن اس جواں سال شاعر کی تصنیف کے حصہ اول میں اس کی سادہ مزاجی اور  بے وفائی کی شکار گریچن نے اس کے شاہکار کو صوری شکل دینے کے لیے اور باقی تمام مبالغہ آمیز چیزوں کو اس کے دماغ سے خارج کر دیا ۔ احساس کی جس گہرائی پر ان کا دارومدار تھا اس کا تعلق اس ابتدائی معاشقے سے تھا ، اسے وہ کبھی فراموش نہ کر سکے ۔ گوئٹے کے لڑکپن میں واقعی ایک گریچن کا وجود تھا ۔ اس زمانے میں اس دیہاتی لڑکی کے ساتھ ایک ناگوار مڈبھیڑ ہو گئی تھی جس کی شیریں  فطرت اردگرد کے خراب ماحول سے برباد ہو چکی تھی ۔ اور اسٹراس برگ کے قریب سسنیہم میں رہنے والے ایک پادری کی لڑکی فریڈرک برائن کی والہانہ محبت اور پھر اسی کی جدائی کے عالم  میں ان کا ضمیر بالغ ہو گیا تھا ۔ اس موقع پر گوئٹے نے کہا تھا :

سیکھنے سے مجھ کو فوراً آ گیا

ارتکابِ جرم ہوتا تھا  جسے

گوئٹے نے فاؤسٹ کا پہلا مسودہ 1773ء سے لے کر 1775ء کے زمانے میں قلمبند کیا ۔ اس میں گریچن کی تمام داستان اور اس کے ساتھ ہی فاؤسٹ کے پہلے لفظ فریشمین ینز آیورباش کے سیلر یعنی تہ خانے ، ان سب باتوں کا بھی ذکر تھا ۔ 1775ء میں یہ اصلی نسخہ گوئٹے بمقام وائمر لے گئے لیکن گیارہ سال کے عرصے میں جب تک قلمدانِ وزارت ان کے پاس رہا ، یہ نسخہ اٹھا کر طاق پر رکھ دیا گیا اور مکمل حصہ اول کے اختتام تک پہنچنے کے لیے دو مزید مدتوں کی ضرورت پیش آئی ۔

جب 1786ء میں گوئٹے وائمر سے روانہ ہونے لگے تو انہوں نے پھر دوبارہ اس کام کی طرف توجہ کی اور بعد کے چار سالوں  کے درمیان اس میں کچھ اضافے اور ہوئے جن  میں فاؤسٹ کے کچھ مطالبات مفسٹوفلیس کے نام ہیں ۔ اس میں زیادہ تر یہ کارنامے میں ۔ فاؤسٹ اور غار کا بیشتر نیز جادوگرنی کے باورچی خانے کا سارا مواد شامل تھا ۔ آخری تصنیف اطالیہ میں لکھی گئی ۔ اس زمانے میں گوئٹے نے وائمر کی افلاس زدہ ریاست کے نظم و نسق سے کئی سال وابستہ رہنے کے بعد اس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور جو صاف صاف اعتراف انہوں نے اپنے نیک نفس ڈیوک کارل آگسٹ کے سامنے کیا تھا ، اس سے یہ ظاہر ہے کہ عیاشی اور اوباشی کا مشغلہ بڑی بے دردی کے ساتھ روم میں علانیہ طور پر نظر آ رہا تھا جس کا خاکہ مفسٹوفلیس کے تحت اپنے تاثرات کی ذیل میں اس قدر شدید طنزیہ انداز میں کھینچا ہے ۔ 1797ء سے 1801ء تک کے عرصے میں انہیں تیسری مرتبہ موقع ملا ۔ اس زمانے میں ان کو شلر (Schiller) کی طرف سے حوصلہ افزائی مل رہی تھی ۔ گوئٹے نے اس عظیم خلا کو پر کیا جو ان کے خیال میں واگنر کے اخراج اور فریش مین والے منظر کے درمیان واقع تھا ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اس میں السیٹرن ڈان اور الیٹرن ڈے ، پراسرار پوڈل فیز دیگر اور مفسٹوفلیس کے درمیان پیش آنے والے مناظر قلمبند کیے تھے ۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی چیزوں کا اضافہ ہوا مثلاً تہدیہ تھیٹر کے آغاز کی تمہید ، افتتاحیہ ، وال پرجس کی رات یا جادوگرنی کی دعوت۔  1808ء میں اشاعت کے لیے  جو آخری حصے لکھے گئے اس میں صدائے اختتام شامل تھی ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا یہ بے چاری مارگریٹ کی صدائے بازگشت ہے ۔

یہ بڑے افسوس کی بات ہو گی کہ زجروتوبیخ میں جلد بازی اور ترش روئی کو جو کہن سالی کے بجائے زمانہ جوانی کا عطیہ ہوتی ہے ، ہم اس کی جذباتی کمزوری کے خاتمے کی علامت سمجھ بیٹھیں ۔ گوئٹے پرامید ہونے کے خیال سے اس نیت کے ساتھ کام نہیں کر رہے تھے کہ اختتام خوشگوار ہو گا ۔ شروع سے آخر تک مایوسی کی گہرائیوں کا سامنا ان سے زیادہ کوئی نہیں کر سکتا تھا اگرچہ ان کو معلوم تھا کہ مسرت میں بھی کتنی رفعت کتنی بلندی ہوتی ہے ۔ ذرا  گزرے ہوئے دنوں کی طرف نظر ڈالیے جب وہ ساٹھ سال کے ہو گئے تھے ۔ اپنی تصنیف ورتھر اور نوجوان فاؤسٹ کی تصنیف کے موقع پر انہوں نے اپنے مرحوم دوست زلٹر کے نام بڑی صدق دلی سے لکھا تھا ، ’’ جب میں نے عزم اور کوشش کے ساتھ موت سے جان بچانا چاہی تو مجھ پر کیا گزری اور اس کے بعد بھی کس طرح مجھے کتنی مرتبہ جان توڑ کر اور دشواری کے ساتھ ہاتھ پاؤں مار کر عظیم تباہی سے اپنی جان بچانا پڑتی ہے ‘‘۔ الیسٹر کے طلوع ہونے پر فاؤسٹ کو جو مایوسی ہوئی ہے اس پر گوئٹے کے خط میں بڑی اہم روشنی ڈالی گئی ہے ۔ مگر واقعی گوئٹے کے لیے جرات مندی کا یہ اظہار عین ایک فطری سعادت تھی  کہ اس کے زیرِ اثر ان کو آخر دم تک کبھی ایسی بے آہنگیوں کا یقین نہیں آیا جن کی گتھیاں سلجھ ہی نہیں سکیں ۔

تیسری بار انہیں جو شدید ترین فنکارانہ مشقت کرنا پڑی ، وہ یہ تھی کہ ناٹک کے خاتمے پر قید خانے کے منظر کو نثر سے نظم میں تبدیل کرنا پڑا ۔ آیورباش کے تہہ خانے میں شراب کا منظر اسی طرح پیش کیا گیا ہے اور ناٹک کے آخر میں جو دل دوز سادگی دیکھنے میں آتی ہے اس کے ساتھ شراب نوشوں کی  ھو حق سے بھری ہوئی بدتمیزی کا مقابلہ کیا گیا ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے شاعر گوئٹے کو اپنے فن میں کس قدر پختگی حاصل ہوئی ہے ۔ ان کو اپنے فن پر کامل عبور ہے ۔

گوئٹے کی نظم میں بلا کی روانی ہے اور اس روانی کا رخ نہایت خوبصورتی کے ساتھ ان کے تخیل کی طرف رہتا ہے ۔ اصل یہ ہے کہ متغزلانہ انداز میں شعر کہنے والا ان سے زیادہ بلند مرتبہ کوئی اور شاعر جرمنی میں آج تک پیدا ہی نہیں ہوا ۔ اور سچ  پوچھیے تو وہی جرمنی کے عظیم ترین انسان بھی تھے ۔ بایں ہمہ یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ ان کی نظم میں جو تسلسل اور روانی ہے اس کے سامنے ان کا متغزلانہ انداز کا کلام بھی نہیں بھڑتا (ٹھہرتا) ۔ بعض مرتبہ وہ اپنی سادگی اور اپنی بلند موسیقیت کے لحاظ سے کلاسیکی حیثیت کے مالک ہوتے ہیں لیکن دوسری جانب بعض حالتوں میں اشعار کی روانی میں رومانی جذبات کی پٹ سے پینگوں کے سے مزے ملنے لگتے ہیں ۔ سنجیدہ نثر میں ترجمہ جو مثلاً روح (اسپرٹ) کی روانی سے ادا ہوتا ہے ، گوئٹے کے حدودِ سخن سے خارج ہوتا ہے ۔ اس کو ان کے اقلیم ِ سخن میں قدم رکھنے کی  اجازت ہی نہیں کیونکہ ان کی نظم میں تو سحر طرازیاں ہی سحر طرازیاں فردوس گوش ہوتی ہیں ۔ بخلاف اس کے سینکڑوں اشعار ایسے بھی ہیں جن کو گوئٹے کے تخیلات سے توانائی عطا ہوتی ہے ۔ لطف یہ کہ اپنے کلام میں کسی قسم کی رنگا رنگی پیدا کرنے کے لیے ان کے دل میں خواہش ہی نہیں پیدا ہوتی ۔ وہ اپنے اشعار کو سوقیانہ خواہشات سے کبھی متحرک نہیں کرتے ۔ کہا جا سکتا ہے کہ مارگریٹ جو تقریر کرتی ہے اس میں بڑا زور ہوتا ہے ۔ اس میں کمال درجہ سادگی ہوتی ہے اور اس میں شک نہیں کہ اس معاملے میں کوئی اس کا ثانی نہیں ۔ اس کی تقریر کا ترجمہ کرنے سے مترجم بھی گھبرا اٹھتا ہے ۔ اس کو اندیشہ ہوتا ہے کہ اصل مفہوم کو ادا کرنے میں کہیں مسلسل رکاکت کا پہلو نہ ابھر آئے ۔ اور مفسٹوفلیس جب بولتا ہے تو بڑے دھڑے کے ساتھ ۔ اس کی بول چال عام ہوتی ہے ۔ اس کی تقریر بامحاورہ ہوتی ہے اور یہ تو وہ خود خدائے کریم کے سامنے اپنی بے باکانہ معذرت خواہی میں خود بھی کہتا ہے ۔ ہر شخص کو ترجموں کی معذرت خواہی  کا ڈھنگ بالعموم اجیرن معلوم ہونے لگتا ہے ۔ لیکن جو پڑھنے والے انگریزی سے واقف ہوں وہ اگر اپنا حافظہ کام میں لاتے رہیں اور یہ دوباتیں یاد رکھیں تو ان کو گوئٹے کے کلام سے بہت زیادہ حظ حاصل ہو ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply