گلگت بلتستان خشک اورپتھریلا خطہ ہے مگر یہ سیاحوں کے لیے مقناطیسی کشش رکھتا ہے۔ یہاں کی وسیع و عریض وادیاں فلک شگاف پہاڑی سلسلوں میں گھری ہیں۔ جھیلیں، دریا، صحرا، باغات اور برف سے ڈھکی دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بھی اسی علاقے کی شان ہیں۔یہ خطہ دنیا بھر کے سیاحوں کی منزل تو رہتا ہی ہے مگر آج کل سیاستدانوں کی توجہ بھی اسی خطے پر مرکوز ہے۔ انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ گلگت بلتستان میں کئی ہفتوں سے رنگینیاں اور رونقیں بحال ہیں۔ گلگت بلتستان میں اسمبلی کی 33 میں سے 24 نشستوں کے لیے 300 سے زائد امیدوار انتخابی میدان میں ہیں جبکہ آئندہ انتخابات میں سات لاکھ سے زیادہ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ہر جماعت کے امیدوار نئے نئے وعدوں کے ساتھ گھر گھر جا کر ووٹ مانگ رہے ہیں، مگر یہاں کے مکین محرومیوں اور مصائب کا شکار ہیں۔الیکشن کی گہما گہمیوں میں تین بڑی پارٹیاں میدان میں ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور پاکستان تحریک انصاف نے اپنے اپنے امیدوار اکھاڑے میں اتار رکھے ہیں۔ پارٹیاں مخالفین پر سیاسی مخالفتوں کے تیر برسارہی ہیں۔
گلگت بلتستان کے گلی کوچوں میں سیاست، جوڑ توڑ اور ترقیاتی کاموں کے اعلانات کا سلسلہ جاری ہے۔ گلگت بلتستان اور دیگر صوبوں کا سیاسی پارا کچھ مختلف ہے۔یہاں کچھ ووٹوں کاحصول مسلکی و لسانی بنیادوں پر بھی ممکن ہوتا ہے جس کا عملی مظاہرہ زلفی بخاری نے کچھ دن پہلے کے انتخابی جلسے کے دوران کیا۔یہاں بے نظیر بھٹو یا مشرف کے چہیتے ہی نظر آتے ہیں۔گلگت کے عوام پی پی پی سے خاص محبت رکھتے ہیں اس لیے پی پی پی کے امیدواروں ہی کی فتح معلوم ہوتی ہے۔ گلگت بلتستان چونکہ ابھی صوبہ نہیں بنا اس لیے یہاں کچھ خاص ترقیاتی کام نہیں ہوئے جوبھی ہوئے وہ پی پی نے کروائے اور ظاہر ی بات ہے کریڈٹ بھی وہی لے رہی ہے، باقی صرف زبانی جمع خرچ پر ڈگڈی بجار ہے ہیں۔
گیلپ سروے کے مطابق تو پی ٹی آئی الیکشن میں مارجن سے جیتے گی۔ دوسرے نمبر پر پی پی اور تیسرے پر مسلم لیگ ن ہو گی۔ رائے عامہ ہے کہ یہ پول کسی ڈیل کا نتیجہ بھی ہو سکتے ہیں۔ جس طریقے سے مختلف وزراء بشمول علی امین گنڈا پور، مراد سعید اور زلفی بخاری خزانوں کے منہ کھول دینے کی باتیں کررہے ہیں اور جی بی کے غیور عوام سے کہہ رہے ہیں کہ ہم ترقیاتی کاموں کا جال بچھا دیں گے اور انٹرنیٹ، تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر سے لیکر ٹورازم اور پورے پلان کیساتھ جی بی کا نقشہ بدل کر رکھ دیں گے، شاید بڑی دروغ گوئی ہو گی کیوں کہ ایسا آج تک نتائج آنے کے بعد نہیں ہو سکا۔۔مذکورہ سروے کی ٹائمنگ بڑی اہم ہے جو جی بی کے ووٹرز پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے شہباز شریف کا جیل چلے جانا، بلاول کے الیکشن مہم کے دوران سروے کا ہو جانا اور اس پر مستزاد یہ کہ زلفی بخاری کے ذریعے منصوبوں کی منظوریاں دکھا دکھا کر جلسے کا جوش بڑھانا ،یقیناً پی ٹی آئی پر خصوصی مہربانی ہے۔
مجموعی طور پر بات کی جائے تو گلگت بلتستان کے عوام الیکشن سے قبل مایوسی اور امید کے بیچ میں کہیں گم ہیں۔ کوئی دل و جان سے پیپلز پارٹی کا سپورٹر ہے، کوئی مسلم لیگ (ن)کا کنفرم ووٹر اور کوئی پی ٹی آئی کو سپورٹ کر رہا ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کا بڑا مسئلہ مہنگائی، گیس اور بجلی کی عدم فراہمی ہے۔غربت کی وجہ سے لوگ پسماندہ علاقوں میں رہنے پر مجبورہیں۔جی بی کے ایک دوست نے شکوہ کرتے ہوئے بتایا کہ ”یہ سب جھوٹ بولتے ہیں، اپنا کام سیدھا کرتے ہیں۔ ہر بندہ کہتا ہے کہ یہ کریں گے، وہ کریں گے، مگر منتخب ہونے کے بعد کوئی کام نہیں کرتے۔“
حالات جیسے بھی ہوں، حقیقت احوال سے معلوم ہوتا ہے کہ بلاول بھٹو کی گروانڈ پر ورکنگ کافی مضبوط ہے اور وہ ووٹرز پر خاصی گرپ بھی رکھتے ہیں اور پی پی پی کا وزیر اعلی آنے کے قوی امکانات ہیں۔لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ کی ہوا چل گئی تو پھر پی ٹی آئی کو جی بی میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ایک اہم بات جس کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا کہ جی بی میں ایسی لولی لنگڑی حکومت بنے کہ جس سے نہ تو حکومت سازی ہو، نہ قانون سازی، نہ کوئی ترقیانی فنڈ مختص ہواور نا ہی کوئی پیکج کا اعلان ہو!!مسلم لیگ(ن) کا ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بھی کچھ علاقوں میں پاپولر ہے، اس لئے یہ کسی حد تک سرپرائز بھی دے سکتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں