سب ڈھل جاتا ہے۔۔ملک جان کےڈی۔

زندگی میں کچھ  بھی مستقل نہیں رہتا، سب ڈھل جاتا ہے۔ سب  چیزیں   وجودیت کھودیتی   ہیں۔ سارے کے سارے ابدی نیند سوجاتے ہیں اور اسی طرح  آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے۔ بقول رضا علی عابدی صاحب کے ” یہ زمین جس سے ہم سب جڑے ہوتے ہیں ہم پر کئی احسان کرتی ہے۔ زندگی عطا کرتی ہے اور پھر زندہ رکھتی ہے۔ سانسوں میں اترتی ہے، رگوں میں دوڑتی ہے، ہم جس لمحے قدم آگے بڑھاتے ہیں اس لمحے یہ ہمارا دوسرا قدم تھامے رکھتی ہے”۔

اچھے ہیں وہ لوگ جو زمین کا یہ احسان اپنے ہی کاندھوں پر اٹھائے اٹھائے نہیں پھرتے۔ جو مٹی کا یہ سب سے بڑا قرض چکا کر جاتے ہیں ۔ شعور کی یہ امانت جس نے دی اس کی دہلیز پر رکھ جاتے ہیں۔  مٹی ہمیں تخلیق کرتی ہے۔

تخلیق کی تاریخ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہر دور اور ہر زمانے میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جنہوں نے ایسی باتیں کہیں جو ان سے پہلے  نہیں کی گئی تھیں۔  شیکسپئر  نے  بہت خوب کہا تھا ” اس نے کہا تھا کہ یہ دنیا ایک اسٹیج کی مانند ہے، ہر کوئی  اس اسٹیج پہ آ کر اپنی تقریر کرکے واپس اُتر جاتا ہے، اور تماشائی صرف تماشا دیکھنے کےلیے آتے ہیں ”۔

الطاف گوہر لکھتے ہیں۔ ” انسان صدیوں سے ایک ایسے معاشرے کی جستجو میں ہے جو اس کی مادی ضروریات کا کفیل اور اس کی فکری اور تخلیقی قوتوں کی ترویج و تکمیل کا ضامن اور معاون ہو۔ اب تک جتنے بھی معاشرتی نظام وضع ہوئے ہیں ان میں جبر و استبداد اور عدم مساوات کی قوتیں برسرِ اقتدار رہی ہیں گو ان کی شدت میں کمی بیشی ہوتی رہی ہے۔

عام آدمی اپنی مصلحتوں کی وجہ سے ان قوتوں سے مفاہمت کرلیتا ہے اور نظام استبداد کو تسلیم کرلینے ہی میں اپنی نجات سمجھتا ہے۔ اگر وہ کبھی سر اٹھاتا ہے تو جبر کی ایڑی اسے وہیں کچل دیتی ہے۔ زمین دارانہ اور جاگیردارنہ نظام ، جس کی بنیاد   انسان کی تحقیر اور تذلیل پر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس زندگی کو بروکار لائیں  ،  دنیا کے اندر   جتنا  بھی  بھائی چارہ کرسکتے ہو کرلو ۔ یہاں ہر کوئی اپنی وجودیت کا  سراغ لگانے میں کوشاں  ہے۔ یہاں آنے کی وجوہات ڈھونڈ لیں ،اور اپنے  حصّے کے  حصولِ مقصد کو انجام دیں ۔ یہ جگہ احساسات  سے بھری پڑی  ہے، شرط بس یہ ہے کہ اس احساسات اور محسوسات  کو  منطقی  انجام تک پہنچانا لوگوں کا  کام ہے۔ مثبت لوگ اکثر و بیشتر مثبت ہی سوچتے ہیں ، لوگوں کی فلاح و بہبود کےلیے انتھک  محنت کریں ،اپنے   حصّے کا  چراغ    روشن کر یں ۔

Facebook Comments