چائے کے چمچ میں طوفان۔۔سعید چیمہ

عرض پرداز جو وقت باغ کی سیر میں گزارتا ہے وہ کسی جنت میں بِتائے گئے  لمحات سے کم نہیں ہوتا، اور اگر سیر صبح کی ہو تو سہاگہ سونے پر نہیں بلکہ ہیروں پر ہوتا ہے، صبح کی سفیدی رات کی سیاہی کا سینہ چاک کر رہی تھی کہ عرض پرداز مشرقی دروازے سے جناح باغ میں داخل ہوا،  داخل ہوتے ہی سامنے پڑے ہوئے  سیمنٹ کے بنچ  پر ایک شناسا چہرہ دکھائی دیا،  فوراً جان گیا کہ بنچ پر بیٹھا ہوا شخص کوئی اور نہیں بلکہ سائیں برکت ہے،  سائیں جی کو دیکھ کر قدم بے اختیار ہوئے اور بنچ کی طرف اٹھنا شروع ہو گئے۔

کورونا کے باعث ہاتھ ملائے بغیر سلام کرنے کے بعد سوال پوچھا کہ سائیں جی آپ اتنی صبح اس بنچ پر بیٹھے کیا کر رہے ہیں۔۔؟

تیرا انتظار کر رہا تھا، فوراً جواب آیا،

مگر میں تو ہفتے میں ایک دو بار صبح کے وقت باغ کی سیر کو آتا ہوں تو آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں آج باغ کی سیر کو آؤں گا اور باغ میں  داخل بھی مشرقی دروازے سے ہوں گا؟

کچھ سوالوں کے جواب دینا ضروری نہیں ہوتا، لہذا یہ سوال سنسر ہو گیا ہے، اگر کسی نے یہ کہہ دیا کہ آپ باغ میں بنچ پر بیٹھے ہوا خوری نہیں بلکہ حوا خوری کر رہے ہیں تو آپ کیا جواب دیں گے۔۔

دیکھ، کہنے والے تو بہت کچھ کہتے ہیں، وقت کے پیغمبروں کے بارے میں بھی لوگ بہت کچھ  کہتے رہے، میری تو پیغمبروں کے آگے اوقات ہی کوئی نہیں، اگر اللہ کے ساتھ معاملات درست ہوں تو لوگوں کے کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے،  اگر آپ سچے ہو تو اللہ آپ کو الزام سے بری کروانے کے لیے کوئی نہ کوئی اسباب پیدا فرما دے گا،۔

سائیں جی یہ اپوزیشن کیا کرنے جا رہی ہے اور بیانات بھی ایسے ہیں کہ قومی سلامتی پر حرف آ رہا ہے،  عرض پرداز نے گفتگو کا رخ موڑا،

” اپوزیشن نے چائے کی پیالی نہیں بلکہ چائے کے چمچ میں طوفان اٹھایا ہوا ہے، اس طوفان سے بننے والے بھنور  میں ہی اپوزیشن کا سینہ ڈوب جائے گا، ابھی تو اپوزیشن کے جلسوں میں جان ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ جان خود بخود قبض  کر لی جائے گی”،

سائیں جی نے جواب دیا،

اپوزیشن چاہتی کیا ہے، ہر کوئی مختلف وجوہات بتاتا ہے، آپ کیا کہتے ہیں،

“اپوزیشن کے اس اتحاد میں دس سے زائد جماعتیں ہیں ، ہر جماعت کا ایجنڈا مختلف ہے، کوئی پنڈی بوائز کی خوشنودی چاہتا ہے اور کسی کی خواہش ہے کہ کرپشن کیسز کے سرطان کا پھوڑا ختم ہو جائے، جنہوں نے مطالبات منظور کرنے ہیں وہ بھی پریشان ہیں کہ کس کا کون سا مطالبہ منظور کیا جائے، ہر  کوئی اپنی ڈگ ڈگی بجا کر آٹا طلب کر تا رہے گا مگر آخر میں فقیر کی طرح سبھی کی جھولی خالی رہے گی”، کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت اپنی مقررہ مدت سے پہلے ہی گر جائے گی یا گرا دی جائے گی؟ میں نے دنشمندی جھاڑنے کی کوشش کی، “حکومت کو جن ستونوں کا سہارا ہے وہ بہت مضبوط ہیں، وہ ستون کبھی بھی حکومت کی عمارت کو گرنے نہیں دیں گے، البتہ اگر کوئی کوشش کرنا چاہے تو کر کے دیکھ لے، ہو سکتا ہے کہ غالب کا شعر مصداق آ جائے

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب

آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی

سائیں جی نے اپنا جواب غالب کے شعر پر ختم کیا،  ہم بینچ پر بیٹھے ہی باتیں کیوں کیے جا رہے ہیں، اگر آپ کی طبع نازک پہ ناگوار نہ گزرے تو باغ میں تھوڑی سی سیر بھی کر لیں تا کہ گفتگو کا مزہ دوبالا ہو جائے،  عرض پرداز کی درخواست منظور ہوئی اور ہم نے سیر کی غرض سے شمالاً جنوباً ٹریک پر واک شروع کر دی،  سائیں جی  ایاز صادق نے اسمبلی کے فلور پر جو تقریر کی اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

ایاز صادق ایسے لوگ جب گفتگو یا تقریر  کرتے ہیں تو ان کی گفتگو، انداز اور الفاظ  کے چناؤ سے گماں غالب ہوتا ہے کہ خدا نے اشرف المخلوقات میں عقل و دانش تقسیم کرتے ہوئے تعصب برتا تھا،  تو نے دیکھا ہو گا کہ اپوزیشن کی قیادت میں سوائے ایک آدھ کے کوئی بھی سپہ سالار ایسا نہیں جو ڈھنگ کی تقریر پر قادر ہو،  جو لبوں کو جنبش دے تو پھول جھڑنا شروع ہو جائیں، جو کسی موضوع پر بولے، تو فہم و فراست کے موتی بکھیر دے،  ہاں اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وزن اٹھانے والے جانور کی طرح اگر کوئی اونچا بول کر مقرر بن گیا ہے تو پھر خدا کی پناہ ہی مانگی جا سکتی ہے۔

سائیں جی مزید فرمانے لگے کہ اپوزیشن کی تقریر چل رہی ہو تو ٹیلی ویژن میوٹ کر کے کتاب پڑھنا شروع دیتا ہوں تا کہ وقت کا ضیاع نہ ہو، جواب مکمل کرنے کے بعد سائیں جی تیز قدموں سے چلتے ہوئے باغ کے شمالی  دروازے سے باہر نکل گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عرض پرداز آوازیں دیتا رہا کہ بتاتے جائیے کہ اگلی ملاقات کب ہوگی ، مگر جواب ندارد تھا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply