خط بنام سرورِ کونین ﷺ ۔۔ قُرسم فاطمہ

یا رسول اللہ ﷺ!

قلبی عقیدت، محبت، عزت و احترام کے ساتھ آپ کی بارگاہِ اقدس میں عرض و سلام کے ساتھ آپ کے اہلِ بیتِ اطہار، خلفائے راشدین، والدین کریمین، ازواجِ مطہرات، اصحاب اور تمام عاشقین کی خدمتِ اقدس میں بھی السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ۔

اے بلندیوں کے صدر نشین آقا! میرے پاس حضرت ابوبکر جیسا ایمان اور حضرت عمر جیسا عدل تو نہیں ہے اور نہ ہی حضرت عثمان جیسی حیا اور حضرت علی جیسی شجاعت ہے۔ یا رسول اللہ ﷺ! میرے پاس تو حضرت خدیجہ جیسی وفاداری، حضرت عائشہ جیسی محبت اور حضرت فاطمہ جیسی پاکبازی بھی نہیں ہے۔ نہ میرا لہجہ بلالی ہے اور نہ ہی میرے الفاظ حضرت حسان بن ثابت کے لفظوں کی خاک کے برابر ہیں مگر پھر بھی۔۔۔ آج آپ کی بارگاہِ رسالت میں عاجزانہ سلام پیش کرنے کے  لیے حاضر ہوں۔ قبول فرما لیجیے۔

حرفِ کُن کے مظہر یا مصطفیٰ ﷺ! آج بلآخر وہ سعید ساعتیں آن پہنچی ہیں جب آپ کو سرمدی حسن و جمال کے ساتھ جلوہ افروز فرما کر کائناتِ ارضی کی کایا پلٹ دی گئی تھی۔ ماہِ ربیع الاول و ربیع النور میں ولادتِ باسعادت کی مبارک و مبین گھڑیوں کی مبارکباد درود و سلام کے پیراہن میں ڈھال کر پیش کررہی ہوں۔۔۔ قبول فرمائیے۔ جب چار سمتوں سے “ورفعنا لک ذکرک” کی صدائیں گونجتی ہیں تو دل دم بخود ہوکر آپ کے قدموں میں جُھکتا چلا جاتا ہے اور روح کسی ننھے سے پرندے کی مانند آپ کے دیدار کے لیے تڑپنے لگتی ہے۔ ذہن کی کچی زمین پرجوں ہی آپ کے دیدار کی تڑپ بڑھنے لگتی ہے۔۔۔ میرا وجود ریزہ ریزہ ہوکر شکستگی کی ہر حد پار کرنے لگتا ہے۔ کہاں آپ سرورِ کونین اور شافعِ محشر اور کہاں میں سیاہ کار اور گناہگار۔ آپ آقا اور میں غلام۔ آپ غالب اور میں مغلوب۔ آپ نور اور میں اندھیر مگر پھر بھی۔۔۔ آپ کی اُمتی ہوں اور یہ یقینِ کامل رکھتی ہوں کہ اگر میں مسافر ہوں تو آپ رہنما ہیں۔ اگر میں غافل ہوں تو آپ نگہبان بھی ہیں۔ میں شکستہ ہوں تو صرف آپ ہی مسلسل ہیں جن کی رحمت کے خزینوں نے مجھ جیسے لامحدود انسانوں کو آزمائشوں کے کٹھن جھونکوں سے ڈھانپ رکھا ہے۔

اے راہِ ہدایت کے نور آقا! میں ایک طویل عرصے سے آپ کے دربارِ رسالت میں حاضر ہونے کے بعد گنبدِ خضرہ کے عین سامنے جُھک کر آپ کو سلامِ عاجزانہ و فقیرانہ پیش کرنے کی خواہاں ہوں مگر چونکہ میرے لڑکھڑاتے قدم ابھی آپ کے حضور پیش ہونے کے لائق نہیں ہوئے اس لیے کانپتے ہاتھوں، پُرنم آنکھوں، شکستہ دل اور پھڑپھڑاتی روح کے ساتھ آپ کو سلام پیش کرتی ہوں۔۔۔ قبول فرمالیجیے۔

ایک روز میں نے وہ واقعہ پڑھا جب آپ مدینے کی ایک عورت کی آہ و بکا سماعت فرما رہے تھے تو صحابہ کرام کو یہ گراں گزرا کہ ایک عورت جس کو سب پاگل کہتے ہیں وہ آپ کا اتنا وقت کیوں لے رہی ہے۔ اس موقع پر آپ نے مُسکرا کر فرمایا تھا: جس کی پورے مدینے میں کوئی نہیں سُنتا کیا اُس کی میں بھی نہ سنوں؟ یا رسول اللہ ﷺ! میں تو اُس عورت کے قدموں کی دھول کے برابر بھی نہیں ہوں مگر پھر بھی آپ مجھے سماعت فرماتے ہیں۔ میری ہر آہ و بکا پر داد رسی فرماتے ہیں۔ مجھے ہر مرتبہ پُرشفیق انداز میں ہمت و حوصلہ عطا فرماتے ہیں۔ آپ کا ذکر میری تسکین ہے۔ آپ کا عمل میری تمکین ہے۔ آپ کا تبسم فرمانا میری بہار ہے۔ آپ کا بیان فرمانا میرا قرار ہے۔ آج ان مبارک ساعتوں کے صد قے مجھ پر اپنا خاص الخاص کرم فرما دیجیے۔

آپ صاحبِ رجعتِ شمسِ شقُ القمر، فاتحِ بابِ نبوت، ختمِ بابِ رسالت، خلق کے دادرس، ہر ایک کے فریاد رس، آئینہِ حق نما، سرتاجِ رفعت، نسخۂِ جامعیت، مطلعِ الفجر الحق، چشمۂِ علم و حکمت، مظہرِ کُن، سیّد الانبیاء، امین و مامون، حبیب و محبوب محمدِ مصطفی، احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔۔۔۔اپنی اُمّتی کا درود و سلام قبول فرمالیجیے  اور مجھ جیسی لاچار، مجبور و بے بس کو کبھی بھی اپنے دستِ شفقت سے محروم نہ کیجیے گا۔ بروزِ حشر مجھے اللہ تبارک و تعالیٰ کے جاہ و جلال سے محفوظ فرما کر اپنی شفاعت و عرفانیت کے پردے میں ڈھانپ لیجیے گا اور خالق سے بخشش کی عرض کردیجیے گا۔ یہ سب کہنا میری اوقات تو نہیں ہے مگر آپ کی شان ضرور ہے۔ آپ ہمیشہ مجھے اپنی شان کے مطابق ہی عطا کرتے رہیے گا۔

آج میں اس یقین کے ساتھ یہ خط آپ کی بارگاہِ رسالت میں بھیج رہی ہوں کہ آپ مجھے اس کا جواب ضرور عطا فرمائیں گے۔ میرے لڑکھڑاتے اور بھٹکتے قدم جب جب آپ کی سنت پر عمل پیرا ہونے کے لیے کوشاں رہیں گے، میں جان جاؤں گی کہ آپ نے میرے خط پر نظرِ کرم فرما دی  ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آپ کی شفاعت کی طلبگار،

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply