محمدﷺ ہمارے بڑی شان والے۔۔حافظہ عائشہ احمد

رسولﷺ کی تعلیمات ہمہ پہلو خیر و برکت کی حامل ہیں ۔ اسوہ حسنہ میں جو رہنمائی  موجود ہے وہ انسانوں کو ان کے جملہ امراض اور تمام روگوں سے نجات دلانے کا ایک نہایت موثر ذریعہ ہیں۔ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو خوشگوار اور پُر مسرت بنانے میں آپﷺ کی سیرت بہترین نمونہ ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: ترجمہ: تمہارے لیے  رسولﷺ کی زندگی اچھے کردار کی بہترین مثال ہے۔ الاحزاب

کچھ پس منظر کا جائزہ لیتے ہیں، آقاﷺ کی اس دنیا میں تشریف آوری سے قبل عرب جہالت و گمراہی کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا ہر طرف انتشار تھا، لڑائی  جھگڑا، مار دھاڑ ، لوٹ کھسوٹ ، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول۔ رب کائنات نے اپنی رحمت کے دریا بہاۓ اور سرور کائنات ، رحمت للعالمین محمد مصطفیﷺ کو اس ظلمت میں نور بنا کر دنیا میں ظاہر فرمایا۔ آقاﷺ کی آمد ہوتے ہی ہر طرف نور ہی نور پھیل گیا اور ظلمتوں کے بادل چھٹ گئے ۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے ” اور ہم نے آپﷺ کو تمام جہانوں کے لۓ رحمت بنا کر بھیجا“ ۔ اس بات کا اندازہ بخوبی ایسے لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں رب للعالمین کا نام پکارا جاتا ہے وہیں رحمت اللعالمین کے نام کو قبولیت کی دلیل کا درجہ دیا گیا ہے چاہے وہ اذان ہو نماز ہو یا دعا۔ آپ ﷺ پر نازل کی جانے والی کتاب آپﷺ کا اخلاق اور سیرت بیان کرتی ہے کیے گئے عمل سنت و احادیث کے روپ میں ہماری رہنمائی  کرتے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے  اصل دین آقاﷺ کی ذات سے محبت اور ان کی تعلیمات کی پیروی اور اطاعت ہے اس کے بغیر ایمان ہے ہی نہیں مفہوم حدیث ہے: آ قاﷺ نے فرمایا” تم میں سے کوئی  شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں ا سکو اسکے ماں باپ، اولاد اور جان ومال سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں“ ۔ ہمارے لۓیہ سعادت ساری زندگی شکربجا لانے کے لیے  کم ہے کہ ہم نے امت محمدیﷺ کے طور پر اس دنیا میں آنکھ کھولی وہ امتی جس کے ہونے کی دعا انبیاء  نے کی اس نبی ﷺکے امتی جس کے نبی ہونے کی گواہی دنیا میں موجود ہر جاندار و بے جان نے دی۔

Advertisements
julia rana solicitors

دیکھا جاۓ تو ہر دور میں اغیار کی طرف سے مسلمانوں کے آقاﷺ سے ایمان ، محبت اور عقیدت کو گھناؤنے اور غلیظ طریقہ کار کو اختیار کر کے آزمایا جاتا ہے اور ان کو عمل و محبت کے کٹہرے میں کھڑا کردیا جاتا ہے ۔ گزشتہ دنوں بھی فرانس میں ایک ایسی ہی حرکت کا ارتکاب کیا گیا جس کے باعث تمام دنیا کے مسلمان شدید اضطراب کا شکار اور سراپاۓ احتجاج ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان حرکات کی نوبت کیوں آتی ہے؟ کہا جاتا ہےکہ انسان کا عمل اس کا بہترین ہتھیار ہے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے عمل کا معیار دن بدن خراب ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اغیار ایسی حرکات بلا خوف و خطر کر گزرتے ہیں۔ قرآن میں اللہ پاک نے آقاﷺ کا مذاق اڑانے والوں کے لیے  خود کو کافی قرار دیا ہے ۔ اس نے آپﷺ کے ذکر کو بلند فرما دیا ہے لیکن بحیثیت امتی ہمیں بھی اپنا فرض ادا کرنا ہے اپنے عمل کے ذریعے سے دشمن کے دلوں میں ایسی ہیبت پیدا کرنی ہے کہ اسے ہزار بار سوچنا پڑے کہ وہ کس امت کے محبوب کے بارے میں بات کر رہا ہے ۔آقاﷺ کی ناموس،حرمت پر میری ہزاروں جانیں قربان۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں باعمل امتی اور آقاﷺ کے نام پر جانیں قربان کرنے والا بناۓ آمین بقول شاعر:
جس دھج سے کوئی  مقتل میں گیا
وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے
اس جان کی تو کوئی  بات نہیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply