گلگت بلتستان انتخابات: اس بار نیا کیا تھا؟۔۔۔محمد ہاشم

گلگت بلتستان کا خطہ ان دنوں سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے قومی اور عالمی خبروں کا محور بنا ہوا ہے، جہاں 15 نومبر کو گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کی 24 میں سے 23 نشتوں پر پنجہ آزمائی کے لئے امیدوار کم و بیش سات لاکھ ووٹرز کی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کرینگے۔

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کی کُل نشستیں 33 ہیں، جن میں 10 اضلاع سے 24 ارکان کا انتخاب ہوتا ہے، جبکہ 6 خواتین اور 3 ٹیکنوکریٹس کی نشستیں ہیں۔

یوں تو ہر پانچ سال بعد گلگت بلتستان میں انتخابات کا میلہ سجتا رہا ہے لیکن اس بار کی انتخابی مہم بلاشبہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز رہی ہے۔ موجودہ انتخابی مہم میں بہت سے محرکات, واقعات اور سرگرمیاں ایسی رہی ہیں جو اس الیکشن کو ماضی کی سیاسی سرگرمیوں سے الگ کرتی ہیں۔

گلگت بلتستان کی عوام خاص طور پر نوجوانوں نے اس الیکشن مہم میں جس جوش, جذبہ, شعور اور ولولے کے ساتھ حصہ لیا ہے اس کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی۔ یوتھ کمیونٹیز, طلبہ تنظیمیں, اور سیاسی جماعتوں کی یوتھ ونگز نے جس جذبے کے ساتھ اس انتخابی مہم کو رنگین اور جاندار بنایا ہے اس کی نظیر گلگت بلتستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

دوسری طرف خواتین نے بھی مردوں کے شانہ بشانہ ہوکر انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا اور سیاسی جماعتوں کے  خواتین ونگز بھی بھرپور انداز میں اپنے امیدوار کی کامیابی کے لئے میدان میں کود پڑے  ہیں۔ خواتین کی یہ غیر معمولی موبلائیزیشن بلاشبہ اس خطے کی خواتین کے روشن مستقبل کی ضامن ہے۔

نوجوانوں نے جہاں گراؤنڈ میں انتخابی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا، وہاں سوشل میڈیا جیسے اہم ترین اور جدید پلیٹ فارم کا بھرپور استعمال کیا اور سیاسی امیدواروں سے لے کر ان کے حامیوں, مرکزی سیاسی تنظیموں کے آفیشل سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے گلگت بلتستان الیکشن مہم کی بھرپور کوریج کی گئی۔

گلگت بلتستان انتخابات میں گو کہ وفاقی سیاسی تنظیمیں بھرپور حصہ لیتی رہی ہیں اور مشرف دور میں ق لیگ, بعد میں پیپلز پارٹی اور گزشتہ پانچ سال مسلم لیگ ن نے یہاں حکومت بنائی لیکن موجودہ الیکشن سے پہلے کی مہم جوئی میں جس زور و شور سے وفاقی جماعتوں نے حصہ لیا اور جس دلچسپی اور جوش  و جذبے کا مظاہرہ کیا وہ دیدنی تھا۔

پہلی بار وفاقی جماعتوں کے مرکزی قائدین نے کئی کئی دنوں تک گلگت بلتستان میں قیام کیا اور دور افتادہ علاقوں کے طوفانی دورے اور جلسے کیے اور عوام میں گھل مل گئے۔ تین بڑی وفاقی جماعتوں پیپلز پارٹی, مسلم لیگ  ن اور حکمران جماعت پی ٹی آئی کے مرکزی قائدین جن میں بلاول بھٹو, مریم نواز, شاہد خاقان عباسی, سیف اللہ نیازی, علی امین گنڈاپور, زلفی بخاری اور دیگر قائدین گلگت بلتستان میں مستقل کئی دنوں تک ڈیرہ ڈال کر بیٹھے رہے۔ خود وزیر اعظم عمران خان نے بھی دورہ کیا گو کہ وزیر اعظم کا دورہ یکم نومبر جشن آزادی گلگت بلتستان کی نسبت سے تھا لیکن اس دورے میں بھی سیاسی مہم جوئی کا رنگ عیاں رہا۔

میڈیا کا کردار اس انتخابی مہم میں کلیدی رہا جس میں گلگت بلتستان کے مقامی میڈیا نیٹ ورکس کے ساتھ ساتھ مرکزی مین سٹریم میڈیا اور بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس مہم کی بھرپور کوریج کی۔ مین سٹریم میڈیا جس میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا شامل ہیں, نے اپنے اہم ترین عہدیداران کو اس الیکشن مہم کی کوریج کے لئے بھیجا اور ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے لوکل صحافی اور میڈیا نیٹ ورکس نے مثالی کردار ادا کیا اور انفرادی سطح پر کوریج کے ساتھ ساتھ قومی اور بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ بھی بھرپور تعاون کرتے ہوئے یہاں کی عوام کی آواز پوری دنیا تک پہنچائی۔

ایک اور اہم ترین پہلو اس الیکشن مہم کا یہ بھی تھا کہ فرقہ واریت کا عنصر نہ ہونے کے برابر رہا۔ کئی دہائیوں سے گلگت بلتستان انتخاب کا مرکز فرقہ واریت رہا ہے اور مسلک کی بنیاد پر ووٹ کا قبل از انتخابات فیصلہ کیا جاتا رہا ہے جس کی وجہ سے ان گنت ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے لیکن گزشتہ سات سالوں سے گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کا ناسور ختم ہوتا رہا اور موجودہ پر امن اور بھائی چارے کے ماحول میں یہ مہلک روایت بھی دم توڑگئی اور لوگ مسلکی ووٹ سے باہر نکل کر اپنی پسند اور شخصیت کی اہلیت پر ووٹ دینے کو تیار ہیں۔اس کے علاوہ خاندان اور قبائلی ووٹ بھی چند حلقوں کی حد تک رائج ہے جو کہ بتدریج کم ہوتا آرہا ہے۔

اس الیکشن مہم کی ایک اور خاص بات تھی کہ لوگ اب سڑک, گلی, ذاتی نوکری اور ذاتی مفادات کے بدلے ووٹ دینے کے بجائے بڑے پیمانے پر علاقے اور خطے کے دہائیوں سے سلب حقوق کے حصول, جس میں حق ملکیت اور حق حاکمیت, قانون ساز اسمبلی کو بااختیار بنانے, وفاق میں نمائندگی دینے کے ساتھ CPEC جیسے اہم ترین منصوبے میں گلگت بلتستان کی بحیثیت گیٹ وے, حصہ دینے جیسے کلیدی اور ا ہم ترین مطالبات کے ساتھ میدان میں ہیں۔ عوامی شعور کی اس لہر کی وجہ سے وفاقی جماعتوں نے بھی اپنی اپنی انتخابی منشور میں ان مطالبات کو جگہ دی ہے

Advertisements
julia rana solicitors

اب 15 نومبر کو اس میراتھن کا Grand finale ہونے جارہا ہے۔ نتیجہ جو بھی ہو اور جس کے بھی حق میں ہو, public awareness کی یہ لہر گلگت بلتستان کے پر فضا ماحول کے لئے ایک خوشگوار ہوا کے جھونکے کا اضافہ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply