• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • آپ محبت ،رومانس اور شادی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟۔۔عبدالستار

آپ محبت ،رومانس اور شادی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟۔۔عبدالستار

ریالٹی اور فینٹسی کے درمیان ایک باریک سی لائین ہوتی ہے اور اسی لائین کی حقیقت کو سمجھنے اور جاننے کا نام شعوری ادراک کہلاتا ہے ۔مشرقی معاشروں میں محبت کے بارے میں عجیب و غریب تصورات ،اعتقادات اور متھ پائی جاتی ہیں اور یہ سب روایتی تصورات ہم نسل در نسل جذب کرتے آئے ہیں۔ہمارے معاشروں میں محبت کو سیلیبریٹ نہیں کیا جاتا بلکہ محبت اور رومانس کا نام لینے پر ہی مختلف قسم کے القابات سے نواز دیا جاتا ہے ۔حالانکہ محبت ایک فطری جذبہ ہے اور ایک پرسکون احساس کا نام ہے ۔انسان اپنی زندگیوں کو پرسکون بنانے کے لیے بہت سارے رشتے قائم کرتے ہیں اور ان رشتوں میں خوبصورت رشتہ شادی کا ہوتا ہے ۔مغربی معاشروں میں اس رشتے کو پر سکون بنانے کے لیے ڈیٹ کا تصور پایا جاتا ہے ۔وہاں پر دو محبت کرنے والے ایک دوسرے کو مکمل طور پر جاننے کے لیے اکثروپیشتر ملاقاتیں کرتے ہیں اور اپنے طرز زندگی کو ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کرتے ہیں تاکہ ان کی آنے والی زندگی پر سکون رہے اور ان کے بچے بھی آزادانہ اور پر سکون ماحول میں پلے بڑھیں ۔ایک دوسرے کو جاننے کے بعد وہ شادی کے بندھن میں بندھنے کا اپنی مرضی اورآزادی سے فیصلہ کرتے ہیں یعنی ان دونوں کے درمیان کوئی تیسرا نہیں ہوتا جو ان کے فیصلے میں مداخلت کر سکے ۔اس کے برعکس مشرق میں ڈیٹ کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا اور یہاں پر یہ رشتہ معاشرتی جبر کی بنیاد پر قائم کیا جاتا ہے۔جو دو لوگ شادی کے بندھن میں بندھتے ہیں وہ ایک دوسرے کے لیے بالکل ہی اجنبی ہوتے ہیں اور ان دو لوگوں کی رضا مندی کا فیصلہ گھر کے افراد مل کر کرتے ہیں ۔اجنبیت کی یہ شادی بعض اوقات کامیاب ثابت ہوتی ہے اور اکثر اوقات ناکام ہوکر “برداشت اور مصلحت “کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے ۔اس جبری رشتے میں مارکٹائی ،غصہ اور نفرت جیسے عوامل شامل ہوجاتے ہیں اور اس کے برے اثرات بچوں پر پڑتے ہیں اور پھر یہ سلسلہ ایک طرح سے vicious circle کا روپ دھار لیتا ہے ۔پرسکون محبت اور پرسکون رشتے کیا ہوتے ہیں؟یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر ایک انسان کو رشتے کی بنیاد رکھنے سے پہلے سوچنا چاہئے۔کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ارتقاء کا عمل ہے اور وقت ہر لمحہ تبدیل ہوتا رہتا ہے بالکل اسی طرح سے انسانی جذبات اور ہمارے جذباتی رشتے بھی گزرتی عمر کے ساتھ تبدیلی کےپراسس میں سے گزرتے رہتے ہیں ۔انسانی رشتوں کے درمیان گفت و شنید کا عمل ایک طرح سے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتا ہے ۔جس طرح ریڑھ کی ہڈی انسان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں معاون ثابت ہوتی ہے بالکل اسی طرح بات چیت کا عمل انسانی رشتوں کو سنبھالنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے ۔ڈسکشن نہ ہونے سے بڑے قریبی اور پیارے رشتے ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں ۔رشتوں میں مٹھاس کی چاشنی کو بڑھانے کے لیے رشتوں کی نوعیت کو جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے ۔ریالٹی اور فینٹسی کے فرق کو بہتر طور پر جان کر ہی رشتوں کو سنبھالا جاسکتا ہے ۔کینڈا ون ٹی پر نشر ہونے والا پروگرام “ان سرچ آف پیس “کا چھٹا پروگرام انجوائے کر رہا تھا جس میں ڈاکٹر کامران یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ محبت کے حوالہ سے ہمارے دماغ میں بہت سے مغالطے ،واہمے اور متھ بھری ہوتی ہیں۔یہ بات کہنے اور سننے میں تو بہت اچھی لگتی ہے کہ “سچا عشق ایک ہی دفعہ ہوتا ہے “مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے ۔بدھا کا ایک قول ہے کہ Everything is impermanent یہ حقیقت ہے کہ وقت ہر لمحہ تبدیل ہوتا رہتا ہے اور اسی طرح سےہمارے جذبات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں جب ہم تعلق یا رشتے بناتے ہیں تو ہماری یہ دلی تمنا ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایسا ہی رہے یعنی ہماری وابستگیاں ہنی مون کی سی کیفیت محسوس کرنے لگ جاتی ہیں۔جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا اور ہر رشتہ وقت کے ساتھ ساتھ مختلف مدارج میں سے گزرتا ہے اور رشتوں کو نبھانے کے لیے ان مدارج کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے ۔ہم اپنے نفسیات کے پیشے میں اکثر دیکھتے ہیں کہ اچھے اچھےپارٹنرز کچھ عرصہ بعد ہی بڑی پریشانی میں گھِر جاتے ہیں اور تعلقات ایک طرح سے بوجھ بننے لگتے ہیں ۔حقیقت یہی ہے کہ چیزیں تبدیلی کے عمل میں سے گزرتی ہیں اور بالکل اسی طرح سے شادی کے بندھن سے جڑے ہوئے جذبات بھی تبدیل ہوتے ہیں ۔رشتوں کو نبھانے کے لیے ان باتوں کا جاننا بہت ضروری ہوتا ہے وگرنہ ہماری توقعات بہت بڑھ جاتی ہیں ۔ڈاکٹر کامران کا کہنا تھا کہ ایک ہی رشتہ میں سب توقعات کو ڈھونڈنا ناممکن عمل ہے اور یہ حقیقت پسندانہ رویہ نہیں ہے ۔کسی انسان کا کسی ایک انسان سے جو رشتہ ہوتا ہے وہ ایک رشتہ اس کی ساری خواہشات کو پورا نہیں کر سکتا اور اگر آپ ایک رشتہ میں سب کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے تو پھر آپ کے اندر ایک طرح سے غصہ کی سی کیفیت پیدا ہونے لگے گی اور رشتہ میں ایک گہری دراڑ پڑ جائےگی ۔رشتوں کو نبھانے کے لیے سب سے پہلے آپ کو خود مکمل بننا ہوگا پھر کہیں جا کر رشتے پنپتے ہیں ۔ڈاکٹر خالد سہیل کا کہنا تھا کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ انسانوں کی کچھ conflicting and contradictory ضروریات ہوتی ہیں ۔پہلی ضرورت آشنائی اور قربت کی ہوتی ہے اور اگر یہ ضرورت شدد اختیار کر لے تو دوسرا پارٹنر ایک طرح سے رشتہ میں گھٹن سی محسوس کرنے لگ پڑتا ہے جب وہ رشتے میں گھٹن محسوس کرتے ہیں تو ان کی دوسری ضرورت آزادی کی ہوتی ہے اور اگر آزادی ایک سطح سے بڑھ جائے تو پھر اس بندھن میں تنہائی اداسی اور پریشانی پیدا ہوجاتی ہے ۔آئیڈیل صورتحال تو یہی ہوتی ہے کہ ان دونوں ضروریات کے درمیان بیلنس ہو ۔ڈاکٹر سہیل کا کہنا تھا کہ میں اپنے کلینک میں جوڑوں (پارٹنرز) کو کہتا ہوں کہ وہ ایک ڈیٹ نائٹ کا اہتمام کریں اور ایک رات ایک دوسرے کے نام کردیں۔اس ڈیٹ نائٹ کو اتنا اسپیشل بنائیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار لمحات شئیر کریں ۔کچھ دنوں تک ایسا چلتا رہتا ہےپھر میں ان کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ ایک ڈیٹ نائٹ اپنے مسئلوں کو حل کرنے کے لیے وقف کر دیں ۔میرے تجربے میں یہ بات آئی ہے کہ اس طرح کرنے سے بہت سارے پارٹنرز کے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پارٹنرز کو پتا ہونا چاہیے کہ انہیں کس وقت پروفیشنل ہیلپ کی ضرورت پڑتی ہے ۔انہوں نے ایک تھراپی کا بھی ذکر کیا ہے جس کے تین مدارج ہوتے ہیں ۔

1. Individual therapy

2. Marital therapy

3. Group therapy

Advertisements
julia rana solicitors london

پہلے تھیراپی سیشن میں مرد اور عورت سے انفرادی ملاقات کی جاتی ہے تاکہ دونوں کے مسائل کو انفرادی طور پر سمجھا جاسکے اور دونوں کو الگ الگ گائیڈلائن دی جاسکے ۔دوسرے سیشن میں دونوں کو ایک ساتھ بلا کر معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔تیسرے مرحلے میں بہت سارے پارٹنرز اکٹھے ہو کر اپنے دکھ سکھ شئیر کرتے ہیں ۔ان تین مدارج کے ذریعے سے ان کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔انہوں نے ایک سائیکل آف لَو کا تذکرہ کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ انسانی رشتے تین مدارج میں سے گزرتے ہیں ۔سب سے پہلے رشتے بنتے ہیں پھر مینٹین ہوتے ہیں اور پھر کسی وجہ سے ان میں علیحدگی ہو جاتی ہے ۔انسانی زندگیوں میں یہ سائیکل یونہی چلتا رہتا ہے ۔ڈاکٹر کامران کا کہنا تھا کہ کہ ہر انسان کو کو اپنے غصہ پر قابو رکھنا آنا چاہیے اور اگر آپ نے اپنے غصے پر قابو پانا نہیں سیکھا تو پھر آپ کو اپنے بہت سارے رشتوں سے ہاتھ دھونے پڑیں گےاور آپ کے تعلق کو اس سطح تک نہیں جانا چاہیے کہ آپ بات چیت کی بجائے ہاتھ اٹھانے تک چلے جائیں۔اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ روایتی معاشروں میں جب مرد کو عورت پرغصہ آتا ہے تو وہ اس کو پیٹنا شروع کر دیتا ہے۔کیونکہ ایسا کرنا اس کی روایتی تربیت میں شامل ہوتا ہے مگر اس عمل سے نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں ۔بنیادی بات اینگر مینجمنٹ کی ہے۔سب سے بڑا مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب آپ خود کو تبدیل کرنا ہی نہیں چاہتے ۔غصہ فطری بات ہے مگر اس کا ایک صحت منداستعمال سیکھنا پڑے گا اور یہ اسی وقت ممکن ہو پائے گا جب ہم اپنی کمیوں کوتاہیوں کو جاننے لگیں گے ۔اس گفتگو کا نچوڑ یہ ہے کہ بات چیت کا عمل رشتوں کو دیر پا بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے اگر ہم اپنے مسئلوں کو ڈسکس ہی نہیں کریں گے اور منہ بنا کر ایک دوسرے سے بات کرنا چھوڑ دیں گے تو پھر غصہ اور ناراضگی بڑھتے بڑھتے جدائی پر آکر ختم ہو جائیگی ۔یہ پروگرام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے اور یاد رکھیے ابھی بہت کچھ ڈسکس ہو نا باقی ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply