یوم حرمت رسول ﷺ۔۔ذیشان نور خلجی

سیدھی سی بات ہے ہم ان سے جنگ تو لڑ نہیں سکتے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ پھر آپس میں ہی لڑنا شروع کر دیں۔ جونہی فرانسیسی صدر کا بیان سامنے آیا ہم نے توپوں کے رخ اپنے ہی لوگوں کی طرف موڑ لئے۔ اب ایک طبقہ ہے جو کہہ رہا ہے کہ فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے تا کہ ان کو سبق سکھایا جا سکے جب کہ دوسری طرف کے لوگوں کا کہنا ہے اس عمل سے فرانس تو نہیں لیکن ہم ضرور سبق سیکھ جائیں گے کیوں کہ تجارتی بائیکاٹ سے ہمارے زر مبادلہ کی شرح میں کمی تو آئے گی مگر بدلے میں فرانس کا جو نقصان ہوگا وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ بات تو ان کی ٹھیک ہے اور آپ اسے سرچ بھی کر سکتے ہیں کیوں کہ میں تو اسے یہاں نہیں لکھنے والا۔ میں تو جو کہنے آیا ہوں صرف وہی کہوں گا کہ آپسی دھینگا مشتی کی بجائے کیوں نہ ہم کوئی ایسا لائحہ عمل اپنائیں کہ بجائے اپنے نقصان کے کچھ تھوڑا بہت ہی سہی لیکن فائدہ تو حاصل ہو سکے۔ لہذا یہ کیا جا سکتا ہے چونکہ بارہ ربیع الاول کی آمد آمد ہے اور ملک بھر میں جلسے جلوس نکالے جائیں گے جس میں لوگ نبی ﷺ کا میلاد منانے کے لئے گھروں سے باہر کا رخ کریں گے تو اس بابرکت موقع کو کیوں نہ ہم اس طرح سے استعمال میں لائیں کہ بے شک ابابیل جتنا ہی سہی لیکن پھر بھی اپنا اپنا حصہ ڈال سکیں۔
اس دفعہ جشن عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر بجائے آقا علیہ السلام کی سالگرہ منانے کے کیوں نہ ہم یوم حرمت رسول ﷺ منائیں۔ کیا ہم اپنی با برکت محافل کو میلاد کی بجائے احتجاج کے طور پر ریکارڈ نہیں کروا سکتے؟ اور میرے خیال میں یہ موقع بھی بہت اچھا ہے۔ عوام نے عشق مصطفیٰ ﷺ میں بارہ ربیع الاول کو گھروں سے نکلنا تو ہے ہی لیکن اسے ہم ملک گیر پُر امن احتجاج کی صورت میں بھی تو بدل سکتے ہیں۔ اور یہاں ایک خوش کن امر یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم صاحب نے بھی بارہ ربیع الاول سے انیس ربیع الاول تک جشن عید میلاد کا ہفتہ منانے کا عندیہ دیا ہے تو اس پورے ہفتے کو ہم ہفتہ تحفظ ناموس رسالت ﷺ کے طور پر بھی تو منا سکتے ہیں۔
اب آپ سوچیں گے کہ اس کا فائدہ کیا ہو گا۔ لیکن پہلے یہ بھی تو سوچیں کہ کیا آپس میں لڑنے کا کوئی فائدہ ہو رہا ہے۔ یا ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا فائدہ ہو گا کہ جب بہت سی مصنوعات جنہیں ہم فرنچ سمجھ رہے ہیں وہ یا تو سراسر پاکستانی ہیں یا پھر چائنہ کی بنی ہوئی ہیں۔ ہاں، لیکن اس احتجاج کا فائدہ ضرور ہو گا وہ یہ کہ عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر یا اس پورے ہفتے میں جب مجموعی طور پر کروڑوں فرزندان اسلام ناموس رسالت کے محافظ بنے سڑکوں پر نکلیں گے یا مساجد میں اجتماعات منعقد کریں گے اور پر امن طور پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں گے تو ضرور با لضرور ان کے احتجاج کو عالمی میڈیا تک رسائی ملے گی جو کہ بین الاقوامی سطح تک ہمارا پیغام پہنچانے میں مدد گار ثابت ہو گی۔
میرا ذاتی خیال ہے بالخصوص علماء اکرام کو چاہئیے کہ اس بابرکت موقع کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اور اس سالگرہ کم احتجاج کے موقع پر نہ صرف بریلوی طبقہ باہر نکلے بلکہ دیوبندی، اہل تشیع اور اہل حدیث بھائی بھی باہر نکلیں اور متحد ہو کر یک آواز اور یک جان بن کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں۔ امید ہے اس لائحہ عمل کو اپنا کر حرمت رسول ﷺ کے حق میں ہم اقوام عالم میں ایک توانا آواز بن کر ابھریں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply