• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کشمیر اور گلگت: حامد میر صاحب کا کالم اور تاریخی مغالطے(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔۔ڈاکٹر اظہر فخرالدین

کشمیر اور گلگت: حامد میر صاحب کا کالم اور تاریخی مغالطے(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔۔ڈاکٹر اظہر فخرالدین

– اب یہ سوال کہ اس بغاوت میں کیپٹن حسن مرزا کا کتنا کردار تھا اور اس بغاوت کے مقاصد کیا تھے؟
– حسن مرزا اپنی کتاب میں اسکا سارا کریڈٹ خود لیتے ہیں اور انکا ذاتی جھکاؤ کشمیر کی طرف نظر آتا ہے۔مہاراجہ کی کشمیری فوج کے لیفٹیننٹ غلام حیدر جو بعد میں گلگت سکاؤٹس کا حصہ بنے بھی اسکا سارا کریڈٹ کشمیر (ڈوگرہ) آرمی کے چاروں آفیسرز کو دیتے ہیں۔جبکہ انکے برخلاف بابر خان (جو نگر کے راجا کے رشتے میں چچا بھی تھے) کے بقول اس بغاوت کا اصل کریڈٹ گلگت آسکاؤٹس کے 14 جونئر آفیسرز کو جاتا ہے جنھوں نے بابر خان کے ساتھ ملکر ایک انقلابی کونسل قائم کی اور ایک حلف نامے پر دستخط کیے جس کی تفصیلات میں پاکستان کی خاطر ڈوگرہ سے بغاوت شامل تھی۔ پروفیسر مارٹن کے بقول صوبیدار سیف اللہ نے خود انکو یہ بات بتائی جو اس حلف کی تقریب میں شامل تھے۔ سید درانی اپنی کتاب میں بھی اسکی تصدیق کرتے ہیں۔ مصنف (میرے) کے پاس اس حلف نامے کی ایک کاپی بھی موجود ہے جس کی تصدیق یا تردید نہیں کی جا سکی۔ گھنسارا سنگھ اپنی کتاب میں بھی بابر خان کے پرو پاکستان ہونے کی تصدیق کرتا ہے۔
۔ یہاں ایک اہم نکتہ گلگت کی عوام کی ڈوگرہ راج کے خلاف جدوجہد کی تاریخ بھی ہے جس کے مطالعے سے یہی بات قرین قیاس لگتی ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کے لیے پاکستان ہی ممکنہ چوائس تھی۔ اور اس وقت ایک آزاد ریاست یا کشمیر کے ساتھ جانے کے لیے کسی مضبوط مقامی آواز کا تاریخ میں حوالہ نہیں ملتا۔بعد کے سیاسی ڈھانچے اور محرومیوں نے کسے آزادی کا مطلب تبدیل کیا یہ ایک الگ بحث ہے.
– بغاوت کا حکم کس نے دیا؟ حسن مرزا کے بقول انھوں نے فون پر بابر خان کو آرڈر دیا۔ جبکہ بابر خان حسن مرزا سے کسی بھی ایسے رابطے کا ذکر نہیں کرتے۔ انکے بقول اس بغاوت کو شروع کرنے کا پلان انکا اپنا تھا۔ پروفیسر مارٹن کے خیال کے مطابق چونکہ بابر خان نے ایک کمپنی سیف اللہ کی قیادت میں بونجی سے ممکنہ فوجی حملے کو روکنے کے لیے بھیجی تھی ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بابر کو حسن مرزا کی آمد کی کوئی خبر نہیں تھی اور ناں ہی انکا رابطہ ہوا۔ حامد میر صاحب کا یہ دعوی بھی یہاں غلط ثابت ہوتا ہے۔

– گھنسارا سنگھ کو گرفتار کس نے کیا؟ بابر خان اسکا کریڈٹ خود لیتے ہیں جبکہ کیپٹن حسن مرزا کے بقول جب گھنسارا سنگھ کو علم ہوا کہ بونجی سے ہندو کمپنیاں نہیں آئیں اور اسکے بجائے کیپٹن حسن مرزا مسلمان کمپنی کے ساتھ آئے، تو اس نے ہتھیار ڈال دیے۔ گرفتاری البتہ بابر خان کے ہاتھوں ہوئی اور اسکی تصاویر بھی موجود ہیں۔گھنسارا سنگھ اپنی کتاب میں خود بھی ہتھیار ڈالنے کی بنیادی وجہ حسن مرزا کی آمد اور ہندو کمپنیوں کا ناں آنا قرار دیتا ہے۔
– میجر براؤن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اسکو بغاوت کا علم ہو گیا تھا اور اس نے اسکو کمزور کرنے کے لیے کچھ اہم تبادلے کیے۔ جس میں کیپٹن سید درانی کو گلگت سے کافی دور ٹرانسفر کر دیا۔ لیکن جب بغاوت شروع ہوئی تو وہ بہرحال (ممکنہ طور پر خوف کی وجہ سے) مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو گیا۔(بحوالہ محمد خان 1985)
ان سارے واقعات کی تفصیلات بابر خان، حسن مرزا، پروفیسر مارٹن، محمد خان، گھنسارا سنگھ، غلام حیدر کی کتابوں اور میجر براؤن کی رپورٹوں سے مل سکتی ہیں۔ جہاں تک تنظیم سرفروشاں کا تعلق ہے اس پر پروفیسر مارٹن جنھوں نے اس تحریک کے بانی محمد علی چنگیزی کا انٹرویو بھی کیا لکھتے ہیں کہ اس تنظیم کا گلگت سکاؤٹس کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔ پروفیسر دانی اپنی کتاب میں بھی اسکا ذکر کرتے ہیں اور اشارہ دیتے ہیں کہ شائید شاہ رئیس کا تعلق بھی اسی تنظیم سے ہو۔ یعقوب بنگش اپنے تحقیقی مقالہ (2010) اور پروفیسر دانی (Dani, History of Northern Areas of Pakistan) میں میجر براؤن کے کردار کی نفی کرتے ہیں۔
– ایک انتہائی اہم نکتہ جو ابھی تک ڈسکس نہیں ہوا۔ گلگت 1 نومبر 1947 کو آزاد ہوا۔ مقامی فوج نے جلد ہی بونجی اور استور کا رخ کیا جہاں سے ڈوگرہ افواج فرار ہو چکی تھی۔ البتہ بلتستان ریجن کی آزادی 14 اگست 1948 کو عمل میں آئی۔ اس مہم میں چترال سے رضاکار اور فرنٹیئر کانسٹیبلری بھی شامل تھی اور اس مہم کی سربراہی پاکستان آرمی کے ایک افسر میجر محمد اسلم نے کی۔ کیپٹن حسن مرزا انکے ماتحت ایک چھوٹے یونٹ کے انچارج تھے۔ اس لیے گلگت بلتستان کی آزادی کا سہرا کسی ایک شخص کے سر پر سجانا تاریخ کے ساتھ شدید ناانصافی ہے۔ یہ تو حامد میر ہی بتا سکتے ہیں کہ انکی بیان کردہ تاریخ کی بنیاد کیا ہے۔

گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر، پارٹ 3
سب سے پہلے تو حامد میر صاحب کا یہ دعوی کہ کیپٹن حسن مرزا نے کشمیر (آزاد کشمیر؟) کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا تاریخی حوالے سے غلط ثابت ہوتا ہے۔ آزاد کشمیر 24 اکتوبر کو آزاد ہو چکا تھا اور اس وقت تک حسن مرزا گلگت اور بونجی کے درمیان مصروف عمل تھے۔ انھوں نے اگست میں ایک وادی نیلم کی طرف حملہ کرنے کا ایک پلان ضرور بنایا تھا مگر اس پر عمل ناں ہو سکا۔ انکے زیر کمان دستوں نے بلتستان میں وادی نیلم کی طرف کے علاقے ضرور فتح کیے۔ یہ عین ممکن ہے کہ بلتستان کی فتح کے بعد وہ کشمیر کی جنگ میں شامل ہو گئے ہو جو پونچھ کے محاذ پر جاری تھی، لیکن اس جنگ سے آزاد کشمیر کے خطہ میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حامد میر کیپٹن حسن مرزا کو کشمیری دکھانا چاہتے ہیں جو گلگت اور کشمیر کو قائم اکھٹا رکھنا چاہتا ہے جبکہ حسن مرزا اپنی کتاب (شمشیر سے زنجیر تک) میں اس ساری بغاوت اور اس کے پاکستان سے الحاق کا کریڈٹ خود لیتے ہیں۔ یہی بات تاریخ دان یعقوب بنگش بھی لکھتے ہیں (اگرچہ وہ حسن مرزا کو سب سے اہم کردار ماننے کی نفی کرتے ہیں مگر وہ انکی تحریک کو پاکستان سے الحاق کی تحریک قرار دیتے ہیں)۔ حامد میر صاحب کو کشمیریت کہاں نظر آئی یہ گتھی حامد میر ہی سلجھا سکتے ہیں۔

اب آتے ہیں حامد میر صاحب کے اس دعوی پر کہ پاکستان نے (آزاد) کشمیر سے گلگت چھین لیا۔
سب سے اہم نکتہ اور علمی سوال یہ ہے گلگت و بلتستان پر آزاد کشمیر (یا ماضی کی ریاست کشمیر) کے ملکیتی دعوی کی بنیاد کیا ہے؟
اب اس تعلق کی بنیاد اقوام متحدہ کی قراردادیں یا معائدہ کراچی تو ہو نہیں سکتی کیوں کہ بنیاد تو وہ ہو گی جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ اگر اقوام متحدہ کی قراردادیں ناں بھی ہوتی یا اگر معائدہ کراچی ناں بھی ہوتا تب بھی گلگت روز روشن کی طرح کشمیر کا حصہ ہوتا۔ بلکل ایسے ہی جیسے ریاست حیدرآباد دکن کی اپنی تاریخ تھی، جو انگریز سرکار سے پہلے کی قائم تھی۔
1935 میں مہاراجہ ہری سنگھ اور انگریز سرکار کے مابین ہنزہ اور نگر کو لیکر خاصی ڈسکشن ہوئی. یہ بحث  ٣سال تک چلی اورکرنل فریزرنےایک تفصیلی فیصلے میں تاریخ کی روشنی میں مہاراجہ کایہ دعوی ٰ دارست نہیں مانا. برٹش انڈیاکےدفترخارجہ نےبھی مہاراجہ کایہ دعوی تسلیم نہیں کیا. (بحوالہ بنگش٢٠١٥،صفحہ١٣٥-١٣٨ )
گلگت بلتستان معاہدہ امرتسرکاحصہ تھاہی نہیں۔ 16 مارچ 1846کے معاہدہ امرتسر کے تحت صرف وہی علاقے انگریزوں نے گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کیے، جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زیر انتظام تھے. ہم اوپر یہ ذکر کر چکے کہ  سکھوں کا قبضہ دریائے سندھ کے پار رہا ہی نہیں۔ گلگت دریائے سندھ کے پار آتا ہے جس پر معاہدہ امرتسر کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اور ڈوگرہ فوج کو یہاں اپنی عملداری قائم کرنے میں ہمیشہ مشکل رہی. اور کیا ڈوگرہ کے 75 سالہ قبضے سے گلگت بلتستان کی ہزاروں سالہ پرانی شناخت ختم ہو جاتی ہے؟ اور وہ بھی ایسا قبضہ جس کو عوام نے کبھی نہیں مانا.
ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ 3 جون کے انڈیپنڈنس آف انڈیا ایکٹ کی رو سے حکومت برطانیہ کے تمام پرنسلی ریاستوں سے معاہدے منسوخ ہو گئے، بشمول معاہدہ امرتسر جو ڈوگرہ اقتدار کی بنیاد تھا۔ اس لیے معائدہ امرتسر کی بنیاد پر گلگت پر کشمیر دربار کا قبضہ قانونی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا. یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ 3 جون کا اعلان ہی مہاراجہ کو گلگت کی لیزلوٹانے کا سبب بنا۔

کیا گلگت واقعی آزاد کشمیر کا حصہ تھا جو ہم نے معائدہ کراچی کے تحت پاکستان کو ‘امانتا سونپا’ یا (حامد میر صاحب کے بقول) پاکستان نے چھین لیا؟
آزاد کشمیر صرف تب ہی پاکستان کو یہ خطہ سونپ سکتا تھا جب یہ واضح ہو جاتا کہ آزاد کشمیر کو اس خطے پر کنٹرول حاصل تھا۔ یا آزاد کشمیر نے انکو آزاد کروایا ہوتا۔
گلگت نے اپنی آزادی خود حاصل کی۔ 1 نومبر 1947 کو۔ بلتستان نے دس مہینے کی جنگ کے بعد 14 اگست 1948 کو آزادی حاصل کی۔ آزاد کشمیر حکومت جو 24 اکتوبر 1947 کو قائم ہو چکی تھی اس کا ان دونوں موقعوں پر آزادی کے حصول کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ انفرادی حثیت میں کچھ لوگوں نے کچھ کیا ہو تو الگ بات ہے۔ ریاست چترال کے لوگوں نے بلتستان کی تحریک آزادی میں کردار ضرور ادا کیا۔ آزاد کشمیر اگر واقعی گلگت کو کنٹرول کر رہا ہوتا تو کچھ فوجی دستے ہی بھیج دیتا۔ کشمیر میں تو ہزاروں کی تعداد میں مقامی فوج تھی۔
گلگت اور آزاد کشمیر دونوں قریب ایک وقت میں آزاد ہوئے۔ دونوں نے اپنی متوازی حکومتیں قائم کی۔ دو صدور منتخب ہوئے۔ آزاد کشمیر کے سردار ابراہیم، گلگت کے شاہ رئیس۔ دونوں اگر ایک ہوتے تو دو متوازی حکومتیں کیسے؟ یہ منطق حامد میر ہمیں بھی سمجھا دیں۔ دلچسپ بات یہ کہ تاریخ میں ایسا حوالہ نہیں ملتا کہ آزاد کشمیر حکومت کو گلگت پر یا گلگت کو آزاد حکومت پر کوئی اعتراض رہا ہو۔ ناں ہی دونوں میں سے کسی نے دوسرے کے ساتھ ضم ہونے کی کوئی بات کی۔ سردار عبدالقیوم خان صاحب نے ایک خط صدر پاکستان غلام اسحاق خان کو ضرور لکھا جس میں انھوں نے گلگت کشمیر کو لوٹانے کی بات کی۔ مگر اس پر اپنا ملکیتی حق ثابت کرنے میں وہ کوئی تاریخی حوالہ پیش کرنے سے قاصر رہے۔
گلگت بلتستان کے موجودہ ریجن میں اکثر ریاستوں نے انفرادی حثیت میں پاکستان سے الحاق کیا۔ ہنزہ، نگر کے الحاق کی تو دستاویزات بھی موجود ہیں۔ پاکستان نے بلآخر اس سارے علاقے پر اپنا پولیٹیکل ایجنٹ لگا دیا۔ اب یہ خطہ تو معائدہ کراچی ہونے سے 17 مہینے 11 دن پہلے سے ہی پاکستان کے کنٹرول میں تھا۔ ۔آزاد کشمیر اسکو کیسے پاکستان کو سونپ سکتا ہے؟
چلیں اگر سونپا بھی تھا (بلفرض) تو سوال تویہ بنتا ہے کہ گلگت والوں سے پوچھے بغیر کشمیریوں نے انکو پاکستان کو کیسے سونپ دیا؟ آزاد کشمیر کی تو آزادی بھی سو فی صد اپنی نہیں (قبائلی لشکر کی مدد حاصل رہی)؟ اور جن کی سو فیصد اپنی آزادی تھی انکو کشمیری پاکستان کو سونپ آئے!! کیا آپکو نہیں لگتا کہ یہ گلگت والوں کے ساتھ بہت زیادتی تھی؟ وہ تو معائدہ کراچی میں شامل ہی نہیں تھے ناں وہاں قابل ذکر مسلم کانفرنس تھی ناں نیشنل کانفرنس۔
جب ایک خطہ تھا ہی پاکستان کے زیر انتظام تو اسکو کیا ضرورت پیش آئی اسکو ‘چھیننے’ کی؟
ہاں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے جو رویہ گلگت بلتستان کی عوام کے ساتھ روا رکھا وہ افسوسناک ہے۔ انکو انکے جائز حقوق اور شناخت مل جانی چاہیے تھی۔ ہم کشمیری انکی قربانیوں کی قدر کرتے ہیں کہ ہماری وجہ سے وہ بھی اقوام متحدہ میں پھنس گئے۔ جس کی وجہ ممکنہ طور پر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا یہ خیال تھا کہ اس علاقے کا ووٹ رائے شماری میں ہمارے کام آئے گا۔
حامد میر صاحب کو بھی اور کشمیری قوم پرستوں کو بھی اب گلگت بلتستان کو کشمیر کی عینک سے دیکھنا بند کرنا ہو گا۔ آل پارٹیز کانفرنس جس کا حامد میر صاحب نے ذکر کیا، میں ایک بھی گلگتی یا بلتی حقیقی نمائندہ نہیں تھا۔ گلگت والوں کا بنیادی مسئلہ ہی یہی رہا کہ ان پر زبردستی کی کشمیریت مسلط کی جاتی رہی۔ میں ایک کشمیری ہونے کا ناطے جس بنیاد پر اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہتا ہوں وہی حق اپنے گلگت کے بھائیوں کو بھی دینا چاہتا ہوں۔ ورنہ تو دو میعار ہو گئے، ایک اپنے لیے ایک دوسروں کے لیے۔

میرا ذاتی خیال تو یہ تھا کہ اگر پاکستان کی حکومت اپنی ایک تاریخی غلطی (گلگت، ہنزہ اور نگر کے الحاق کو قبول کر کے ضم ناں کرنا) کی اصلاح کرنا ہی چاہتی ہے تو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی عین روشنی میں ایک ریفرنڈم کروا دیا جائے۔ تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے۔ اور صرف مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ باقی رہ جائے۔ میں گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے پر صرف ایک صورت میں اعتراض کروں گا اگر وہاں کی غالب عوام اس اقدام کی مخالف ہو۔ اگر ان پر انکی مرضی کے برخلاف صوبہ مسلط کیا جا رہا ہو۔ ورنہ کشمیری کیا چاہتے ہیں یہ اہم نہیں۔ اہم یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے باشندے کیا چاہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

رہے اہل کشمیر تو ان کے پاس فقط دو راستے ہیں۔
وہ بھی اپنے لیے ایک عارضی انتظامی سیٹ اپ مانگیں اور سینیٹ اور قومی اسمبلی تک نمائندگی لیں۔ وفاقی اداروں میں بھرپور نمائندگی لیں، این ایف سی میں حصہ لیں۔ رائے شماری ہونے تک تو اپنے معاملات سیدھے کریں۔یا پھر ایسے ہی بیچ میں لٹکے رہیں جیسے 73 سالوں سے لٹکے ہوے ہیں۔ اور قوم پرستی کے بطن سے پھوٹتی نفرت کو تناور درخت بنتا دیکھیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply