ان دنوں طبیعت کچھ بے چین سی ہو چلی ہے۔ ہر چیز سے جان چھڑانے کو جی چاہتا ہے۔ بے سمت بھاگ رہا ہوں، نہ تو کوئی منزل نظر آتی ہے اور نہ ہی کوئی کنارہ ہاتھ لگتا ہے۔ دراصل اندر کی سچائیاں اس قدر گھناؤنی ہو چکی ہیں کہ باہری دنیا کی بے نام حقیقتیں بھی اب کاٹ کھانے کو دوڑتی ہیں اور میں ان سے فرار کی راہ تلاش کرتے ہوئے دیوانوں کی طرح دوڑ دوڑ کر ادھ موا ہو چکا ہوں۔ ہو بہو ساحر لدھیانوی کی سی کیفیت ہے کہ نہ تو کوئی راہ سجھائی دیتی ہے اور نہ ہی کہیں روشنی کا سراغ ملتا ہے۔
دور کیوں جاتا ہوں، ابھی کالم جو لکھنے بیٹھا ہوں تو اسی کی بات بتاتا ہوں۔ دوستو ! ان دنوں جو بھی کالم لکھ رہا ہوں، اپنی طرف سے وہ آخری ہی لکھ رہا ہوں۔ پھر چار دن گزر جاتے ہیں اور طبیعت کچھ زیادہ بوجھل ہونے لگتی ہے تو مجبوراً ایک دفعہ پھر سے قلم کے گھوڑے پر کاٹھی ڈال کر سوار ہو جاتا ہوں۔
کبھی یوں ہی بیٹھے بیٹھے سوچتا ہوں، اگر مجھے زندگی سے فرار کا یہ چور راستہ نہ ملتا تو ہو سکتا ہے میں کسی بہتر سرگرمی میں ملوث ہوتا۔ لیکن پھر خیال آتا ہے کہ کیا میں پھر باقی بھی بچا ہوتا؟
خیر ! ان باتوں کو چھوڑئیے، آپ کو کلب سے ہوتے ہوئے بار کی بات سناتا ہوں۔ آج ایک صاحب سے یہاں میٹنگ طے تھی۔ گو میرا موڈ تو نہیں تھا کسی سے ملنے کو، لیکن مجبوری تھی۔ ملاقات بھگتا کے میں وہیں بیٹھا رہا اور گمان ہے اگلے دو چار گھنٹے بھی وہیں گوشے میں تنہا پڑا رہتا۔۔ کہ ایک دوست کی کال آ گئی اور میں سیشن کورٹس کی طرف ہو لیا۔ گو انہوں نے مجھے بار روم میں ملنے کا کہا لیکن میں سر منہ لپیٹے ان کے چیمبر میں جا گھسا تا کہ کم سے کم لوگوں سے سامنا ہو۔ ان کا دفتر تقریباً خالی ہی تھا۔ آفس بوائے نے بتایا کہ سر بار ہال میں گئے ہیں انتخابی مہم کے سلسلے میں اور انہیں تھوڑا وقت لگ جائے گا۔ مجھے بھی ابھی مزید تنہائی درکار تھی سو مزے سے ان کی ریوالونگ چیئر سنبھال لی۔
تھوڑی دیر گزری کہ ایک چھ سال کا پیارا سا بچہ ہو بہو اپنے ہی جیسے ایک دو سال کے بے بی کو بغل میں دبائے دفتر میں آیا۔ آفس بوائے کے رویے سے اندازہ ہوا کہ وہ ان بچوں کو جانتا ہے۔ بچے میرے سامنے ہی صوفے پر بیٹھ گئے۔ میں انہیں بغور دیکھنے لگا اور سوچنے لگا کہ کتنے معصوم اور پیارے سے بچے ہیں لیکن حالات انہیں کس دوراہے پر لے آئے ہیں کہ آج یہ کچہریوں میں خجل ہو رہے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ ضرور ان کے ماں باپ کے درمیان علیحدگی ہو گئی ہو گی جس کا خمیازہ یہ دو ننھی جانیں بھگت رہی ہیں۔ پھر ایک بچہ رونے لگا تو دوسرا بچہ بڑے مان سے اسے لوری دینے لگا۔ یہ دیکھ کے میرا دل ہی پسیج گیا کہ یہ بچے ابھی عمر کے اس حصے میں ہیں کہ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ظلم ہو گیا ہے اور وہ کس کرب سے گزر رہے ہیں۔
دنیا کی کرختگی سے بے پرواہ وہ ایک دوسرے میں مگن تھے اور میں جج بنا کبھی ان کی انا پرست ماں کو مورد الزام ٹھہراتا تو کبھی ان کے سنگ دل باپ کو کٹہرے میں لا کھڑا کرتا۔ اور کبھی دونوں ہی پر تازیانے برسانے لگتا کہ چند لمحات کو انجوائے کرنے کے واسطے ان لوگوں نے بچے پیدا ہی کیوں کیے۔ اور اب اگر ان لوگوں کو ایک دوسرے کا ساتھ بوجھ لگنے لگا ہے تو پھر اس میں ان معصوم بچوں کا کیا قصور، کہ اتنی چھوٹی سی عمر میں یہ میرے جیسے لوگوں کی بے رحم نظروں کا سامنا کر رہے ہیں۔
انہی سوچوں میں گم تھا کہ میرے دوست ایک سوٹڈ بوٹڈ سے آدمی کو لئے دفتر میں آ گئے۔ وہ شخص آتے ہی بچوں کی طرف بڑھا اور انہیں گود میں اٹھا لیا۔ دوست نے تعارف کروایا کہ یہ بھی وکیل ہیں اور پچھلے آٹھ سال سے مانچسٹر میں وکالت کر رہے ہیں۔ پھر ڈیڑھ سال قبل ان کی بیوی فوت ہو گئیں اور اب یہ پاکستان آ گئے ہیں اور مستقل یہاں سیٹل ہونے کا سوچ رہے ہیں ان سے بھی کافی دیر گفتگو ہوتی رہی۔
دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح میں بھی ان سے سوال کرتا کہ آپ جوان ہیں، پڑھے لکھے ہیں تو دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتے۔ لیکن مجھے ضرورت ہی نہیں تھی کیوں کہ اس کا جواب تو مجھے پچیس سال پہلے ہی مل چکا تھا۔
وہ بھی ایک وکیل تھے۔ عمر میں تیرہ برس چھوٹی بیوی عین جوانی میں داغ مفارقت دے گئی۔ چھوٹا بیٹا بھی یہی کوئی تین چار برس کا تھا یعنی ابھی اسکول بھی نہ جاتا تھا۔ اب وکیل صاحب جو کہ صبح دس بجے اٹھنے کے عادی تھے، چھ بجے اٹھنے لگے۔ سب سے پہلے بچوں کو نہلا دھلا کے تیار کرتے، پھر اپنے ہاتھوں سے ناشتہ بنا کر کھلاتے اور اسکول روانہ کرتے۔ اس سب کے بعد ہی، خود تیار ہو کر دفتر جاتے۔ دوپہر کا کھانا کام والی ماسی بنا دیتی۔ مصروفیت کی وجہ سے رات دیر سے گھر آتے لیکن ان کی ڈیوٹی تھی کہ روزانہ رات کوئی سویٹ ڈش اپنے ہاتھوں سے تیار کر کے بچوں کو کھلاتے تا کہ بچوں کو باپ کے ساتھ ساتھ ماں کی کمی بھی محسوس نہ ہو۔ پھر سردیوں کی طویل راتیں کمپیوٹر پر تاش کھیلتے، تنہا گزار دیتے۔
ایک دفعہ کی بات ہے کسی مہا سیانے نے کہا آپ جوان ہیں، اللہ کا دیا بھی سب کچھ ہے تو دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ وکیل صاحب ہولے سے مسکرا دیئے اور کہنے لگے ” نہی، فیر میرے پُھل رُل جان گے”
دوستو ! پچیس سال ہو چکے یہ بات سنے ہوئے اور اب تو اردو لکھتے اور پڑھتے ہوئے بھی اک عرصہ بیت چکا ہے لیکن دل کی کہوں تو مجھے آج تک وکیل صاحب کے کہے گئے اس پنجابی بول کا اردو ترجمہ کرنا نہیں آیا۔
اور یار ! اگر پڑھتے پڑھتے یہاں تک پہنچ ہی گئے ہو تو ایک بات تو بتاتے جاؤ،
کیا بچے واقعی پھول ہوتے ہیں؟
Facebook Comments