• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مینٹل ہیلتھ/‘ٹراما’ کلچر، موٹیویشنل سپیکر اور ہم (قسط اوّل)۔۔۔ڈاکٹر عزیر سرویہ

مینٹل ہیلتھ/‘ٹراما’ کلچر، موٹیویشنل سپیکر اور ہم (قسط اوّل)۔۔۔ڈاکٹر عزیر سرویہ

آج کا دور بلاشبہ نفسیاتی صحت (مینٹل ہیلتھ) پر فوکس کا دور کہلایا جا سکتا ہے۔ کسی بھی علم پر جب عروج کا دور آتا ہے تو تاریخی ٹرینڈ ہمیں بتلاتا ہے کہ اس علم کی اہمیت کو پہلے overestimate کرتے ہوئے انسانی تحقیق اس کا علمی وزن اصل سے کچھ اضافی بتاتی ہے۔ ہر چیز پر اسی کو پیمانہ بنا کر پرکھے جانے کا ٹرینڈ چلتا ہے، بہت سے انسانی پراسیس اس کے کھاتے میں ڈال کر واضح (explain) کیے جانے لگتے ہیں۔ پھر وقت گزرتا ہے، تھیسیسزکا اینٹی تھیسسز ہوتا ہے، پینڈولم دوسری انتہا کو پہنچتا ہے (یعنی علم کا رد ہونے لگتا ہے)، اور بالآخر سب کچھ اعتدال و توازن میں لا کر انسان نئی کھوج میں لگ جاتا ہے۔

تو مینٹل ہیلتھ پر آج کل یہی وقت چل رہا ہے۔ آپ کو جابجا آگہی ملتی نظر آتی ہے، جو کہ اچھی بات ہے۔ لیکن اس آگہی میں اکثر برائی جو پائی جاتی ہے وہ اس کا تقریباً ہوروسکوپ (ستاروں کے علم پر مبنی، جسے میں ذاتی طور پر ردی سمجھتا ہوں) جیسا ہونا ہے: یعنی مجھ سا منکر بھی اگر اپنا ہوتوسکوپ پڑھ لے (بند دماغ کے ساتھ) تو حیران ہوتا ہے کیونکہ کچھ نہ کچھ اس میں سے ضرور فِٹ ہو رہا ہوتا ہے۔ لیکن جوں ہی دماغ کھول کر پڑھیں تو معلوم ہو جاتا ہے جب اتنی عمومی سی بات کہہ دی جائے جیسے “اس ہفتے آپ کو ایک نیا انکشاف ہو گا” یا “اس ماہ آپ کی زندگی کا ایک اہم فیصلہ ہو جائے گا” تو کوئی نہ کوئی تُکا لگ جانا پراببلٹی کے اصولوں کے تحت تقریباً ناگزیر ہے۔ اسی طرح آپ مینٹل ہیلتھ کا لٹریچر اٹھا لیں تو کوئی نہ کوئی نفسیاتی مرض اپنے اندر تشخیص کیے بغیر آپ واپس نہیں رکھ سکیں گے۔ یعنی “نفسیاتی مرض” کی تعریف اتنی وسیع ہے کہ پوری انسانیت اس میں با آسانی سما جاتی ہے۔

پھر اس میں مزے کی بات یہ ہے کہ ہم جسمانی بیماریوں کے ڈاکٹروں کے کلینک پر لوگ خود آ کر کہتے ہیں کہ بھائی ہم بیمار ہیں ساڈا کجھ کرو! جبکہ مینٹل ہیلتھ والے دوست ٹی وی اور میڈیا کے ذریعے لوگوں کے گھروں میں گھس کر انہیں کہتے ہیں تسیں بیمار او، اپنا کجھ کراو!

اس میں بھی ایک حکمت ہے! جدید دور نے بلاشبہ نفسیاتی تناؤ میں بے پناہ اضافہ کرتے ہوئے امراض کو جنم دیا ہے، لیکن یاد رکھنا ہو گا کہ علم نفسیات بھی اسی جدید دور اور ثقافت ہی کی پیداوار ہے جس نے یہ سب مسئلے پیدا کیے ہیں۔ وہی سرمایہ دارانہ ثقافت جس کے لیے انسان محض کنزیومر ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ پراڈکٹ بیچنے کے لیے اس کی ڈیمانڈ بڑھانے کا طریقہ خاصا پرانا اور آزمودہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر آپ پوری آبادی کو مسلسل باور کرواتے جائیں کہ ان کے ساتھ شدید نفسیاتی مسائل ہیں، ان مسائل کے زیر اثر وہ نہ کامیاب انسان بن سکتے ہیں، نہ اچھے والدین (کیونکہ آپ اپنا “نفسیاتی ٹراما/زخم” بچوں پر ٹرانسفر کر کے انہیں بھی نفسیاتی مریض بنا لیں گے)، اور نہ ہی کوئی رشتہ یا کام کا  ڈھنگ سے نباہ سکتے ہیں تو لامحالہ اس نسلوں کے اجڑنے کی خبر سے مجبور ہو کر سب پوچھیں گے “تے فیر کرنا کیہہ اے”؟ جس کے جواب میں حاضر ہوں گے پراڈکٹ جن کی ڈیمانڈ پورے بیانیے نے بڑھا کر دس گنا کر دی ہو گی: مثلاً سائیکائٹرک ڈرگز (anti depressant وغیرہ وغیرہ)، جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply