غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔2)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طالبعلم ۔ ایک
دونوں جہان کیا ہیں ذرا یہ، بتائیں تو
دنیا و مافیہا ہیں کیا؟ یا اور بھی کچھ ہیں؟

طالبعلم ۔ دو
محسوس و لا محسوس سمجھنے کی کیفیت؟
یا خاکی و عرشی ہیں، فقط ارض و فلک گیر؟
یا زیر زمیں سمک ہے، یعنی کوئی پاتال؟

استاد ۔ ستیہ پال آنند
کون و مکاں کہیں کہ سماوا ت ارض و د َیر
روئے زمین، زیر ِ فلک، ساری کائنات

طالبعلم ۔ ایک
شاعر کے تصور میں فقط حاضر و موجود؟
یا مخفی و پنہاں بھی ہے اس اپنے جہاں سے؟
ــ’’سمجھے‘‘ـ سے کیا مقصود ہے، اک صاف ، سیدھی بات؟
یا صرف شُبہ، صرف تاثر، غلط؟ درست؟

طالبعلم ۔ دو
’’وہ ـ‘‘کون ہے جو جمع کے صیغے میں ہے مرقوم
کیا ایک ہے یا ایک سے زائد ہے یہ موصوف؟

استاد ۔ ستیہ پال آنند
یہ کیسے سوالات ہیں؟ اللہ مجھے بخش
تسلیم، اعتراض ہیں دونوں صحیح و راست
خالق کے لیے ـجمعـ کا صیغہ نہیں ہوتا
(اللہ فقط ایک ہے اور ایک رہے گا)
شاید ـسمجھنےـ سے ہی کھلے ـیہ نیا عقدہ

طالبعلم ۔ دو
اپنی نحیف عقل میں تو کچھ نہیں پڑتا
سمجھائیں کچھ تفصیل سے، اے محترم استاد

استاد ۔ ستیہ پال آنند
دہلی کے گلی کوچوں کی ٹکسالی زباں میں
’’ــوہ سمجھے ہےـ‘‘ شاید ہو یہ جملے کا مخفف

طالبعلم ۔ دو
اک گردش ِ معکوس ہے جملے کی حقیقت

طالبعلم ۔ایک
کیا واقعی یہ صیغہ واحد میں ہے، استاد؟

استاد ۔ ستیہ پال آنند
اب کیا کہوں میں خود بھی پریشان ہوں، بچو
بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں غالب کی زباں میں
ـ’’گنجینہٗ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے‘‘

طالبعلم ۔ایک
گویا کہ جو بھی سمجھیں ، سبھی نا درست ہے

طالبعلم ۔ دو
یا جو بھی سمجھیں ایک وہی ہے صحیح و راست

استاد ۔ ستیہ پال آنند
چھوڑو بھی اب یہ مسخرہ پن، کھیل، تفرج
اچھی نہیں ہےحضرتِ غالبؔ سے چھیڑ چھاڑ ِ

طالبعلم ۔ایک
فرمائیں آپ، ہم ہمہ تن گوش رہیں گے

استاد ۔ ستیہ پال آنند
اب آئیں، ذرا دیکھیں یہ آسان سے الفاظ
جانچیں تو ذرا ’’شرم‘‘ اور ’’تکرار‘‘ کی قیمت
نو زائدہ انساں ، کہ اک مسکین سی مخلوق
خالق کے سامنے کھڑا یہ خاک کا پُتلا
کیسے بھلا ’’تکرار‘‘ کی حامل ہو یہ مورت؟
تھا ضبط و متانت کی اک تصویر سراسر
اللہ سے خیرات کا طالب، یہ بھکاری
اس وقت تو خاموش رہا، سہما ہوا سا
ہاں چار عناصر کا دھڑکتا ہوا یہ بُت
اللہ کا ہی روپ تھ ا، یہ بھولتا کیسے؟
(بس ’’نور‘‘ــ فقط ’’نورــ‘‘کی تھی اس کو ضرورت)

طالبعلم ۔ دو
ہے آدمی کا پُتلا، برافگندہ، بے نقاب
اللہ کے حضور میں ،بے پردہ، سر جھکائے

طالبعلم ایک
وہ چاہتا تو اپنا سر ِ ِ عجز جھکاتا
تعظیم سے پھر کہتا، ’’یہ کافی نہیں، مولا
دونوں جہان؟ ہاں مگر یہ خاک بسری تو
مجھ آدم ِ خاکی کے لیے کچھ بھی نہیں ہے
کچھ ’’نور‘‘ کا عنصر بھی مجھے دیں، مرےمعبود‘‘

استاد، ستیہ پال آنند
کیا خوب! خوشا ! نام ِ خدا! واہ، مرے بچو
لیکن،ضرور یاد رہےیہ ادائے خاص
آدم سے کہلوائی ہے غالب نے کیسی بات
یاں آپڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں!

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply