معاوضہ۔۔شاہد محمود

آج جمعہ تھا ۔ کام کا آخری دن ۔۔۔ پھر دو دن کی چھٹی ۔۔۔ یہاں سب ہفتہ بھر میں پانچ دن کام کرتے اور دو دن چھٹی مناتے۔ جمعہ کو ہی ہفتہ بھر کام کرنے کا معاوضہ تقسیم کیا جاتا ۔ معاوضہ تقسیم کرنا میری ذمہ داری تھی اور میں مزدوروں کو لائن میں لگانے کی بجائے کھانے کے وقفے میں ہر ایک کے پاس جا کر اس کا ہفتہ بھر کا معاوضہ اور اپنی طرف سے ان کے بچوں کے لئے ٹافیوں کا چھوٹا سا پیکٹ تحفہ دیتا ۔ پاکستان سے دور اس سرد یورپی ملک میں کام کرتے مجھے ڈیڑھ سال ہو چکا تھا اور میں نہ گھر جا سکا تھا اور نہ ہی اپنے پیاروں کی شکل دیکھ سکا تھا ۔

موبائل فون اس زمانے میں تھے ہی نہیں ۔ پاکستان گھر میں پی ٹی سی ایل کا فون بھی نہیں تھا ۔۔بس خط و کتابت رابطے کا واحد ذریعہ تھی۔ میری نوکری اچھی تھی لیکن پانچ سال سے پہلے پاکستان آنا جانا کرتا تو خرچہ ساری بچت لے ڈوبتا ،سو اپنے اہل خانہ کی تصاویر باری باری دیکھتا رہتا ۔۔۔ ماں باپ، بیوی بچے، بہن بھائی، دوست احباب کسے یاد نہیں آتے ۔۔۔ مگر میری بیٹی ۔۔۔ میری خاص بیٹی ۔۔۔ میری رحمت بیٹی ۔۔۔

اس کی تصویر دیکھتے دیکھتے میری آنکھوں سے آنسوؤں کے دریا بہہ نکلتے کہ وہ پانچ سال کی ہو چکی تھی اور جب میں پاکستان سے آیا تھا تو ساڑھے تین سال کی تھی ۔۔۔ پر ٹھیک سے چل نہیں پاتی تھی ۔ اس کے پاؤں تھوڑے ٹیڑھے تھے جن کی بابت ڈاکٹر کہتے تھے کہ اس کے بڑے ہونے پر اگر یہ ٹھیک نہ ہوئے تو آپریشن کریں گے ۔ وہ ٹیڑھے پاؤں رکھتی بابا ،بابا کرتی بھاگم بھاگ لڑکھڑاتی ہوئی میرے پاس آتی ۔ میرے ساتھ سوتی جاگتی ۔۔۔ میرے ہاتھ سے کھانا کھاتی ۔۔۔ اب جانے کیسی ہو گی ۔۔۔

وہ نومبر کے دن تھے۔ سارے یورپ میں کرسمس کی گہماگہمی تھی۔ جمعہ کو میں معاوضہ بانٹتا ہی نہیں تھا بلکہ خود کو ملنے والے معاوضے سے یخ بستہ موسم میں اپنے آپ کو بھی تحفہ دیتا تھا ۔۔۔ ایک کپ کافی اور ایک سلائس پیزا ۔۔ پر اس دن جب میں رات کو کافی و پیزا سلائس لے کر چہل قدمی کرتا اپنی رہائش گاہ کی طرف جا رہا تھا تو ایک اندھیرے گوشے میں دو آدمیوں نے یکایک مجھے دبوچ کر بے بس کر دیا اور میری جیب سے میری ہفتہ بھر کی کمائی نکال کر میری گھڑی اور جوتے بھی اتروا لئے اور گرم کوٹ بھی ۔۔۔۔ میں نے ڈرتے ڈرتے انہیں کہا میں پردیسی ہوں میرے بٹوے سے میرے اہل خانہ کی تصاویر نکال کر مجھے دے دیجئے ۔۔۔ اتنا سننا تھا کہ دونوں نے بیک زبان کہا، “شجاع تم” ۔۔۔ میں نے بھی آوازیں پہچان لیں یہ دونوں مزدور اسی فیکٹری میں کام کرتے تھے جہاں میں اکاونٹس افسر تھا ۔۔۔ رابرٹ اور ہنری ۔۔۔۔

دونوں نے شرمسار ہوتے ہوئے مجھ سے معافی مانگتے ہوئے میرا بٹوہ کوٹ بوٹ گھڑی سب واپس لوٹاتے ہوئے منت کی کہ کسی کو اس بابت نہ بتاؤں اور انہیں معاف کر دوں ۔ میں انہیں لے کر کافی شاپ پر آیا ۔۔ان کے لئے اور اپنے لئے کافی و پیزا لینے لگا تو انہوں نے منع کر دیا لیکن میں نے کافی کے تین کپ خریدے اور انہیں لے کر ایک میز کے گرد پڑی کرسیوں پر بیٹھ گیا ۔۔۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ کرسمس سر پر ہے ۔۔۔ ان کے چھوٹے بچے ہیں ۔۔۔ فیکٹری سے ملنے والے معاوضے سے وہ بچوں کو کھانا و سادہ کپڑے تو لے کر دے سکتے ہیں پر کرسمس کے لئے نئے لباس و تحائف لے کر دینا ان کے بس کی بات نہیں۔

رابرٹ کی پانچ سال کی بیٹی جس کے پیدائشی پاؤں ٹیڑھے تھے، نے کرسمس پر بولنے والی گڑیا اور گڑیا جیسے حسین کپڑوں اور جوتوں کی فرمائش کی تھی ۔۔۔ اس نے بتایا کہ اوور ٹائم لگا کر بھی وہ بیٹی کی خواہش پوری کرنے کے لئے پیسے نہ جمع کر سکا تو ہنری سے مشورے کے بعد زندگی میں پہلی مرتبہ کسی کو لوٹنے کی حرکت کا مرتکب ہوا اور مجھے اس لئے چھوڑ دیا کہ ہر ہفتے میں انہیں ان کے بچوں کےلئے ٹافیاں دیتا ہوں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے انہیں ساتھ لیا اور رابرٹ کی بیٹی کے لئے گڑیا، کپڑے اور جوتے خرید کر دئیے اور ان کے باقی بچوں کی بابت پوچھ کر ان کے لئے بھی تحائف خرید کر ان کے حوالے کئے اور جب وہ تشکر کا اظہار کرتے واپس جا رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ “یہ نظام” جس کا بنیادی پہیہ “مزدور” ہیں ۔۔۔ یہ نظام کہیں الٹا تو نہیں چل رہا جس میں سب سے زیادہ محنت مشقت کرنے والا سب سے کم معاوضہ پاتا ہے !

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ