عورت غلام نہیں۔مرزا مدثر نواز

معاشرے میں یہ عجیب و جاہلانہ سوچ سرایت کر چکی ہے کہ عورت صرف اور صرف مرد کی خدمت کے لیے پیدا کی گئی ہے اور اس سے ہمیشہ غلاموں جیسے رد عمل کی توقع کی جاتی ہے۔ آغاز دنیا ہی سے یہ طبقہ ظلم  زیادتی  جبراور استحصال کا شکار رہا ہے اور شاید اختتام دنیا تک اسی سلوک کا سامنا کرتا رہے۔ کبھی اسے باعثِ ننگ خیال کیا جاتا ہے تو کبھی بوجھ” کبھی اسے زیادہ جہیز نہ لانے اور کبھی اولاد نہ ہونے پر طعنے سہنے پڑتے ہیں کبھی اسے جنگ و جدل کے بعد عصمت دری اور  لونڈی بننے کا اندیشہ رہتا ہے   اور تو اور یہ مخلوق خدا ستّی جیسی ظالم اور جاہلانہ رسم کی بھینٹ بھی چڑھتی رہی  غیرت ہمیشہ اسی کے خلاف انتہائی اقدام لینے پر اکساتی ہے نہ کہ جرم میں برابر کے شریک اور شیطانی رستے کی طرف پھسلانے والے کسی بااثر وڈیرے   جاگیر دار  سرمایہ دار   صنعت کار یا چوہدری کے  جاہلیت کے زمانہ میں اس کی کوئی قدرو منزلت نہ تھی اور وہ ہر وقت معمولی قصوروں پر ماری پیٹی جا سکتی تھی۔

مالک کائنات نے جب اس عالم فانی کو تخلیق کیا تو اس میں رنگ بھرنے کے لیے مرد کے ساتھ ساتھ عورت کو بھی زندگی بخشی۔ یہ اس کی مصلحتیں و حکمتیں ہیں کہ حوّا   کو بنی آدم کے برعکس جسمانی طور پر کمزور اور نازک بنایا۔ شاید اس کی وجہ خاندانی اور نظام دنیا کی مضبوطی ہو، انحصاری اور نازک پن کے بغیر ہو سکتا ہے کہ نظام دنیا میں بگاڑ ہی رہتا اور مرد و زن کے تعلقات میں دراڑیں ہی رہتیں جس کی ایک جھلک آج کل مغرب میں خاندانی نظام کی تباہی کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ صنف نازک ہو نے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ تعٰالیٰ نے عورت کی تخلیق مرد کی غلامی کے لیے کی ہے ہاں البتہ اخلاقاً  رتبے  میں مردوں کو تھوڑی سی اعزازی برتری دی گئی ہے لیکن یہ منزلت بھی ان کو بے وجہ نہیں دی گئی ہے‘ یہ اس لیے ہے کہ وہ عورتوں کی نگرانی اور نگہبانی کا فرض انجام دے سکیں، یعنی وہ   اپنی گھریلو عدالت کے اعزازی صدر بنائے گئے ہیں۔ جس طرح کسی ادارے کے دو سربراہ یا پرنسپل ہوتے ہوئے یا کسی ملک کے دو وزیر اعظم ہوتے ہوئے بگاڑ ہی پیدا ہو سکتا ہے اسی طرح امور خانہ داری بھی نہیں چل سکتا۔

مردو زن بشریت، ولایت، قانونی و اخلاقی لحاظ سے باہم برابر ہیں اور ان میں سے کوئی بھی پہلو باعثِ فضیلت نہیں۔ مغرب نے برابری اور آزادی نسواں کو ایک غلط انداز و رنگ سے پیش کیا ہے ، آزادی کے نام پر حوّا   کو ایک ڈیکوریشن پیس بنا کر رکھ دیا گیا ہے جسے وہ اپنی عیش و عشرت اور ناجائز طریقے سے خواہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کرتا ہے۔ مغرب و امریکہ میں عورتوں کی آزادی اور حقوق کو جانچنے کے لیے ان ممالک کے ایسے اعدادو شمار پر ایک طائرانہ نظر ڈالنی چاہیے جو یہ معلومات فراہم کر سکیں کہ وہاں ہر سال کتنی عورتیں اپنے مردانہ دوستوں کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں، کتنی لڑکیاں ہیں جو کم سنی میں مائیں بنتی ہیں، ریپ و گینگ ریپ کا شکار ہونے والی اور کام کی جگہوں پر مرد ساتھیوں کی بد سلوکی کا سامنا کرنے والی خواتین کی تعداد کتنی ہے؟اس آزادی کی جگمگاتی روشنیوں کے پیچھے چھپی بدنما حقیقتوں کو  دجالی میڈیا کے ذریعہ چھپایا جاتا ہے۔

مالک دو جہاں نے ہمیں اس لیے پیدا فرمایا کہ یہ دیکھے   ہم میں سے کون اچھے اعمال کرتا ہے اور اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دیتا ہے۔ دوسرے فرائض کے ساتھ ساتھ حقوق زوجیت کی ادائیگی بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے جن کو نبھانے کے لیے صبر، برداشت اور عقل و خرد کا بے پناہ خزانہ چاہیے، انہی فرائض کی ادائیگی ہی روحانی کمال کا ذریعہ ہے نہ ان سے فرار ۔ اسلام سے پہلے جو اخلاقی مذاہب قائم تھے ان سب میں عورت کو اور عورت و مرد کے ازدواجی تعلق کو بہت حد تک اخلاق و روح کی ترقی مدارج کے لیے عائق و مانع تسلیم کیا گیاتھا۔ ہندوستان میں بودھ، جین، ویدانت، جوگ اور سادھو پن کے تمام پیرو اسی نظریہ کے پابند تھے، عیسائی مذہب میں تجَرّد اور عورت سے بے تعلقی ہی کمال روحانیت  کا ذریعہ تھا، اسلام نے آ کر اس نظریہ کو باطل کیا اور بتایا کہ اخلاق و روح کی تکمیل جس تجرد میں ہو سکتی ہے اس سے بدرجہا تعلق ازدواج میں ممکن ہے کہ اخلاق نام  ہی حسن ِ معاملہ اور حسنِ  سلوک کا ہے ، جو کسی کا شوہر نہ ہو، جو کسی کی بیوی نہ ہو، جو کسی کا باپ نہ ہو، جو کسی کی ماں نہ ہو، جو کسی کا بھائی نہ ہو اور نہ کسی کی بہن ہو، نہ کسی سے رشتہ ناطہ رکھے، اس پر دنیا کے کیا فرائض عائد ہو سکتے ہیں اور اخلاق کی تکمیل کے لیے اس کو کون سے فطری مواقع مل سکتے ہیں؟

اکثر عورتوں میں ضد اور ہٹ ہوتی ہے جو شاید ان کی فطری کمزوری یا عدم تربیت کا نتیجہ ہو۔ بعض مرد یہ چاہتے ہیں کہ ان کی ضد اور ہٹ کے مقابلہ میں سختی اور درشتی سے کام لے کر ان کی یہ ٹیڑھ نکال دیں ‘ نبی کریمﷺ نے ان کو ایک عمدہ تشبیہ دے کر نصیحت فرمائی کہ ’’عورتوں کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرو  کہ ان کی پیدائش پسلی سے ہوئی جس سے اس کے اسی ٹیڑھے  پن کے ساتھ تم کام لے سکو تو لے سکتے ہو اور اگر اس کو  سیدھی کرنے کی فکر کرو تو تم اس کو توڑ ڈالو گے‘‘ اس کے علاوہ آپ نے مردوں کو بیویوں کے معاملہ میں خوش اور قانع و راضی رہنے کا ایک نہایت عمدہ نسخہ بتایا، فرمایا ’’ اپنی بیوی میں کوئی برائی دیکھ کر اس سے نفرت نہ کرو  کہ غور کرو گے تو اس میں کوئی دوسری اچھی بات بھی نکل آئے گی‘‘۔ یہ نصیحت حقیقت میں قرآن پاک کی سورہ نساء کی آیت نمبر 19کی تعمیل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کہا جاتا ہے کہ ایک مہاتمابزرگ اور اتالیق تھے جن کی بیوی نہایت ہی سخت طبیعت تھی۔ شاگرد جب بھی ان کے گھر کے دروازے پر کسی بھی کام سے جاتے تو وہ انتہائی ہتک آمیز رویہ سے پیش آتی اور ان کی بلا وجہ سخت سر زنش کرتی۔ شاگرد سوچتے کہ استاد جیسے بزرگ نے ایسی زبان دراز اور بد اخلاق عورت کو اپنے گھر میں کیسے برداشت کیا ہوا ہے یہ دو نفوس ایک چھت تلے ایک گھر میں کیسے اور کیوں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ آگ و پانی کا ملاپ کیسے ممکن ہوا۔ شاگرد جب اپنے استاذ سے ان کی بیوی کی بد زبانی کی شکایت کرتے تو وہ جواب میں فرماتے کہ اللہ نے مجھے یہ جو حقیر سا مقام عطا کیا ہواہے شاید یہ اس کی کڑوی کسیلی باتوں کو برداشت کرنے ہی کی وجہ سے ہے لہٰذا تم لوگ بھی اپنی بدخو ساتھی سے بنائے رکھو اور صبر سے کام لو، تنگی کو خوشی خوشی سہتے رہو کیونکہ صبر کشادگی کی کنجی ہے۔ مجھے لوگ خطیب‘ پیر طریقت‘ رہبر شریعت‘ علامہ اور پتہ نہیں کیسے کیسے لقب سے پکارتے ہیں جس سے نفس پھولے نہیں سماتا،چوڑا ، خود سراور غالب ہونے لگتا ہے کہ میں پتہ نہیں کیا چیز ہوں ، گردن میں سریا محسوس ہو نے لگتا ہے لیکن جب گھر جاتا ہوں تو محسوس ہو تا ہے کہ میں تو کچھ بھی نہیں چنانچہ میری بیوی کی بدزبانی‘ زہر آلود باتیں اور درشت مزاجی میرے نفس کے قابو میں رہنے کا ذریعہ ہے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply