سیاسیات۔۔حسان عالمگیر عباسی

haمولانا فضل الرحمان صاحب حکمت کا باب ہیں۔ مخالف کے پاس اس سے زیادہ پیش کرنے کو کوئی جواز نہیں ہے کہ موصوف ہر جگہ فٹ آ جاتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ جواز پیش کرنے کی نوبت ہی نہ آئے اگر سب کے سب اپنے رہبران کی خبر لے لیں یا ماضی کو رہنما مان لیا جائے۔

سیاست کے نام لیواؤں کو ‘سولو فلائٹ’ کے نام پہ وقتی اطمینان بالضرور محسوس ہو سکتا ہے لیکن یہ ممکنات میں سے ہی نہیں ہے کہ سیاست کا باب بند کر دیا جائے۔ کف افسوس ملنے کا مقام ہے جب ایک سیاست دان کو یہ کہا جائے کہ اسے دیگر جماعتوں سے رابطے نہیں استوار کرنے چاہئیں۔ بالخصوص ہمارے ہاں سیاست کے دروازے مقفل کرنا سیاست دان کو زیب ہی نہیں دیتا کیونکہ یہاں سیاست ہی یرغمال ہے۔

سیاست دانوں کو پنجے آزاد کروانے ہیں۔ آزادی گن گانے سے نہیں بلکہ حتی الامکان کاوشوں کو بروئے کار لانے سے نصیب میں آتی ہے۔ ماضی کو بنیاد بنا کر نواز شریف صاحب کا حسب و نسب جنرل ضیاء الحق سے جوڑنا بہت آسان ہے لیکن ‘آج’ ان کا للکارنا کن مشکلات سے نمٹ کر سوئی قوم کو بیداری کی طرف رغبت دلانا ہے، کوئی ضیاء خلیفہ کے ‘بچے’ سے ہی پوچھ لے۔

کل کس نے دیکھا ہے؟ ہم ماضی کے جھروکوں سے اگر بازیاب ہو بھی جائیں تو مستقبل ہمارا گلہ پکڑنے آگے بڑھنے لگتا ہے۔ ‘حال’ میں زندگی بسر کریں کیونکہ ‘زمانہ’ یہی کہلاتا ہے۔ جس وقت ہم کچھ کر سکنے کی پوزیشن سنبھال سکتے ہوں، وہی زمانہ کہلاتا ہے۔

اگر کل کو نواز شریف صاحب بیک ڈور ہاتھ ملا بھی لیں تو ‘آج’ میں جینے والے بالیقین کل کلاں آنے والے ‘آج’ میں شریف صاحب سے حساب چکتا کر لیں گے۔ ابھی ان کے اندر کے کھولتے ہوئے خون کو اپنے آنے والے ‘آج’ کے لیے استعمال کرنا عوام کا مقدس کام ہے۔

اکیلے نواز شریف صفر ہیں، مائنس نواز شریف عوام کو زیرو بنا سکتی ہے۔ وہ کن کے ہاتھوں میں کھیلیں گے ‘پیشنگوئی’ سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے لہذا ان کے آج کے غصے کو عوام اپنی طاقت بنائے اور کل اگر نواز شریف پھر سے ‘ضیاء دوم’ کی دم پکڑ لیں تو یقیناً ان کی جگہ لینے والا ایک اور لیڈر تیار بیٹھا ہے۔ وہ لیڈر عوام کی امنگوں پہ ضرور پورا اترے گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو مولانا فضل الرحمان صاحب (کوئی بھی ان کا سا ہو سکتا ہے) تو کھڑے انتظار ہی کر رہے ہیں۔

یہ لیڈرز اگر ابھی کچھ بول رہے ہیں تو بولنے دیں، فائدہ بالآخر عوام نے سمیٹنا ہے۔ یہ جو لیگی کارکنان ہیں یہ پاگل ہیں جو نواز شریف کے پیچھے اپنی جان ضائع کر رہے ہیں؟ یہ جو پی ٹی آئی والے عمران خان کے پیچھے اپنے روزی روٹی چھوڑ کر آئے تھے وہ سٹھیا گئے تھے؟ یہ جماعت اسلامی کے کارکنان کو پاگل کتے نے کاٹا ہے جو سراج الحق صاحب کی ایک آواز پہ دوسرے شہروں سے ڈی چوک امڈ آتے ہیں؟ یہ سب انقلابی ہیں اور تبدیلی کے خواہاں ہیں۔

جب تک سیاست دان ایک ہیں تو انقلابی حضرات بھی سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوں گے۔ ایک دیوار جب تین دیگر دیواروں سے ملے گی تب تک چھت ڈالنے والا رہبر بھی مل جائے گا۔ ہم ‘اہل سیاست’ ہیں اور سیاست صرف ہمارا مورچہ ہے۔ کسی کی دخل اندازی پہ گلے پھاڑنا ایک نعرہ ضرور ہے لیکن مداخلت تب تک ہوتی رہی گی جب تک عوام اپنی انا اور نفس کو موت کی نیند سلا کر ‘ایک’ نہیں ہو جاتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کیا خوب ہو جب تمام سیاست دان ہاتھوں کی زنجیر بنانے میں کامیاب ہو سکیں اور سامنے رنگ برنگے سبز سفید سرخ جھنڈوں کی بہار ہو اور سیاہ پرچم منہ چڑاتا پھرے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply