مقدر کا سلطان۔۔عارف انیس

حضرت علی کرم الله وجھہ کا قول ہے الله سے عقل و حکمت نہیں نصیب مانگو،کیونکہ میں نے نصیب والوں کو عقل والوں پر حکومت کرتے اور عقل والوں کو نصیب والوں کے لئے چاکری کرتے دیکھا ہے۔ کامیابی کے لیے عقل اور نصیب والوں میں سے کسی ایک کا انتخاب، اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ میاں سلطان خان کی کہانی بھی انہی ایک رازوں میں سے ایک ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس طلسم ہوش ربا داستان کو جاننے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔
شطرنج مقبول ترین دماغی کھیلوں میں سے ایک ہے۔ سچ پوچھیں تو اس کھیل کی اوقات مجھے انگلینڈ میں آنے کے بعد سمجھ میں آئی جب لندن کے کاٹھے گوروں والے رائل آٹوموبیل کلب میں برطانوی رؤوساء کو شطرنج پر فدا ہوتے دیکھا۔ یہیں پہلی مرتبہ روسی شطرنج جینیس گیری کیسپروف سے ملاقات ہوئی جو انسانی تاریخ کا ذہین ترین شخص سمجھا جاتا ہے۔ کیسپروف وہ شخص ہے جس نے 1996 میں سپر کمپیوٹر کو مقابلے میں شکست دی تھی۔
میاں سلطان خان سے میرا تعارف ریمنڈ کین نے کروایا ہے۔ کین خود ایک گرینڈ چیس ماسٹر ہے جو کہ چیس کے میدان میں دنیا سب سے بڑا ٹائٹل ہے۔ اس نے میری پیدائش سے قبل برٹش چیمپین شپ جیتی تھی۔ وہ تقریباً دو سو سے زیادہ کتابوں کا مصنف ہے اور تیس چالیس برس تک برطانیہ کے صف اول کے اخبارات میں کالم لکھتا رہا۔ حال ہی میں اس نے بطور چیئرمین برین ٹرسٹ مجھے برین آف دی ایئر کے ایوارڈ کی اطلاع دی تھی۔ جب میرے حوالے سے وادی سون سکیسر کا تذکرہ ہوا تو کین نے بہت دلچسپی سے سنا۔ چند دن پہلے اس کی ای میل وصول ہوئی اور اس کا ٹائٹل تھا “میٹ این ادر گریٹ فرام یور ایریا”۔ میں نے ای میل میں اس کا سلطان خان پر لکھا مضمون پڑھا اور ورطہ حیرت میں ڈوب گیا۔
ای میل کے ساتھ ایک تصویر نتھی تھی جس میں ایک پکے رنگ کا شخص تقریباً دو درجن سوٹڈ بوٹڈ گوروں کے ساتھ شطرنج کھیل رہا تھا۔ گورے میزوں ہر شطرنج بچھائے بیٹھے تھے اور وہ درمیان میں اپنی کمر پر ہاتھ رکھتے کھڑا بازی کمال محویت سے بازی کھیل رہا تھا۔ معلوم ہوا پکے رنگ کا یہ شخص سلطان خان ہے جو کہ دو درجن ٹاپ برطانوی کھلاڑیوں کے ساتھ اکیلا شطرنج کھیل رہا تھا۔ یہ 1931 کا سال تھا جب متحدہ ہندوستان، سلطنت برطانیہ کا غلام تھا۔ نیچے کین نے لکھا تھا “اپنے علاقے کے ایک اور ہیرو سے ملو۔ سلطان خان نے 1931 میں ان سب لوگوں کو شطرنج کے میدان میں، تن تنہا شکست دے دی تھی”۔
میاں سلطان خان، خوشاب کے علاقے مٹھہ ٹوانہ میں پیدا ہوا تھا۔ اس کا باپ نظام الدین مقامی مسجد کا مولوی تھا اور ساتھ ہی کلاسیکی ہندوستانی شطرنج کا کھلاڑی بھی تھا۔ سلطان خان کے نو بہن بھائی تھے۔ بچپن میں جب سلطان نے اپنے باپ سے شطرنج سیکھنے کی فرمائش کی تو الٹا پٹائی ہوئی اور اسے کہا گیا کوئی ڈھنگ کا کام کرو۔ میاں نظام الدین صرف ایک مولوی نہ تھے بلکہ مٹھہ ٹوانہ میں اپنے بزرگ میاں اطہر کی خانقاہ کے گدی نشین تھے۔ عمر حیات ٹوانہ ان کا مرید تھا۔ عرس پر مٹھہ ٹوانہ گیا تو اس نے میاں سلطان کی شطرنج میں مہارت دیکھی تو ان کے والد کی اجازت سے اپنے ساتھ لے گیا۔ عمر ٹوانہ اس وقت کے برصغیر کا سب سے بڑا جاگیردار تھا اور شہنشاہ جارج پنجم کا اے ڈی سی بھی تھا جس نے دو سال سلطان کو کھیل کی تربیت دلوائی۔ 1926 میں وہ آل انڈیا چیمپئن بن چکا تھا۔ عمر ٹوانہ اسے ایک ٹرافی کے طور پر لندن کے امپیریل چیس کلب میں لے کر آیا۔ 1929 میں مٹھہ ٹوانہ کا سلطان خان برٹش چیمپئن بن چکا تھا اور یہ وقت تھا جب سلطنت برطانیہ میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

میاں سلطان خان پر پڑھنا شروع کیا تو دنگ رہ گیا۔ وہ معمولی حد تک پڑھا لکھا تھا اور اسے انگریزی بولنی بھی نہیں آتی تھی مگر وہ اپنے وقت کی معلوم دنیا میں سب سے مشکل ترین کھیل سب سے بڑا کھلاڑی تھا۔ اس نے بمشکل ایک دو سال انگریزی شطرنج سیکھی جو کلاسیکی ہندوستانی شطرنج سے مختلف تھی۔ گورے جو ہندوستانیوں کو غلام اور کمتر سمجھتے تھے وہ دانتوں میں انگلیاں دبائے اس کا کھیل دیکھتے تھے۔ 1931 میں اس نے دنیا کا سب سے بڑا چیلنج قبول کرتے ہوئے بیک وقت شطرنج کے چوٹی کے 33 کھلاڑیوں کے ساتھ ایک ساتھ میچ کھیلا، 26 گیمز جیتیں، 4 برابر کیں اور تین ہاریں۔ 1930 میں، سلطان خان نے سلطنت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے چیس کے ورلڈ چیمپئن ہوزے کاپابلانکا کو شکست دے دی۔
میاں سلطان خان نے لندن میں ایک تہلکہ مچا دیا۔ ایک ہندوستانی جو دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے ذہین ترین لوگوں ہر بھاری تھا۔ کچھ چوٹی کے امریکی کھلاڑی اس سے ملنے کے لیے گئے تو ان کی ملاقات عمر ٹوانہ سے ہوئی جو کافی دیر تک ان کے سامنے اپنے گرے ہاؤنڈ کتوں کے ساتھ کھیلتا رہا اور اپنی امارت کے بارے میں ہانکتا رہا۔ “تمہاری خوش قسمتی ہے کہ میں تم سے مل رہا ہوں ورنہ شام کا یہ وقت میں صرف اپنے کتوں کے ساتھ گزارتا ہوں”۔ کھلاڑی یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ وہ جس شخص سے ملنے کے لیے آئے تھے وہی ان کے لیے چائے بنا کر لایا تھا۔
میں نے درجنوں گورے صحافیوں کی سلطان خان پر تحریریں پڑھیں۔ بار بار یہی پڑھنے میں آیا کہ وہ انگلش کے دوچار الفاظ ہی بول سکتے تھا۔ سلطان خان لمبوترے چہرے والا، پکے رنگ کا شخص تھا۔ چہرہ پوکر فیس تھا یعنی جذبات سے بالکل عاری۔۔۔ جب وہ شطرنج جھیلتا تھا تو لگتا کہ دنیا میں اور کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے۔ بس صرف اس کے جبڑے کی ہڈی ہلتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ سلطان خان برطانیہ میں 1929 سے لے کر 1934 تک موجود رہا اور اس دوران لندن کے موسم سے شدید تنگ رہا کیونکہ اسے مسلسل زکام رہنے لگا تھا۔ پانچ سال وہ سلطنت برطانیہ میں شطرنج کا سب سے بڑا کھلاڑی رہا۔ عمر ٹوانہ ہندوستان واپس جاتے ہوئے سلطان خان کو ساتھ لے گیا اور پھر کسی نے سلطان خان کا نام نہ سنا۔
1944 میں سلطان خان نے تب کے وائسرائے ہند کے ساتھ میچ کھیلا اور اسے شکست دے دی۔ اسی وقت کے آس پاس عمر حیات ٹوانہ کا انتقال ہوگیا اور سلطان خان نے واپس مٹھہ ٹوانہ جا کر اپنی زمینوں پر کاشتکاری شروع کردی۔ سلطان خان 63 برس کی عمر میں ٹی بی کی وجہ سے خون تھوکتے ہوئے رب سے جاملا۔ اس نے اپنے کسی بھی بچے کو شطرنج نہیں سکھائی کیوں کہ وہ انہیں کہتا تھا “تم زندگی میں کوئی ڈھنگ کا کام کرنا سیکھو”۔ میر سلطان خان کا بیٹا اطہر سلطان بعد میں آئی جی پولیس پنجاب کے عہدے تک پہنچا۔سلطان خان کی پوتی عطیاب سلطان نے کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی بے۔
میاں سلطان خان آج بھی شطرنج کے کھیل کے لیجنڈ کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ اپنے وقت کے سب سے بڑے رئیس سر عمر حیات ٹوانہ کے بارے میں شاید کوئی نہیں جانتا لیکن سلطان خان کے بارے میں ابھی بھی کتابیں چھپتی ہیں اور لکھے والے اس نابغہ روزگار شخص کے بارے میں سوچتے ہیں جس نے ایک عالم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ ایک کاشتکار جو اپنے سکور کی گنتی بھی پنجابی میں لکھا تھا اور اپنے مخالف کو تیز عقابی نظروں سے دیکھتا رہتا تھا۔ جب کہا جاتا تھا کہ تمہیں کون سی زبان بولنی آتی ہے تو وہ کندھے اچکا کر ایک لفظ کہتا تھا “چیس”۔ واقعی پوری دنیا میں یہ زبان اس سے بہتر بولنے والا کوئی نہیں تھا۔
میرے لیے میاں سلطان خان بھی ایک ہیرو سے کم نہیں،جس نے غلام ہندوستان کا ایک “تھرڈ کلاس” باشندہ ہوتے ہوئے وائسرائے ہند سے لے کر دنیا کے بہترین دماغوں کو شطرنج کے میدان میں چت کردیا تھا اور پاکستان کے قیام سے پہلے ہی ثابت کردیا تھا کہ “پاکستانی” دماغ دنیا میں کسی سے کم نہیں ہے۔ سلطان خان پر ایک ورلڈ کلاس فلم یا نیٹ فلیکس سیریز ضرور بن سکتی ہے۔ میں اپنی حد تک اس کی ضرور کوشش کروں گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply