• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خواجہ غلام فریدؒ اور عظمتِ انسان(حصّہ اوّل) تحریر: محمد دین جوہر

خواجہ غلام فریدؒ اور عظمتِ انسان(حصّہ اوّل) تحریر: محمد دین جوہر

نوٹ: اس مضمون کی حیثیت ایک خاکے کی ہے، کیونکہ شدید عدیم الفرصتی کی وجہ سے اس میں کئی ایک ضروری حوالہ جات نہیں دیے جا سکے۔ امید ہے کہ آئندہ مطالعہ جات میں یہ کمی دور کی جا سکے گی۔

آج کی اس باوقار نشست میں خواجہ غلام فریدؒ کے شعری تناظر میں عظمتِ انسان کے تصور کا مختصر جائزہ مقصود ہے۔ اول ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ عظمتِ انسان کے تصور کا شجرہ نسب کیا ہے؟ اس اہم تصور سے کیا مراد ہے؟ اور جو انسان اس عظمت کا حامل ہے اس کے وجودی اور تہذیبی خدوخال کیا ہیں؟ بعد ازاں، ہم خواجہ صاحب کے فیضِ معنی سے ان کے ہاں کارفرما تصورِ انسان سے آگہی حاصل کریں گے۔ اور یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ خواجہ صاحب کے ہاں ظاہر ہونے والے انسان کے تعینات کیا ہیں، اور انہیں کیونکر سمجھا جا سکتا ہے۔ اور ان کے ہاں انسان کی عظمت سے کیا مراد ہے؟

گزارش ہے کہ ’انسان‘ کا لفظ ان معدودے الفاظ میں سے ہے جو مکمل طور پر خالی ظروف کی طرح ہیں، اور جن کو ہر تہذیب اور علمی روایت اپنے ہی معنی سے بھرتی ہے۔ ہر تہذیب اپنے بنیادی تصورات کے لیے جو الفاظ و اصطلاحات استعمال کرتی ہے، وہ بین التہذیب بظاہر مشترک ہوتے ہیں لیکن ان کا بطونِ معنی قطعی مختلف ہوتا ہے۔ تہذیبوں کا باہمی لین دین ایک معمول کا مشاہدہ ہے لیکن جس طرح ہمسایوں سے بچے ادھار لے کر کوئی کنبہ نہیں بنایا جا سکتا اسی طرح کوئی تہذیب اپنے بنیادی تصورات ادھار پہ نہیں اٹھاتی۔ وہ اس کے خانہ زاد ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ ممکن نہیں کہ ایک تہذیب کا بنیادی تصورِ انسان دوسری تہذیب کے تصور انسان سے مماثلت رکھتا ہو۔

’عظمتِ انسان‘ کی ترکیب dignity of man کا ترجمہ ہے اور اس سے جس تصور کا اظہار مقصود ہے وہ مکمل طور پر جدید اور مغربی ہے، اور ہمارے ہاں کئی دیگر بنیادی تصورات اور اداروں کی طرح درآمد شدہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے اس تصور کو اس کے اپنے تہذیبی پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ عظمتِ انسان ظاہر ہے کہ انسان سے مشروط اور اس پر منحصر ہے، یعنی انسان ہو گا تو اس کی عظمت یا عدم عظمت کا سوال پیدا ہو گا۔ اس لیے ’انسان‘ اور اس کی ’عظمت‘ کو الگ الگ جاننا نہ صرف زیادہ بامعنی اور مفید ہے بلکہ علمی دیانت کا تقاضا بھی یہی ہے۔

انسان کے جدید تصور کی ابتدائی اور قدرے واضح تشکیل یورپی نشاۃ الثانیہ (The Renaissance) میں سامنے آئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تصور کے اولین آثار تحریکِ اصلاحِ مذہب (The Reformation) میں ظاہر ہو چکے تھے۔ تحریک اصلاح مذہب دراصل یورپی انسان کے اس فیصلے کا اعلان تھا کہ مذہبی ہدایت تو بلاشک الوہی ہی ہے، لیکن اس کے سارے مطلب اور معنی زمینی ہوں گے۔ نشاۃ الثانیہ کے اگلے تہذیبی مرحلے میں جدید انسان کا تصور زیادہ مربوط انداز میں سامنے آیا۔ ان تحریکوں سے پہلے، انسان کو عالم شہود میں وجود اور اس کے تمام مدارج کا نمائندہ خیال کیا جاتا تھا۔ نشاۃ الثانیہ نے کائنات میں ہر شے کی معنویت کا پیمانہ انسان کو قرار دیا، یعنی اب ہر شے کی حقیقت اور معنویت وہی ہو گی جو انسان بتائے گا۔ یعنی

Man became the measure of all things.

نشاۃ الثانیہ کے آرٹ، ادب، سیاسی اور فلسفیانہ فکر، اور سب سے بڑھ کر اس دور میں سامنے آنے والی مذہبی تعبیرات کے پس منظر میں یہی تصور کارفرما ہے اور پیش منظر میں نئے انسان کے خدوخال ابھر رہے ہیں۔ آگے چل کر، تحریک تنویر (The Enlightenment/The Enlightenment Project) نے اس انسان کو جو اب مکیالِ وجود و شہود ہے، ایک ایسی dignity یعنی عظمت کا حامل قرار دیا جو نہ صرف اس کا خلقی وصف تھا بلکہ اس کا حق بھی تھا۔ تحریک تنویر کے ساتھ عظمت، جدید تصور انسان کا لاینفک حصہ قرار پائی۔ جیسا کہ معلوم ہے کہ تحریک تنویر کو عہد روشن خیالی یا عہد عقل و خرد بھی کہا جاتا ہے۔ اس تحریک کا پیش کردہ عظمتِ انسان (dignity of man) کا تصور بالکل عقلی اور مجرد تھا، اور انسان کی عملی زندگی میں بہت زیادہ مفید اور مؤثر نہیں تھا۔ اس تصور میں سارے رنگ تحریک تنویر کے ردعمل میں سامنے آنے والی رومانوی تحریک نے بھرے۔ رومانوی تحریک کے اثرات سے تجلیلِ ذات کو اس تصورِ انسان میں مرکزیت حاصل ہو گئی۔ تنویری اور رومانوی افکار کے تحت سامنے آنے والے تصور میں جدید انسان کوئی مخلوق نہیں رہا بلکہ دیوتاؤں سے مشابہ ایک وجود کا نام قرار پایا۔

گزارش ہے کہ تحریک احیائے علوم سے شروع ہو کر بعد کی تحریکوں تک، اس تصور کو تمام تر فکری غذا یونانی افکار سے فراہم ہوئی ہے۔ یونانی تہذیب میں تصورِ انسان بہت واضح اور مفصل ہے، اس کا عنوان ہیرو ہے، یعنی ہیرو یونانی تہذیب کا بنیادی تصور انسان ہے۔ یونانی تہذیب میں انسان اور عظمتِ انسان کا تصور اس کے آرٹ میں بھی ظاہر ہوا، لیکن فلسفے اور شعر و ادب میں فلاسفر کنگ اور ہیرو کے طور پر سامنے آیا۔ تہذیب مغرب میں ظہور پانے والا تصورِ انسان یونانی ہیرو کی جدید فکری اور عملی تشکیلات ہیں۔ یونانی افکار کے تتبع میں جدید انسان اور اس کی عظمت کے تصورات تحریک احیائے علوم سے مغرب میں داخل ہوئے اور نشوونما پا کر وہیں انیسویں صدی تک پوری طرح بارآور ہوئے۔ استعماری دور میں دیگر جدید تصورات اور اداروں کی طرح یہ تصورات بندوق سوار مسلم اور دیگر محکوم معاشروں میں داخل ہوئے۔ اور آج ہم انہی کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

گزارش ہے کہ یونان کے فکری تناظر میں ہیرو سے مراد ایسا شخص ہے جو عظمت یعنی nobility اور بڑا مقام رکھتا ہے۔ عظمت یعنی nobility کے اس تصور میں صلاحیت غالب ہے اور اخلاقیات ضمنی ہے۔ ہیرو ایک ایسا شخص ہے جو برتر صلاحیت کا مالک ہے اور صلاحیت کی یہی اونچائی اسے عظمت کا حقدار اور حامل بناتی ہے۔ ہیرو کی بڑائی کی وجہ اس کی صلاحیت ہے اخلاقی فضائل نہیں ہیں۔ اپنی بے پناہ صلاحیت، پختہ ارادے اور عملی قوت سے ہیرو تاریخ کی قوتوں پر غالب آ جاتا ہے۔ ’تاریخ کی قوتوں‘ سے مراد دوسرے انسان اور معاشرے ہیں۔ ہیرو تاریخ کا فاتح ہے۔ وہ کوئی اخلاقی اور روحانی وجود نہیں ہے، بلکہ طاقت کی ایسی انسانی تشکیل کا نام ہے جو اپنے مقاصد قوت سے حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہیرو جس عظمت کا نمائندہ ہے وہ اس سے باہر کسی تصور یا حقیقت کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی اپنی تجلیل ذات ہے۔

لیکن یونانی ہیرو کی vision میں ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے وہ تاریخ اور تقدیر میں امتیاز نہیں کر پاتا اور ان کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے اور انہیں ایک ہی فرض کر لیتا ہے۔ یہی اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے اور اس کی فنا پر منتج ہوتی ہے۔ ہیرو اپنے تاریخی تجربے کو بنیاد بناتے ہوئے تقدیر سے تعرض کرتا ہے۔ اور نتائج نہ صرف اس کے تاریخی تجربے سے برعکس ہوتے ہیں بلکہ اس کی مکمل فنا کا سامان بن جاتے ہیں۔ تاریخ سے پنجہ آزمائی ہیرو کو فاتح بناتی ہے اور تقدیر سے چھیڑ چھاڑ اسے راکھ کا ڈھیر بنا دیتی ہے۔ یونانی تناظر میں المیہ، ارادے اور تدبیر کی ایسی نارسائی کا نام ہے جو تقدیر کی اقلیم میں ظاہر ہو کر ایک المناک حقیقت بن جاتی ہے۔ ہیرو عظمتِ انسانی کا ایسا نمائندہ ہے جو اپنے تاریخی تجربے کو بنیاد بناتے ہوئے دیوتاؤں کی دنیا میں بالجبر داخل ہونا چاہتا ہے اور فنا سے دوچار ہو جاتا ہے۔ اور یہ فنا، کسی بقا کا مرحلہ نہیں ہے بلکہ حتمی ہے، اور اسی لیے اسے المیے کا نام دیا گیا ہے۔

ہیرو کی سادہ تعریف یہ ہے کہ وہ تاریخ کا فاتح اور تقدیر کا باغی ہے۔ تاریخ میں بغاوت کامیابی کے امکانات رکھتی ہے لیکن تقدیر بغاوت کی اجازت نہیں دیتی اور یہی ہیرو کا بنیادی مسئلہ ہے۔ خواجہ صاحب کے ہاں ظاہر ہونے والے انسان اور اس کی عظمت کا تصور ہیرو سے نوعاً مختلف ہے۔ یعنی ان دونوں میں فرق کلی ہے، جزئی نہیں ہے۔ ہیرو کا منتہائی مقصود تجلیل ذات ہے بھلے اس کے لیے کوئی بھی قیمت دینی پڑے، بھلے ساری دنیا کو اس کا ایندھن بنانا پڑے۔ خواجہ صاحب کے شعری کردار کا بنیادی مقصد تکمیلِ ذات ہے، اور اس کے لیے وہ اپنی ذات سے خارج میں موجود تاریخی اور روحانی وسائل پر انحصار کرتا ہے۔ ہیرو کائناتِ وجود سے ہم آہنگ نہیں اور اسے اپنی تجلیل ذات میں رکاوٹ سمجھتا ہے، جبکہ خواجہ صاحب کا شعری کردار عین اسی کائنات وجود میں اپنے مقام کی تلاش کر کے اس سے ہم آہنگ ہونا چاہتا ہے۔ خواجہ صاحب کے شعری کردار کا مسئلہ انسان رہنا ہے، جبکہ ہیرو کا مسئلہ دیوتا بننا ہے۔ ہیرو پوری کائنات کو خود پر قربان کر دینے کی لاحاصل سعی میں ہے۔ خواجہ صاحب کا شعری کردار خود قربان ہو کر بامراد ہو جاتا ہے۔ خواجہ صاحب کا شعری کردار اصلاً ایک اخلاقی اور روحانی وجود ہے جو معاشرتی، کائناتی اور الوہی رشتوں میں گندھا ہوا ہے، جبکہ ہیرو کے نزدیک انسانی رشتے پاؤں کی زنجیر ہیں۔ ہیرو اور اس کی جدید اولاد عظمت کی تلاش میں ہے جو مکمل طور پر دنیاوی اور مقصود بالذات ہے۔ خواجہ صاحب کے شعری کردار کی جدوجہد ”آپنا آپ سنجان“ ہے اور اسی کاوش میں وہ اپنے وجود کی معنویت دریافت کرتا ہے اور اپنی ذات کو حضور حق کا آئینہ بنا دیتا ہے۔ جدیدیت عظمت انسان کی بات کرتی ہے اور خواجہ صاحب شرف انسان کو سامنے لاتے ہیں۔

ہماری کلاسیکی شعریات اور مابعد الطبیعیات کے تناظر میں ہیرو، ابلیس کا ہم منصب و ہم معنی ہے اور جدید انسان اسی ہیرو کے نمونے پر ڈھلا ہوا ہے، اور یہی تصورِ انسان مغرب کے پورے شعر و ادب، آرٹ اور علم میں ساری ہے۔ ہیرو، عظمتِ انسانی اور المیہ ایک ہی شعریات کے اجزائے ترکیبی اور بنیادی تصورات ہیں۔ خواجہ صاحب کی شاعری کو مغربی شعریات کے کلبوت میں ٹھونس کر اس کے فکری تعینات کو تلاش کرنا ہمارے نزدیک ایک قابلِ مذمت فعل ہے۔

گزارش ہے کہ انسان اور عظمت انسانی کا جدید اور مغربی تصور خواجہ صاحب کے تصورِ انسان سے نہ صرف متضاد ہے، بلکہ اس کی مکمل نفی کرتا ہے۔ خواجہ صاحب کی شعریات وہی ہے جو رومی اور بیدل کی ہے، جو میر اور غالب کی ہے، جو اقبال اور راشد کی ہے، جو بلھے شاہ اور لطیف بھٹائی کی ہے۔ خواجہ صاحب کی شاعری جس تہذیبی شعریات میں جلوہ آرا ہوئی ہے، اسی میں بامعنی بھی ہے۔ ہر تہذیبی شعریات خاص اور exclusive ہے۔ اپنی شعریات سے زندہ تلازمات ہی شاعر کے جمالیاتی تجربے اور احساس کو بامعنی بناتے ہیں، اور یہ کمالات خواجہ صاحب کی شاعری میں جا بجا ہیں۔ خواجہ صاحب کی شاعری کو سمجھنے کا درست تناظر ہماری تہذیب کی کلاسیکی شعریات ہے، اور یہی وہ چشمہ ہے جہاں سے فارسی اور اردو شاعری بھی سیراب ہوئی ہے۔

واجب الوجود ہماری فلسفیانہ روایت تھی، وحدت الوجود ہماری عرفانی روایت کا نام تھا اور جمالِ وجود ہماری شعریات رہی ہے۔ انسان کی رسائی جمالِ وجود کے مظاہر تک ہے، اور اس کا یہی تجربہ شاعری، ادب اور آرٹ میں ظاہر ہوتا ہے۔ بے محابہ جمال کا تجربہ انسان میں وصل کی وجودی آرزو کو جنم دیتا ہے جو عشق ہے۔ عشق کے احوال جوالا مکھی ہیں اور ان کا نام ہجر ہے۔ ہم عظمت کے حامل جس انسان کا ابھی ذکر کر رہے تھے، اس کے ہاں عشق اور ہجر کا کوئی گزر نہیں۔ خواجہ صاحب کے ہاں عشق، نینھ، برہوں، بےقراری، جدائی، رسوائی ان کے شعری کردار کا نصیب ہے اور وہ انہی احوال میں زندگی کرنے کی سعی میں ہے۔ ہیرو کے نزدیک عظمتِ انسان یہ ہے کہ وہ خود خدا بن جائے، اور خواجہ صاحب کے ہاں شرفِ انسان یہ ہے کہ وہ خدا کی نشانی بن جائے۔ یہ درجے کا فرق نہیں ہے، نوع کا فرق ہے، اور یہ فرق اس وقت معلوم ہوتا ہے جب شاعر کو اور خاص طور پر خواجہ صاحب جیسے بڑے شاعر کو اس کی اپنی شعریات میں دیکھنے کی کوشش کی جائے۔

خواجہ صاحب کے ہاں ”آپنا آپ سنجان“ کی بہت تاکید ہے۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ ایسا کیوں ہے؟ مغرب سے درآمد شدہ عظمتِ انسان کے تصور کی صحبت میں اس کا ادراک ممکن نہیں۔ انسان کے تقدیری احوال کچھ ایسے ہیں کہ خالق و مخلوق کا ادراک بیک آن اور خالق کے اول ادراک پر منحصر ہے۔ خالق کو بھول کر مخلوق کا ادراک ممکن نہیں، اور مخلوق سے فراموشگاری میں خالق نامعلوم ہے۔ عظمتِ انسان کا بنیادی تصور ہی خدا سے فراموشگاری میں تشکیل پاتا ہے۔ ”آپنا آپ سنجان“ کا آغاز ہی نہیں ہو سکتا اگر اس میں اپنی مخلوقیت کا ادراک شرط اول کے طور پر داخل نہ ہو۔ ہیرو ایک ایسے وجود کا نام ہے جو اپنی مخلوقیت کے ادراک ہی سے قاصر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments