اچھا انسان۔بابر نایاب

کچھ دن قبل میں نے اپنے دوست کے والد صاحب سے پوچھا کہ آپ اپنے بیٹے کو مستقبل میں کیا بنانا پسند کریں گے تو انھوں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ میں اپنے بیٹے کو ایک اچھا انسان بنانے کی کوشش کروں گا اُن کے اس جواب نے میرے ذہن میں متعدد سوالات کو جنم دیا میں سوچنے لگ گیا آج ہم کہاں کھڑے ہیں ،کیا آج ہر باپ اپنے بیٹے کے بارے میں یہی سوچ رہا ہے؟۔۔۔

یقیناً نہیں، کیونکہ اس طرف کسی کا خیال ہی نہیں جاتا صرف یہی جاتا ہے کہ وہ آفیسر بنے ڈاکٹر بنے یا انجنئیر ۔دنیا میں سب سے مشکل کام ایک اچھا انسان بننا ہے باقی دنیا کے ہر کام آسان ہیں ایک اچھا انسان ہی ایک اچھا شہری کہلوائے گا ایک اچھا انسان ہی اپنے معاشرے کے لیے بہترین ثابت ہو گا مگر ہم میں آج پتا نہیں اچھائی کہاں گم ہو گئی ہے بڑی بڑی نامور ڈگریوں کے باوجود آج ہم شخصیت کی تعلیم سے محروم ہیں مغربی کلچر کے دلدادہ ہم اپنی عظیم ثقافت کو پامال کر چکے ہیں اگر کسی کو اپنی ثقافت کی مثال دیں تو وہ سمجھتا ہے شاید اُس سے مذاق کیا ہے ۔ہم آج بناوٹی دنیا کے عادی ہو چکے ہیں مُفاد کے لیے خلوص کا پیکر بن جاتے ہیں تنقید کے اُوزار لیے دوسروں پر چڑھ دوڑتے ہیں مگر خود اپنی خامیوں پر نگاہ رکھنا پسند نہیں کرتے-

لوگوں میں امتیاز پیدا کرنا ہمارا شیوہ بن چکا ہے جو بڑا ہے تو اُس کے کی عزت بھی اُتنی ہی بڑی ہے جو چھوٹا ہے تو اُس کی عزت بھی اس کی حیثیت کے مطابق چھوٹی ہے رشتوں کا احترام کیا ہے کچھ بھی تو نہیں ۔کسی عزیز کی شادی کا بلاوہ آئے تو پہلے یہ سوچتے ہیں کہ یہ ہماری خوشیوں میں شریک ہوا تھا یا نہیں کوئی عزیز فوت ہو جائے یہ جاہل اور گمراہ سوچ ہم پر طاری ہوتی ہے کہ وہ ہمارے عزیز کی فوتگی پر آیا تھا یا  نہیں پھر اُس حساب سے ہی چلتے ہیں مطلب یہ کہ ہم رشتے نہیں نبھا رہے ہم تو سودا کر رہے ہیں اس ہاتھ لے اور اس ہاتھ دے۔اشفاق احمد کہتے ہیں کہ ناراضگی لفظوں میں ہونی چاہیے دل میں نہیں مگر یہ ناراضگی تو ہمارے دلوں میں جگہ بنا چکی ہے –

یعنی ہم صرف اپنے لیے جی رہے ہیں ۔ہمارے میٹھے رشتے جن کو بنانے میں صدیا ں بیت جاتی تھی آج وہ صرف ایک لمحے کے محتاج ہیں صرف ایک لمحے میں ہم اُن رشتوں کی ڈوریاں کو توڑ کر رکھ دیتے ہیں
ہم خود محبت کے طلبگار ہونے کے باوجود دوسروں سے محبت کرنے کے عادی نہیں احساس صرف لفظ بن کر رہ گیا ہے اپنی جھوٹی انا اور گھمنڈ میں ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں اپنی ہوس کے لیے دوڑ رہے ہیں اور اُس دوڑ میں ہر ایک کو کچل کر رکھ دیتے ہیں دوسروں کی اُمیدوں کے گھر جلا کر اپنے محلوں کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔بزرگ ہو ہماری زندگی کا اثاثہ ہوتے تھے اُن کے فیصلے ہم سر جھکا کر سنتے تھے آج ہم اُن کو کتنا وقت دے رہے ہیں کتنی عزت دے رہے ہیں کہ پل دو پل اُن کے ساتھ بیٹھنا اور اُن کی باتیں سننا ہمیں محال اور مشکل لگتا ہے اپنے گھر کو کوڑا کرکٹ کسی دوسرے کے گھر کے سامنے پھینک کر ہم اپنے آپ کو صفائی کا دعویدار سمجھتے ہیں ہم کیسے مسلمان ہیں ہمیں تو علم ہی نہیں کہ مسلمان کہتے کس کو ہیں ہم صرف اپنی خود غرض دنیامیں جینے کے عادی ہو چکے ہیں –

مسلمان تو وہ ہے جس سے پوری انسانیت محفوظ رہے جس سے متاثر ہو کر کافر اسلام کے دائرہ میں داخل ہوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے آج ہم کیا کچھ نہیں کر رہے نفرت نفرت اور صرف نفرت لیے پھر رہے ہیں صرف لڑ رہے ہیں ہر جگہ ہر وقت محبت کے دو میٹھے بول جس سے ہم کسی کے دل میں ہمیشہ کے لیے جگہ بنا لیتے تھے وہ محبت کے بول ہمارے وجود میں ہی کہیں گھٹ کر دم توڑ چکے ہیں -ہم اپنے حکمرانوں کو کیا موردِ  الزام ٹھہرائیں ہم تو خود سے بھی مخلص نہیں ہیں دلوں میں بغض ،کینہ رکھے اور چہرے پر مسکراہٹ سجائے ہم دوسروں سے ملتے ہیں ۔درگزر کرنا تو ہم بھول چکے ہیں کوئی ہمارے ساتھ برا کر دے تو سار ی زندگی انتقام کی آگ میں جلتے رہتے ہیں ہم ایک پل کے لیے بھی تنہائی میں اپنا محاسبہ کریں تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہو گا کہ ہم کیسا جینا جی رہے ہیں ہر وقت زبان پر شکوؤں  کی داستان لیے  پھرتے ہیں زندگی کی ہر نعمت ہونے کے باوجود مزید اُسے بڑھانے کے چکر میں اپنا سکون برباد کر رہے ہیں پھر بھی ہر ایک چیز ہونے کے باوجود زندگی سے اطمینان روٹھا ہوا ہے کیونکہ ہم شکر ادا کرنا ہی بھول چکے ہیں۔

ایک اچھا انسان بننے کے لیے لازم ہے آج ہمیں اپنے قلب و دماغ میں وسعت دینا ہو گی ، محبتیں بانٹنا ہو گیں، دوسروں کے دکھوں میں شریک ہونا پڑے گا کسی کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوﺅں کو اپنے دامن میں سمیٹنا ہوگا ہر ایک انسان کا احساس اور اُس کا احترام کرنا ہو گا ،جھوٹ اور بناوٹی دنیا سے باہر نکل کر حقیقت اور سچائی کی دنیا میں آنا ہو گا ۔۔احساس انسانیت اور اسلام کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنا ہو گا ،زندگی کی چاشنی ،صباحت ،دلکشی محبت اور اخلاص میں ہے مختصر زندگی میں اسے اپنا لے تو وہ کبھی تنہا نہیں رہے  گا ۔آج سائنس بھی اس بات کا تجربہ کر چکی ہے کہ مثبت سوچ والے آدمی دوسروں کی نسبت زیادہ خوشگوار زندگی گزارتے ہیں اور خوش رہتے ہیں اور لمبی عمر پاتے ہیں سچ تو یہی ہے نفرت کے لیے زندگی بہت چھوٹی ہے اگر گھر کا ایک فرد بھی اچھی سوچ لے کر چلے تو یقیناً وہ گھر میں ایک خوشگوار فضا قائم کر سکتا ہے ہمیں آج اپنے بچوں کے مستقبل کا بعد میں سوچنا ہو گا پہلے یہی سوچنا ہو گا کہ اسے پہلے ہم ایک اچھا انسان بننے میں مدد کریں وہی اچھا انسان ہر ایک فیلڈ میں دوسروں کے لیے رحمت اور محبت کا پیکر ثابت ہو گا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

بابرنایاب
ڈھونڈوگےملکوں. ںلکوں ملنے کے نهیں نایاب هیں هم 9203007584427+

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply