شفیق انکل مرحوم و مغفور۔۔حسان عالمگیر عباسی

دنیا کی کل آبادی کا آٹے میں نمک برابر حصہ الگ کریں تو وہ لوگ آتے ہیں جو دنیا کو پاؤں کی ٹھوکر سے رد کرنے والے ہیں۔ یہ دنیا اس سے زیادہ حیثیت بھی نہیں رکھتی۔ موت کی کاروائی سے پہلے کوئی مائی کا لال کارروائی نہیں ڈال سکتا لیکن موت اک اٹل حقیقت ہے۔ جب آ جائے تو پوچھتی بھی نہیں ہے۔ ‘انما الاعمال بالخواتیم’ کا مطلب ‘موت کے آنے سے کچھ قبل کیا گل کھلا رہے’ کے ہیں۔ جب شفیق انکل نماز میں مشغول تھے تو خدا نے فرشتے کو کہہ کر بلوا لیا۔

حدیث میں آتا ہے کہ ‘کل مولود یولد علی فطرت الاسلام’ کہ ہر ذی روح کی ولادت اسلامی فطرت پہ ہوتی ہے۔ جب انسان شعور پکڑتا ہے تو کل آبادی کا آٹے میں نمک برابر حصہ ‘وھدینه النجدین’ یعنی دو راستوں میں سے اس راستے کا انتخاب کرتا ہے جو جنت کی طرف جاتا ہے۔ باقی ماندہ میرے اور آپ جیسے ہوتے ہیں۔ ہم بے وقوف ہیں کیونکہ آسمان و زمین کی تخلیق اور دن و شب کا رد و  بدل تو عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ کیا ہم عقل مند ہیں؟ ہمیں سورج و چاند اور تمام کائنات دیکھ کر شرم آتی ہے؟

شفیق انکل نے اس راستے کا انتخاب کیا جو خدا کی راہ ہے۔ جو خدا کی راہ میں کوشش کرتا ہے تو رب کا بھی وعدہ ہے کہ ‘والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا’ یعنی جو خدا کی راہ میں کوشش کرتا ہے تو خدا اس کو اپنے راستے کی طرف بالضرور ہدایت دیتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ٹیڑھی لکیریں اور ایک سیدھی لکیر کھینچ ڈالی اور فرمایا کہ ‘یہی صراط مستقیم ہے۔’ شفیق انکل نے باقی لکیروں پہ کبھی نظر ہی نہیں دوڑائی۔ وہ صراط مستقیم پہ ہی چلتے چلتے رب کے حضور پیش ہو گئے۔ جب آپ اس راستے پہ چل رہے تھے تو ایک وہ موڑ بھی آیا جہاں خدا نے اپنا وعدہ وفا کیا اور سیدھا اپنی طرف بلا لیا۔ نماز میں ملاقات ہو رہی تھی اور خدا نے آمنے سامنے کر دیا۔

یہ زندگی محض دھوکہ  ہے۔ اسی لیے آنے والے کل پہ قرآن نے بار بار زور دیا ہے۔ فرمایا ہے کہ ‘تم میں سے ہر کوئی یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا بھیجا۔’ الفاظ کچھ یوں ہیں کہ ‘ولتنظر نفس ما قدمت لغد۔’ شفیق انکل ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے خدا کے اک سوال ‘افحسبتم انما خلقنکم عبثا و انکم الینا لا ترجعون’ کا بہترین جواب دیا ہے۔

آپ نے توشہ آخرت کا بہترین سامان کیا۔ ساری زندگی صرف اقامت دین کی جدوجہد میں صرف کر ڈالی۔ جوانی سے لے کر بڑھاپے تک ایک ایک پل رب کی دھرتی پہ رب کے نظام کی غیر موجودگی پہ احتجاج ریکارڈ کرواتے رہے۔ یہ زندگی اگر حیثیت رکھتی بھی ہے تو صرف امتحان گاہ کی رکھتی ہے۔ آپ اگر امتحان گاہ میں بیٹھ جائیں گے تو امید ہے ‘تینتیس’ نمبرز لے کر جنت کے کسی نچلے درجے پہ پہنچ جائیں گے لیکن آٹے میں نمک کے برابر ایک حصہ اس فلسفے کو سمجھ سکا ہے۔ شفیق انکل نے اس فلسفے کو خوب سمجھا اور زندگی کو خدا کے رنگ میں رنگ دیا۔ یہی آپ کا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔

دنیا میں بسنے والے لوگ ایسے دنیا میں کھو گئے ہیں جیسے یہی ان کا ابدی ٹھکانا ہے۔ سب خود غرضیوں پہ اتر آئے ہیں۔ شفیق انکل نے صرف سامنے والے کا سوچا۔ سامنے والے کو بلا امتیاز ڈیل کیا۔ میں جب بھی روبرو ہوتا تو صرف ایک بات ہوتی۔ ہمیشہ صرف دین پہ گفتگو کرتے۔ آنے والے کل کے بارے میں بتاتے۔ موت اور اخروی زندگی میں کامیابی کی چابی تلاش کی جاتی۔ آپ کی زبان اس آیت سے ہمیشہ تر رہتی کہ ‘وادخل الجنة فقد فاز’ جو جنت پا گیا وہ کامیاب ہو گیا۔ ‘وما الحیاۃ الدنیا الا متاع الغرور’ یعنی دنیا محض عارضی ٹھکانا ہے۔ اصل تو اخروی زندگی ہے۔ آپ ہمیشہ اصل سے متصل رہنے کے حامی رہے۔ آپ نے کبھی بھی ادھر اُدھر کی بات نہیں دہرائی۔ بس ایک بات تھی اور ایک بیانیہ: قولوا قولا سدیدا: کھری بات کیا کرو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دنیا ہی ہمارا سب کچھ ہے لیکن اس دنیا کی دھول بھی آپ کو نہ لگ پائی۔

زمین پہ اکڑ کر چلنا آج کل عام ہے۔ وہ لوگ جو علم سے مالا مال ہیں, کسی کام کے نہیں رہے۔ ان کو ان کے غرور نے دبوچ لیا ہے۔ ان کا علم محض فتنہ بن چکا ہے۔ زمین پر اکڑ کر چلنے لگے ہیں۔ لیکن شفیق انکل ہمیشہ سمٹ کر رہے۔ زمین پہ عاجزی سے قدم رکھا۔ آپ کا علم آپ کا فخر ضرور تھا لیکن آپ نے خدا کی چادر کبھی نہیں کھینچی۔ آپ سے جب بھی گفتگو ہوئی, علم کا بہتا دریا ہی عبور کیا۔ آپ کی بات میں روانی تھی۔وہ محض گفت نہیں بلکہ ‘گفت و شنید’ کے قائل تھے۔

آپ ہمیشہ بھلی بات کرتے وگرنہ خاموشی اوڑھ لیتے۔ وہ خاموشی کو عقل کا پردہ کہتے تھے۔ ان حروف سے آپ کی قامت نہیں بڑھنی۔ آپ نے جو کمانا تھا کما لیا۔ آپ کے بارے یہ حروف دراصل ہمارے لیے ہیں۔ ابھی کئی لوگ میری طرح سفر میں ہوں گے۔ منزل تک پہنچنا بھی خدا کی اجازت سے مشروط ہے۔ حضرت علی رض دروازے پہ کھڑے تھے اور فرمانے لگے، “اے رسول اللہ ص مجھے اتنا بھی یقین نہیں ہے کہ میں دروازے سے اندر آ بھی سکوں یا اس سے پہلے موت کارروائی کر ڈالے۔’ حضور ص نے کہا کہ علی رض کچھ زیادہ ہی دنیا پہ یقین کر بیٹھے ہیں, انھیں یعنی رسول ص کو تو ایک پلک کے جھپکنے کا بھی بھروسہ نہیں ہے۔

بس یاد رہے کہ دنیا میں آنے کا مقصد آخرت کی تیاری ہے۔ نماز، روزوں اور حج سے آگے نکلنے کا وقت ہے۔ اب دنیا کو خدا کے مطابق چلانے کی گھڑی ہے۔ خدا کی آنکھ سے دیکھنا آج کا تقاضا  بن چکا ہے۔ یزید کے سامنے حسین بننے کا لمحہ ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جو شفیق انکل نے مجھے دیتے ہوئے پہنچانے کا کہا تھا۔ یہ تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی تھا جو آپ کی آواز بن چکا تھا کہ ‘بلغوا عنی ولو آیة۔’

ان اہل علم مغرور روحوں کے سایے سے بھی بچنے کی ضرورت ہے۔ ہر ایک میں خیر باقی ہے۔ خیر کی تلاش کریں۔ آپ خود بھی بہترین ہیں اور سامنے والا بھی اعلی و ارفع ہے۔ فتویٰ مت جاری کریں۔ مفتی بننے سے اب ہمیں رکنا چاہیے۔ اپنے آپ کی غلطیاں سدھاریں۔ اگر کچھ کرنا ہے تو عوام سے مل جل کر رہیں۔ قطع تعلقی میں کوئی خیر نہیں ہے۔ دین نصیحت کا  نام ہے۔ ‘الدین نصیحة۔’ جب انسان یہاں سے چلا جاتا ہے تو وہ ہمیشہ کے لیے فنا نہیں ہوجاتا بلکہ منتقل ہو جاتا ہے۔ شفیق انکل بھی منتقل ہو گئے ہیں اور ایک دن ہم بھی منتقل ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ شفیق انکل مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین۔

Advertisements
julia rana solicitors

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبح دوامِ زندگی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply