زبان بحیثیت ‘بندشی طاقت’ (binding force)۔۔۔حسان عالمگیر عباسی

زبانیں سبھی ‘عزت مآب’ ہیں۔ پیغام منتقل کرنے کے لیے کیسی بھی شکل و صورت رکھنے والے حروف بنیادی طور پہ اس لیے برابر ہیں کیونکہ کسی بھی لمحے کسی قوم کی اٹھان حروف کی توقیر بڑھا سکتی ہے۔ حروف اپنے کام و نوعیت کے لحاظ سے برابر ہیں لیکن قوموں کا عروج و زوال انھیں ضرور کہیں کہیں پابند کرتا ہے۔ یہ عروج و زوال اور نتیجتاً قوتوں اور کمزوریوں کا مقدر بننا اس لیے قابلِ قبول ہے کیونکہ یہ فطرت کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ خدا کی سنت سب کے لیے یکساں ہے۔ جو برسے گا ‘قوت’ والا ہو گا جبکہ محض گرجنے والا برسنے سے قاصر رہے گا۔ حروف یا زبانیں بذات خود افادیت کے حساب سے یکساں حیثیت و اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ ہم ہیں جو بڑی قوتوں کی محنتوں کے ثمرات کی وجہ سے ان ناچتے حروف سے فطرتاً مرعوب ہوجاتے ہیں اور نتیجتاً دیگر ہجوں کو ‘ٹیڑھا آنگن’ لیے محرومی جتانا پڑتی ہے۔

پنجابی زبان میں جگت لگانا اس لغت کے لیے فخر کا احساس ہے مگر شرط یہ ہے کہ اس کا وارث اس کے استعمال میں نہ صرف مہارت رکھتا ہو بلکہ کہیں بھی کسی جگہ کسی کے بھی سامنے اس کی وقعت و حیثیت جتانے میں بنا ہچکچائے فر فر اظہار کردے۔ یہ تب ہوتا ہے جب اپنی مادری زبان کو ‘ام اللغات’ کا درجہ دے دیا جائے۔

پنجابی جاننے والے کئی حضرات جب اسے بولتے ہیں تو زبان بھی پھدکنے لگتی ہے۔ وہ انتہائی دلکش انداز اپنائے پنجابی کی ٹانگیں جوڑتے ہیں۔ جگت لگانے کا دل نہ بھی چاہے, وہ محض زبان کے سہارے سے ‘چٹکلا’ بنانا چٹکیوں میں کر لیتے ہیں۔ اسی زبان کو بیساکھی بنائے محفل لوٹنا اس زبان کے ورثاء سے سیکھا جا سکتا ہے۔

زبان کو غیرت کا معیار ماننے والے دوستوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ جہاں انتہاؤں کو چھونا اور کیسی بھی شکل و صورت مثلاً پنجابی یا پشتو ہی کو گر لے لیا جائے, باپ کا درجہ دینا گدھے کی توہین ہے۔ گدھا جتنا عزت مانگے, زیادہ دے دی جائے تو اس کے لیے سمیٹنا مشکل ہونے لگتا ہے۔ باپ بنانا ہی ہے تو اس زبان کا زیادہ حق ہے جو بسنے والی تمام پنجابی، پشتون، سرائیکی، پوٹھوہاری، بلوچی، اور سندھی ماؤں کی یکساں بولی ہے۔ ‘لنگوا فرینکا’ اردو ہے تو ‘سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے’ کے مصداق توقیر کا حق بھی رکھتی ہے۔

زبان بنیادی طور پہ ‘بائنڈنگ فورس’ ہے۔ ایک پنجابی بالفرض ‘متحدہ عرب امارات’ میں کسی پنجابی سے ملتا ہے تو اس کی ایک ملاقات کئی ملاقاتوں کا جال بچھا سکتی ہے۔ کئی سالوں کا میل جول انتہائی قدم اٹھانے مثلاً وطن عزیز واپسی پہ کئی سالوں پہ محیط دوستی کو رشتے میں بدل ڈالنے پہ بھی مجبور کر سکتا ہے۔ بنیادی طور پہ یہ محبت تھی جو زبان کے بہانے بڑھتی گئی اور بالآخر دوست کے بیٹے کو داماد تک بنا لیا۔ جب بنیادی چیز محبت ہے تو وہ زبان محبوبہ بنائے جانے کا زیادہ حق رکھتی ہے جو سندھی کو پنجابی سے ایسے ہی رشتے بنانے میں مددگار ثابت ہو سکے۔ اگر ایک سندھی ‘سرزمین فلسطین’ میں پنجابی سے ملے تو جوڑنی والی فورس سندھی یا پنجابی زبان نہیں بلکہ قومی زبان ہو گی لہذا قوم بنانے میں مددگار فورس کو پہلی محبت کا درجہ بالضرور ملنا مقصود ہے۔

آگے چلتے ہیں۔ اگر ‘عربی مسلمان’ سے امریکہ میں ‘عجمی مسلمان’ ملاقات کرے تو یقیناً مددگار فورس یا محبوب زبان کا درجہ قرآنی زبان یعنی عربی کو ملنا چاہیے۔ عربی خدا کی زبان ہونے کی وجہ سے قومیتوں، عصبیتوں اور گروہوں کو لڑی میں پرونے کی قوت سموئے ہوئے ہے۔ اب جب اردو سے زیادہ عربی ‘امت’ بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے تو اردو کا چار دیواری میں محدود کام عربی کا دنیا کی سطح پہ وسیع پیمانے پہ کرنا اسے زیادہ وقعت دینے کا متقاضی ہے۔

جب متحد ہونا ہے تو ‘ایک’ کے گرد ہی جمع ہونا ہوگا۔ پاکستان میں اردو بولتے اور باوجود اردو کو ‘لنگوا فرینکا’ کہتے ہوئے ایک قومی جماعت کے دعویدار لیڈر کا اسے اپنی زبان نہ کہنا یا غیروں کی زبان کہنا غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ غداری زبان سے ہے اور زبان ہی سزا کا بھی حق رکھتی ہے۔ اس سے زیادہ سخت سزا بھلا کیا ہو سکتی ہے کہ جس کو گالی دی جائے اور اگلے ہی لمحے اس سے احسان بھی لیا جائے۔ اردو زبان میں ہی اردو سے ‘عدم اپنائیت’ کا اظہار ہی اس کی شاید شدید ترین سزا ہے۔

حقوق کے نام پہ جوڑنے والی طاقتوں یعنی ‘قومی زبان’ کو آنکھیں دکھانا بنیادی حق یعنی بولنے کا حق چھیننے جیسا ہے۔ کراچی میں ایک لیڈر کا, اس موقع کو غنیمت جان کر, اندر سے ضمیر کا جاگنا اور سیاست کھیلنا اس احساس کو پختہ کر رہا ہے کہ کراچی والے شاید اس بائنڈنگ فورس یعنی قومی زبان کے زیادہ قریب ہیں۔ باضابطہ طور پہ قوم اس بات پہ یکجا ہے کہ اردو علاقائی یا صوبائی نہیں بلکہ قومی زبان ہے۔ کسی سرے کا رہائشی زیادہ محبت جتائے گا تو گدھے کو باپ بنانے والی مثال پہ پورا اترنے کی ناکام کوشش کرے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک سرے کا رہائشی بولنے میں شاید زیادہ مہارت رکھتا ہو لیکن یہ محبت کی دلیل اس لیے نہیں ہے کیونکہ ایک پیدا ہونے والا بے زبان بچہ, بولنے والے بڑے بچوں کی نسبت ماں کے زیادہ قریب ہوتا ہے یا ماں دونوں سے محبت کو لے فرق ہی نہیں کرتی۔

سبھی زبانیں عزت کے لائق ہیں۔ عزت اس لیے پاتی ہیں کیونکہ جوڑنے کا کام کرتی ہیں۔ جو زبان یہ مقدس کام جس حد تک کرے گی, عزت کمائے گی۔ اگر پشتو یا پنجابی زبانیں اردو سے آگے بڑھنا چاہتی ہیں تو حسد کرنے کی بجائے محنت کرنے کے مفت مشورے پہ عمل کریں۔ سندھی زبان صرف سندھ کی دہرتی میں اتحاد ضرور قائم کر سکتی ہے۔ پنجابی صرف پنجابیوں تک ہی محدود ہے۔ پشتو صرف پٹھانوں کی ہے۔ بلوچی صرف بلوچ کی میراث ہے لہذا یہ قوم بنانے کی سکت نہیں رکھتی۔

اپنے اپنے گھر میں اتحاد کی فضا بنانے میں صوبائی زبانیں آزاد ہیں لیکن گھر سے باہر معاشرے میں اس زبان مثلاً اردو کو ماں کا درجہ دینا ہے جس کی اولاد یعنی ‘صوبائی زبانیں’ اور ان کو جاننے والے حضرات قوم بنانے میں کردار ادا کر سکتے ہوں۔ ایک ‘سٹینڈرڈ ورائٹی’ (standard variety) ہے اور دیگر ورائیٹیز ‘ڈائیلیکٹس’ (dialects) ہیں۔ ڈائیلیکٹس کا حقوق کے نام پہ ‘سٹینڈرڈ ورائٹی’ بننے کی کوشش فسادات کو دعوت دینے جیسا ہے۔

یہ دنیا ‘گلوبل ویلیج’ (global village) ہے اور گاؤں کے مختلف حلقوں کو ان کی اپنی اپنی حدود میں جوڑنے میں بہت سی ‘ورائیٹیز’ کا کردار ہے لیکن گاؤں کو ایک ایسی قوت بھی درکار ہے جو گاؤں کے مختلف حلقوں کو ایک لڑی میں پرو سکتی ہو۔ جیسے تمام قوتیں ‘یو این’ (UN) میں جاکر چند فقروں یا جملوں کو ‘متفق علیہ’ کا درجہ دیتی ہیں ویسے ہی ایک سٹینڈرڈ ورائٹی بھی بین الاقوامی سطح پہ اپنا کردار نبھاتی ہے۔ یہ مقام اس کی محنت اور قوم کی لگن کا نتیجہ ہوتا ہے۔

جب معیشت مضبوط ہو گی تو ڈائلیکٹ ‘سٹینڈرڈ ورائٹی’ بننے میں وقت نہیں لیتا۔ بھوک و پیاس بجھانے بالآخر اقوامِ عالم کسی ایک کو آقا مان ہی لیتی ہیں۔ یہی دنیا کی سنت و اس کا اصول رہا ہے۔ سپر پاورز کو چڑھ دوڑنے کا اختیار ان کی محنتیں اور کاوشیں دیتی ہیں اور دیگر اقوام کے لیے یہی بہتر ہے کہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوئے بنا استدلالی اور استنباطی کاوشوں کو بڑے پیمانے پہ بروئے کار لائیں۔ دریں اثنا سپر پاور بننے تک کسی ایک کو ‘بائنڈنگ فورس’ (binding force) یا سٹینڈرڈ ورائٹی ماننا ضروری ہوتا ہے۔

اگر میں ٹھیک ہوں تو انگریزی وہ زبان ہے جو اس وقت گلوبل ویلیج میں ‘ام اللغات’ کا درجہ رکھتی ہے بلکہ تمام زبانوں کی ‘باپ’ ہے۔ اسی طرح بحسبِ مطابق عربی و دیگر زبانیں جو عزت و احترام کا جتنا بھی حق رکھتی ہیں, کو بالضرور ملنا چاہیے تاکہ فساد جگہ ہی نہ لے سکے۔ ملت اسلامیہ میں یہ اہمیت و فضیلت عربی کو حاصل ہے لیکن عربوں کا ان کی طرف جھکاؤ ملت اسلامیہ کو ایک درجہ تنزلی کا شکار کرتا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہی فساد کے خلاف جنگ ہے۔ زبان کو حق سے زیادہ عزت دینا جلد بازی ہے۔ زبان خود ہی سرداروں میں نام لکھوا لے گی جب بنیادی اصولوں کو فوقیت دی جائے گی۔ ہمارے محسن رح نے ہمیں بتایا ہے کہ:

مَیں تجھ کو بتاتا ہُوں، تقدیرِ اُمَم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل، طاؤس و رباب آخر

آپ وہ رزق کھانے کا کہتے ہیں جو طاقت پرواز میں رکاوٹ نہ بن سکے اور ایسے حرام رزق کو موت کہتے ہہں:

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

ہمارے محسن رح نے وہ سبق یاد دلایا ہے جو صداقت، عدالت اور شجاعت کے نتیجے میں دنیا کی امامت سونپتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

Facebook Comments