ہاتھی کیسے کھانا ہے؟۔۔عارف انیس

ہم میں سے اکثر دو طرح کی زندگیاں جیتے ہیں۔ ایک تو وہ جو ہم جی رہے ہوتے ہیں، اور ایک وہ جو ہم جینے کے حقدار ہوتے ہیں، مگر جی نہیں پاتے۔
شاید آپ کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ آپ واقعی کیا بننا اورکیا کرنا چاہتے /چاہتی ہیں۔ وہ زندگی اور وہ مستقبل جو آپ اپنے آپ کو اور محبت کرنے والوں کو اور اس دنیا کو دینا چاہتے /چاہتی ہیں، وہ خیر کے کام جو کرنے کے ہیں، مگر ان کی نوبت ہی نہیں آپاتی۔ زندگی، چھوٹے چھوٹے کاموں میں خرچ ہوجاتی ہے۔

ہر روز آپ کچھ کام ادھورے چھوڑ دیتے /دیتی ہیں۔ اپنے اندر بے شمار خامیاں نظر آتی ہیں۔ اپنے کام پر خود ہی بڑا سا کانٹا لگا کر اچھا لگتا ہے۔ اپنے آپ کو چھوٹا کر کے، منی سائز کرکے، لگتا ہے مسائل حل ہوگئے ہیں۔ ہر روز پوری توانائی کے ساتھ نہ جینے کے لئے بے شمار بہانے بھی جمع ہوجاتے ہیں۔ یوں آپ جینے کو کل تک ملتوی کیے جاتے /جاتی ہیں۔
اصل میں “بھونپو” آپ کو روکتا ہے۔ یہ بھونپو ہمارے سر کے پیچھے سے آنے والی بہت نحیف مگر بہت جادوگر آواز ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ رفتار آہستہ کرو، قد چھوٹا کرو، محتاط رہو، گزارہ کرلو۔۔۔۔۔ لوگ دیکھ رہے ہیں۔

بھونپو بتاتا ہے کہ تم سے نہیں ہوگا۔ لوگ ادھر دیکھ بھی رہے ہیں اور ہنس بھی رہے ہیں۔ اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہے۔
بھونپو ہر مسئلے کا ایک ہی حل بتاتا ہے۔ کھاؤ اور لیٹ جاؤ۔ ہم کھاتے ہیں اور لیٹ جاتے ہیں اور پھلتے، پھولتے جاتے ہیں۔ نتیجتاً ہم کھا کر اور لیٹ کر آنکھیں بند کرکے اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔ بھونپو کا ایک ہی کام ہے کہ آپ کو دنیا جہان کے مسائل سےمحفوط رکھے، لیکن جہاز لنگر انداز ہونے کے لیے تھوڑا بنتے ہیں۔ آپ اس لیے دنیا میں تھوڑی آئے /آئی ہیں کہ جس پیکنگ میں ادھر داخل ہوئے /ہوئی ہیں، اسی میں آگے پارسل ہوجائیں؟؟ کوئی ٹوٹ پھوٹ، کوئی بناؤ سنگھار، کوئی تماشہ وماشہ تو لگنا چاہیے۔

خیر یہ تقریریں تو آپ نے بہت سن رکھی ہیں۔ حل کیا ہے؟ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائیں، اور گرنے کے لیے تیار رہیں۔ ایک چیز پکڑیں اور اس پر قابو پا لیں، مہارت حاصل کرلیں۔ قدم آج اٹھائیں، کل کس نے دیکھا ہے۔ اپنی زندگی کے سب سے بڑے آئیڈیے، پراجیکٹ، پلان اور خواب کو بیس، پچاس یا سو قدموں میں قیمہ بنا لیں۔ وہ آپ کو بتایا تھا نہ کہ ہاتھی کیسے کھاتے ہیں؟ بس ایک نوالہ روزانہ۔۔۔۔۔ مگر کھانا روز یے۔ صبح، دوپہر، شام!!!

اپنے خوابوں کو دماغ پر نہیں، دیواروں ہر لکھیں، کاغذ پر اتاریں، پھر ہر روز اس فہرست میں سے ایک چیز کم از کم کر ڈالیں۔ چھوٹے چھوٹے قدم، چھوٹی چھوٹی جیتیں، بس سب سے بڑے مقصد تک پہنچنے کے لئے ننھا سا قدم روز اٹھا لیں۔ حضرت یوسف کو خریدنا ہے تو سوت بننا شروع کر دیں۔ کتاب لکھنی ہے تو 100 لفظ روزانہ لکھنا شروع کر دیں، میں نے ایسے ہی پہلی کتاب لکھی تھی۔ میراتھون بھاگنی ہے تو ہر روز پانچ منٹ کی سپرنٹ لگا ماریں۔ سی ایس ایس کرنا ہے، ایک اخبار روزانہ ختم کریں یا دس کالم روز پڑھ لیں۔
مگر گاؤزبانی نسخہ ایک ہی ہے – – – – روزانہ!!! ودآوٹ اے بریک۔

Advertisements
julia rana solicitors

یاد رکھیں آپ کو چیلنج نہیں مارتا، چیلنج کا سائز مارتا ہے، بس قیمہ بنا دیں اور چیلنج غائب۔ سائنس یہ بتاتی ہے کہ کوئی بھی بڑا سے بڑا کام جسے آپ 20 منٹ روزانہ کر سکیں اور 500 دن کرتے /کرتی جائیں، اس کے ہونے کا امکان ٪80 ہوجاتا ہے۔ میرے ساتھ شرط لگالیں۔ پہلا دن آج سے شروع ہے۔
کرنا کیا ہے؟ کس سوچ میں ہو؟ کدھر جارہے ہو، کدھر کا خیال ہے  ؟
باقی رہا، کانوں میں سرگوشیاں کرنے والا بھونپو، تو اس کے منہ میں “گنڈیری” دے دو۔ پھر بھی نہیں مانتا تو “گنا” حاضر ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply