پاکستانی قوم کو ایک اور غازی مبارک ہو ۔۔۔منور حیات سرگانہ

خوشاب میں بینک سکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں اسی کے بینک مینیجر کے بیہمانہ  قتل سے یہ پتا چلتا ہے کہ جہالت اور مذہبی جنونیت لوگوں میں کوٹ کوٹ کر بھری جا چکی ہے۔اور ایسا ہمارے اہل ِ اقتدار نے مرحلہ وار سوچ سمجھ کر کیا ہے ،تاکہ لوگ اپنے حقیقی مسائل تعلیم ،صحت،روزگار،انصاف اور مساوات کی عدم فراہمی کو بھول جائیں۔اس واقعے سے یہ اندازہ لگانا بھی چنداں مشکل نہیں کہ ہجوم کو بےوقوف بنانا کس قدر آسان ہوتا ہے۔

اب کسی شخص پر بھی گستاخ ِرسول کا ٹھپہ لگائیے اور شور مچا دیجیے ،اگر مذکورہ  شخص کسی غازی کے کلہاڑے سے بچ بھی گیا،تو ہجوم اسے کیفر ِ کردار تک پہنچانے کا کام بخوبی سنبھال لے گا۔گناہ گاروں کے یوم ِ حساب کے لئے اب محشر کا انتظار کون کرے۔فرشتوں کے کرنے کا کام اور خدائی اختیار اب لوگوں نے خود اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔اب تو فرد جرم عائد ہوتی ہے،اور عدالت لگنے سے پہلے ہی مجرم کو کیفرکردار تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ہر شخص اب خود ہی کوتوال،خود ہی قاضی اور خود ہی جلاد ہے۔
بڑے لوگوں کی جیب میں”‘غدار” کی مہر ہے تو عام آدمی کی جیب میں “گستاخ ِرسول” کی۔

سبھی سیاسی جماعتوں میں اس طرح کے نیک کاموں کے لئے الگ سے غیر اعلانیہ ڈیسک بنائے گئے ہیں ،ان شعبوں کے سربراہ ایسے واقعات میں لوگوں کے مذہبی جذبات کو ابھارنے اور ایسی صورتحال کو کیش کرانے کی پوری پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔باقی مذہبی جماعتوں کا تو پورا اسٹرکچر ہی لوگوں کے مذہبی جذبات سے فائدے اٹھانے اور ان کا جذباتی استحصال کرنے پر استوار ہے۔
کئی سال تک ایک مخصوص فرقے کے جذباتی نوجوانوں کے دلوں میں زہر بھر کر ان کو مسلح کر کے اقلیتی فرقوں کے لوگوں کو دبانے اور انہیں قتل کرنے کے لئے آزاد چھوڑ ا گیا۔
اس کے بعد اب دوسرے فرقے کے لوگوں میں شدت پسندی کے کانٹے بو دیے گئے ہیں۔

ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے ہیں ،جب اسلام آباد میں ریاست اور لوگوں کی املاک جلانے والوں،دنگا فساد کرنے والوں اور قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کو ایک بالادست ادارے کی جانب سےایک ایک ہزار روپیہ فی کس ادا کر کے ان کا شکریہ ادا کر کے ان کو گھروں کو روانہ کیا گیا تھا۔کچھ دن پہلے پشاور میں ایک احمدی کو عدالت میں قتل کرنے والے شخص کو وکیلوں نے پھولوں کے ہار پہنائے،اور پولیس والوں نے فخر سے اس کے ساتھ سیلفیاں لیں ،جبکہ کل قائد آباد میں بینک مینیجر کو بے رحمی سے قتل کرنے والے سکیورٹی گارڈ کو کندھوں پر اٹھا کر نہ صرف یہ کہ اس کے اس عمل کی تائید میں پورے شہر میں اس کا جلوس نکالا گیا،بلکہ تھانے میں اسے چائے بھی پیش کی گئی۔

یہ بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے۔جیسے پڑوسی ملک بھارت میں بے روزگار ہندو نوجوانوں نے گاؤ رکشک کے نام سے گینگ بنا لئے ہیں ،جو سڑکوں پر ناکے لگاتے ہیں،اور اگر کوئی مسلمان یا دلت کسی ٹرک یا ویگن میں گائے لے کر جا رہا ہو تو اسے پکڑ کر پیٹ پیٹ کر مار ڈالتے ہیں۔کیونکہ وہاں کی ہندو انتہا پسند مودی سرکار لوگوں کے بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے،اسی لئے وہاں کی حکومت ایسے وحشیانہ اقدامات سے نہ صرف چشم پوشی کرتی ہے بلکہ بی جے پی کے وزراء اور سیاسی رہنما ایسے لوگوں کو ہار پہنانے بھی پہنچ جاتے ہیں۔وہی واردات اور وہی طریقہ یہاں کی حکومت یہاں پر دہرا رہی ہے،کہ کسی طرح لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکا کر ان کی بے چینی کا رُخ دوسری جانب موڑ دیا جائے ،کہ تمہارا دین خطرے میں ہے۔تاکہ لوگ ان کی نالائقی اور نااہلی کو بھول کر اسی جذباتیت کی بھنگ پی کر مدہوش رہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ریاست اور مقتدر اداروں کی ایسے مجرمانہ واقعات سے چشم پوشی ،بلکہ درپردہ حمایت نے ہمارے معاشرے کو ایک بدبودار جوہڑ میں تبدیل کر دیا ہے،اور ایسے حالات میں ہمارے ملک کے پڑھے لکھے اور باشعور لوگوں کی زندگیاں ،ان پڑھ جذباتی،جاہل اور جنونی لوگوں کے رحم وکرم پر ہیں۔ایسے واقعات بدقسمتی سے بڑھتے جا رہے ہیں،اور اگلی باری کس کی ہو ،کسی کو کچھ معلوم نہیں۔

Facebook Comments