تِل ۔۔۔(قسط3)نجم السحر

” ہاں اچھا سوری تم کہو ” خالہ نے خاموش ہوتے ہوئے کہا تو عبیر نے اپنی کہانی پھر شروع کی۔۔۔۔

اس کے بعد جیسے یہ سلسلہ چل پڑا۔ صدف نے کچھ  سکیچ بکس خریدیں ۔ اور تصاویر بنانا شروع کیں یا یوں کہیے کہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنا شروع  کی، کچھ تصاویر ادھوری رہ جاتیں اور کچھ مکمل ہو جاتیں۔ مکمل ہو جانے والی تصویر کو وه فولڈ کرکے اپنی بیٹی کے بیگ میں ڈال دیتی جس کے اوپر سلمان کبھی بہت تعریفی  ریمارکس دیتا اور کبھی اگر ان میں کوئی ٹیکنیکل خامی دیکھتا تو وہ بھی درج کر دیتا۔ یوں کاغذوں پر ان کی کہانی چلتی رہی۔ صدف دن میں کئی کئی مرتبہ اپنی تصاویر پر اس کے دیئے ریمارکس پڑھتی رہتی بہت زیادہ سادہ سے ریماکس جن میں کوئی ذومعنی بات نہ ہوتی تھی رفتہ رفتہ با معنی ہونے لگے مبہم اشاروں  میں ڈھلنے لگے۔ جن کو پڑھ کر صدف کے چہرے پر کبھی گھنٹوں مسکراہٹ رہتی کبھی وہ شرم سے سرخ ہوجاتی۔ یہ رویہ  سلمان کے علاوہ کسی اور شخص کا ہوتا تو صدف اس کی شکایت کرکے  سکول سے سسپینڈ کروا دیتی۔ صدف بری طرح سلمان کی طرف اٹریکٹ ہو رہی تھی اور اس بات کا  اسے اندازہ بھی نہیں تھا۔

سلمان سے ملنے کے لیے نہ دوبارہ صدف اس کے پاس گئی۔ نہ سلمان کی طرف سے یہ فرمائش کی گئی۔

ایک مرتبہ میشال کی  سکول وین خراب ہوگئی تو صدف کو میشال کو لینے  سکول جانا پڑا۔ تب پہلی بار اس کے دل میں اس خواہش نے سر اٹھایا۔ کاش آج سلمان سے ملاقات ہو جائے۔ اور اس کی خواہش پوری ہوئی  سکول کی کار پارکنگ میں جب وہ مشال کو گاڑی میں بٹھا کر خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ رہی تھی تب اسے سلمان کی آواز نے روک لیا۔

” زہے نصیب۔۔۔۔آپ اور آج اسکول میں سب ہے نا خیریت ” سلمان مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا اور صدف کے دل کو مانو پر لگ گئے اور جذبات میں وہ طوفان اٹھا جو آخری بار شاید دس سال پہلے اٹھا تھا جب خرم نے اسے سہاگ کی سیج پر پہلی بار اپنی بانہوں میں لیا تھا۔

” جی وہ اصل میں میشال کی وین خراب ہو گئی تھی اس لیے ہمیں اس کو پک کرنے آنا پڑا۔ ” صدف کی مسکراہٹ سے اس کے ہونٹوں پہ ہی نہیں بلکہ پورے چہرے پہ جگمگا رہی تھی۔ اور اگر اس نے  آنکھوں پر سن گلاسز نہ لگائے ہوتے تو سلمان اپنا چہرہ اس کی آنکھوں میں دیکھ سکتا تھا۔
” بخدا اگر آپ کی زحمت کا خیال نہ ہوتا تو اس وقت میری دعا یہ ہوتی کہ کاش میشال کی وین اکثر خراب ہو۔ اور آپ اس کو پک کرنے آتی رہیں اور ایک خوبصورت مصورہ سے ملنے کا ہمیں بار بار شرف حاصل ہوتا رہے ۔۔۔ ” سلمان کی بات سن کر صدف کھلکھلا کے ہنس پڑی۔

” آپ کی ہنسی بہت خوبصورت ہے آپ سے بھی زیادہ ۔۔۔۔ اللہ آپ کو ہمیشہ یوں ہی ہنستا مسکراتا رکھے آمین ” سلمان نے صدف کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر کہا۔ وہ اور بھی بہت کچھ کہنا چاہتا  تھا مگر ایک نظر اس نے صدف کی بڑی سی گاڑی پر ڈالی اور ایک نظر صدف کے اس ہاتھ پر  جس سے وہ میشال کا ہاتھ تھامے ہوئے تھی ۔ پھر کچھ سوچ کر سلیمان نے کچھ بھی کہنے کا ارادہ بدل دیا۔ میشال کے گال پہ ہلکے سے تھپتھپاتے ہوئے وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر ان دونوں  کو ہاتھ ہلاتے ہوئے اسکول سے باہر نکل گیا۔  یہ پہلا موقع تھا جب صدف کو احساس ہوا سلمان سے  اس کا تعلق جتنا وہ سوچتی تھی اس سے کہیں زیادہ ہے اور یہ احساس ایک طرفہ بھی نہیں۔
انکشاف
نہ وعدہ ہے کوئی تم سے
کوئی رشتہ نبھانے کا
نہ کوئی اور ہی دل میں
تہیہ یا ارادہ ہے
کئی دن سے مگر دل میں
عجب الجھن سی رہتی ہے
نہ تم اس داستاں کے
سرسری کردار ہو کوئی
نہ قصہ اتنا سادہ ہے
تعلق میں جو سمجھا تھا
کہیں اس سے زیادہ ہے
(امجد اسلام امجد)

صدف درحقیقت اپنی تصاویر سلمان کو نہیں بھجوا رہی  تھی وہ اپنی تصاویر کے ذریعے سلمان سے اپنے دل کی باتیں کرنے لگی تھی۔ جنہیں شاید سلمان سمجھنے بھی لگا تھا۔ یہ بات اس کو سلمان کے بہت قریب لے آئی تھی۔ زندگی میں سمجھانے والے بہت ملے پہلی مرتبہ جب سمجھنے والا ملا تو دل کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ اس نے انجانے میں کون سی راہ پکڑ لی ہے ۔۔۔ وه راہ تھی زوال کی راہ، درد کی راہ، محبت کی راہ اور اگر زمانے کی نظر سے دیکھیں تو شاید گناہ کی راہ۔۔۔۔۔

اُف یہ خیال آتے ہی وہ دہل سی گی ۔۔۔۔ اس نے سوچا کہ وہ دوبارہ سلمان کو کبھی اپنی کوئی پینٹنگ یا  سکیچ نہیں بھیجے گی اس سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں رکھے گی۔ مگر یہ سوچتے ہی کہ اب دوبارہ سلمان سے کبھی رابطہ نہیں ہوگا اس کا دل  پاتال میں کہیں گرنے لگا۔ عجیب سی بے چینی اور چڑچڑاہٹ اس کے مزاج میں آگئی اس کا دل گھر اور گھر کے کاموں سے اچاٹ ہوگیا۔ بات بے بات بچوں پہ غصہ آنے لگا شوہر سے بھی دل بےزار ہونے لگا ۔۔۔ زندگی نے جیسے اپنی پرانی روش اختیار کر لی تھی۔ تلخ اور بے زار سی اس کو لگتا تھا اس طرح وه واپس پرانی والی صدف بن جائے گی۔ مگر یہ اس کا وہم تھا آگہی کا جن ایک دفعہ بوتل سے آزاد ہو جائے تو اس کو واپس بوتل میں قید کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔۔۔

ایک دن جب میشال کی ڈرائنگ بک میں وه اس کا ہوم ورک دیکھ رہی تھی تو وه حیران رہ گئی۔
” Draw Your Personality ”
آپ کون ہیں۔۔۔ ؟ کیا ہیں ۔۔۔؟ اپنے آپ کو دریافت کریں اپنی شخصیت کو پہچانیں اور اسے سامنے لائیں اس کام میں آپ اپنی والدہ سے مدد لے سکتے ہیں۔

صدف سمجھ گئی تھی۔ یہ پیغام اس کے لئے ہے۔ اس نے چار ہفتوں سے کسی قسم کی کوئی پینٹنگ بنا کر سلمان کو نہیں بھجوائی تھی تو آج سلمان کا اس طرح سے بلا واسطہ پیغام آ گیا ۔

صدف کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی زندگی میں اچانک رنگ نظر آنے لگے ہر چیز خوبصورت لگنے لگی اور دل جیسے خوشی سے بھر گیا ۔۔۔ جس احساس کو وہ اتنے دنوں سے دبانے کی کوشش کر رہی تھی وہ جیسے چاروں ا  ور بکھر گیا ۔۔۔ لیکن اس مرتبہ اسے نہ کوئی شرمندگی تھی نہ کوئی خوف کیونکہ محبت کوئی اختیاری مضمون تو نہیں ہوتا ،تو نہ جانے کتنے ہی لوگ جو اس میں برباد ہوئے دامن بچا کے نکل گئے ہوتے۔

صدف نے اپنے بچوں اور گھر کے تمام کام نمٹائے۔ شوہر کی تمام ضروریات پوری کیں اور رات کو بارہ بجے سب کے سو جانے کے بعد اس نے ایک بڑے سے کینوس پر پینٹنگ  بنانا شروع کی ۔۔۔۔ وہ ہر چیز سے بے نیاز ہو کر اپنی پینٹنگ بنانے میں لگ گئی ۔ پینٹنگ کرتے وقت وه کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جایا کرتی تھی جہاں کوئی درد نہیں ہوتا ، بندشیں  نہیں ہوتیں اور کوئی خوف بھی نہیں ہوتا تھا۔  جب اس کا کام مکمل ہوا تو فجر کی اذان ہو رہی تھی۔ پینٹنگ مکمل کرنے کے بعد صدف نے اس کو سب کی نظروں سے چھپانے کے لئے رول کر کے ایک کالے رنگ کے کپڑے کے کور میں ڈال دیا۔
۔۔۔
اور چھٹی کے بعد میشال کے  سکول پہنچ گئی۔ وہاں پہنچ کر اس پیون سے کہا کہ اگر سلمان صاحب فارغ ہوں تو وہ ان سے ملنا چاہتی ہے۔ صدف کا پیغام ملتے ہی سلمان اسٹاف روم سے نکل کر ریسیپشن تک آیا اور اس کو دیکھ کر سلمان کے چہرے پر جو خوشی اور چمک تھی۔ وه اس کے دل کے جذبات کی ترجمان تھی۔

” گڈ آفٹر نون مسز صدف ۔۔۔۔۔۔ ” سلمان کو ایک لمحے کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کیا کہے ۔ اس کی یہ مشکل صدف نے دور کر دی۔
” آپ نے جو پروجیکٹ منگوایا تھا ہم یہاں وہ جمع کروانے آئے ہیں ۔۔۔”
” اوہ اچھا ۔۔۔  ”

کہنے کو تو ان دونوں کے پاس بہت کچھ تھا مگر وہ جگہ اور موقع بالکل بھی مناسب نہیں تھا سو وه دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر بس مسکرا کر رہ گئے
” آپ کو دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی صدف ۔۔۔۔ ”
صدف جیسے ہی واپس جانے کے لئے پلٹی خرم کی آواز نے اس کے قدم روک لیے
” ہمیں بھی ۔۔۔۔۔ ” صدف نے پلٹ کر سلمان کو دیکھ کر کہا

اس لمحے اس نے  کتنی شدت سے خواہش کی کہ سلمان اسے روکے مگر سلمان اس کو کس حق سے روک سکتا تھا ۔۔۔۔ بالکل ایسے ہی ملتے جلتے خیالات سلمان کے ذہن  میں بھی طوفان اٹھا رہے تھے

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply