• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت بلتستان عبوری صوبہ – اعلان کے بعد کیا کرنا ہوگا؟۔۔شیر علی انجم

گلگت بلتستان عبوری صوبہ – اعلان کے بعد کیا کرنا ہوگا؟۔۔شیر علی انجم

پارلیمانی امور کے صحافی محمد بخش سومرو کہتے ہیں کہ اگر حکومت پاکستان گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ بنانا چاہتی ہے تو اسے آئین کے کئی آرٹیکلز میں ترامیم کرنا ہوں گی۔حکومت کو مختلف آرٹیکلز جو پاکستان کی سرحدوں سے متعلق ہیں، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کی حدود سے متعلق ہیں، الیکشن کمیشن کی حدود سے متعلق ہیں، ان سب میں حکومت کو تبدیلی کرنا ہو گی۔

حکومت کو سینیٹ اور قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے سے متعلق قانون سازی کرنا ہو گی۔ اور ان سب ترامیم کے لیے حکومت کو دونوں ایوانوں میں الگ الگ دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔ اسی طرح دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلا کر بھی یہ معاملہ حل نہیں ہو سکتا۔ حکومت کو قومی اسمبلی میں 342 میں سے 228 ارکان کی منظوری کی ضرورت ہوگی جب کہ سینیٹ کے 104 ارکان میں سے 86 ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔
کیا موجودہ ملکی سیاسی صورتِ حال میں یہ ممکن ہے؟ اس بارے میں ایم بی سومرو نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں ایسا چاہتی تو ہیں لیکن یہ معاملہ کریڈٹ کا ہے۔
“اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سرد جنگ ہے۔ اگر پاکستان تحریکِ انصاف یہ بل ایوان میں پیش کرے گی تو اپوزیشن حکومت کو کریڈٹ نہیں لینے دے گی۔ اس وجہ سے حکومت اور اپوزیشن کو ایک پیج پر لانے کے لیے خاصا کام کرنے کی ضرورت ہے۔(وائس آف امریکہ پر شائع ایک رپورٹ سے اقتباس).
یاد رہے وزیر اعظم عمران خان نے یکم نومبر 2020 کو یوم آزادی گلگت بلتستان کے موقع پر خطے کو عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کرتے ہوئے اُس اعلان کو سلامتی کونسل کی  قراردادوں کے مطابق قرار دیا تھا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس قرارداد میں کہیں ایسا کچھ لکھا ہے جس میں گلگت بلتستان کو باقاعدہ طور پر پاکستان میں شامل کرنے کا حکم یا راستہ ریاست جموں کشمیر سے ہٹ کر ہو؟ ایسا بالکل نہیں ہے۔ بلکہ اس قرارداد اور کراچی ملٹری ایگریمنٹ کے مطابق گلگت بلتستان کو قانونی اور آئینی طور پر ریاست جموں کشمیر کا حصہ دکھایا گیا ہے، لیکن ایک طرف ہندوستان مہاراجہ کے الحاق کی بنیاد پر گلگت بلتستان لداخ، اقصائے ،شخگزگام ،جموں ،وادی اور آزاد کشمیر کو اپنا قانونی حصہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔دوسرا پاکستان ہمیشہ عالمی فورمز پر پوری ریاست کو متنازعہ تسلیم کرتا ہے ۔ریاست پاکستان کا موقف  رہا ہے کہ ریاست کا اکثریتی عوام مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتا ہے . لیکن اس کام کیلئے رائے شماری ہونا ضروری ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

اس وقت گلگت بلتستان میں پاکستان کی موجودگی کسی سلامتی کونسل کی  قراردادوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ معاہدہ کراچی کی  ایک شق کی بنیاد ہے۔ماہرین امور کشمیر کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کا گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کیلئے سلامتی کونسل کی  قراردادوں کا حوالہ دینا انکی اقوام متحدہ کے چارٹرڈ سے لاعلمی کو ظاہر کرتی ہے۔ سیاسی مبصرین کی یہ بھی رائے ہے کہ اس اقدام سے ہندوستان نے 5 اگست 2019 کو جس طرح سے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے عوام کی منشاء کے خلاف جموں کشمیر کے حوالے سے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کا خاتمہ کیا تھا اس اقدام کی مذمت کیلئے اب یقیناً پاکستان کے پاس کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں بچا ہے اور اس اقدام سے ہندوستان کے زیرِ  انتظام کشمیر کے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی اور اُمیدوں پر بھی پانی پِھر گیا ہے۔ گلگت بلتستان کے حوالے سے  سلامتی کونسل کی  قرارداد کیا کہتی  ہے ،ملاحظہ فرمائیں۔
155. The following submissions were presented by the Pakistan Government on part II of the resolution of 13 August 1948: (a) Paragraph A, 1, in connection with B, 1. — A plan should be prepared by which the withdrawal of the Pakistan forces and the “bulk” of the Indian forces would be synchronized. The Azad forces should be withdrawn from the forward areas for reorganization and training. When this process was completed, these forces would replace the regular Pakistan troops. (b) Paragraph A, 2. — The Pakistan Government would complete the fulfilment of its commitments by the middle of February 1949. (c) Paragraph A, 3. — It was necessary to define: (1) “Evacuated territory”, in order to determine the areas under the control of both Governments ; (2) “Local authorities”, which raised the question of the Azad Kashmir “Government” and the Pakistan Political Agent in Gilgit; (3) The scope of the word “surveillance”. (d) Paragraph B, 1. — See sub-paragraph (a) above.
یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ گلگت بلتستان کے مراعات یافتہ طبقے  کے علاوہ خطے کی  اصل سیاسی قیادت اور دیگر سٹیک ہولڈرز کا ہمیشہ سے یہی مطالبہ رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے  حل تک کیلئے گلگت بلتستان کے حوالے سے سلامتی کونسل کی  قراردوں پر من و  عن عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ لیکن بدقسمتی ارباب اختیار اس بیانئے کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں اور اس قسم کی باتیں کرنے والوں کو مسائل کا سامنا رہا ہے۔اس وقت ملک بھر سے اس طرح کی آواز آرہی ہے.گزشتہ روز پاکستان کے معروف نجی ٹی وی جیو نیوز کے معروف پروگرام کے میزبان حامد میر نے بھی گلگت بلتستان عبوری صوبہ بنانے کے اعلان کو ہندوستان کی جانب سے آرٹیکل 370 کے  خاتمے کیلئے جواز اور آئین پاکستان کی آرٹیکل 257 کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں پاکستان کی بڑی جماعتیں گلگت بلتستان کو علیحدہ صوبہ بنانے کی حمایت کر رہی ہیں لیکن آئین کی دفعہ 257 کو بھول گئیں جس میں ریاست جموں وکشمیر کا ذکر ہے اور گلگت بلتستان اسکا حصہ ہے۔اُنکا کہنا تھا کہ بلوچستان کو 1970 میں صوبہ بنایا گیا تھا بلوچ آج بھی حقوق مانگ رہے ہیں صوبہ بننے کا مطلب حقوق ملنا نہیں ہے۔پس اس وقت گلگت بلتستان کو حقوق کی ضرورت ہے اپنے وسائل پر اختیار اور رائلٹی کے ساتھ معاشی ترقی میگا پراجیکٹس کی ضرورت ہے ۔ چند افراد کا مبصر کی حیثیت سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جانا گلگت بلتستان کی  75سالہ محرومیوں کا حل نہیں اور نہ ہی ایسا کرنے سے یہاں کے عوام کی قسمت بدل سکتی  ہے۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply