امریکی صدارتی انتخاب اور بڑھتے خدشات(حصہ دوم)۔۔جمال خان

گزشتہ سطور میں ذکر کیا تھا کہ وہ کون سے خدشات اور اندیشے ہیں کہ جن کی وجہ سے نائب صدر جو بائڈن کی مضبوط پوزیشن اور رائے عامہ کے جائزوں میں ان کی واضح برتری کے باوجود ڈیموکریٹس کو نہ تو ابھی اپنی فتح کا یقین ھے اور نہ ھی وہ اعتماد سے اس کا دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔

دوسرے حصے میں ان وجوہات کا مزید جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ صرف چھ دن بعد منعقد ہونے والے انتخاب کے حوالے سے بھی کچھ ذکر کرتے ہیں ۔
1: 2016 میں صدر ٹرمپ نے ” سونگز سٹیٹس” میں ووٹرز کو ایک تو ان باتوں پر قائل کرلیا تھا کہ وہ ان ریاستوں میں عرصہ دراز سے ان تمام بند صنعتوں کو دوبارہ کھول دیں گے جن کی بندش کی وجہ واشنگٹن میں بیٹھے خودغرض سیاستدانوں کی غلط پالیسیاں ہیں۔۔۔انہوں نے لوگوں کے اس بڑھتے ہوئے احساس محرومی اور طویل بیروزگاری سے پیدا ہونے والے دکھ درد کا بروقت ادراک کرتے ہوئے اپنے سیاسی کارڈ کا بھرپور استعمال کیا ۔

2: لیکن کیا صرف یہی ایک وجہ تھی جو انہیں وائٹ ہاؤس تک لے گئی  تھی؟۔۔نہیں! یہ تو  ہیلری کلنٹن کی شکست کے بہت سے دوسرے عوامل کی طرح ایک بڑی وجہ تو ہوسکتی ہے مگر۔۔ اس کے علاؤہ ایک اور بڑا پہلو بھی تھا جس کی طرف نہ ہی میڈیا اور نہ ہی سیاسی پنڈتوں کا دھیان گیاتھا۔

یاد کریں پہلے ہندوستان اور پھر برطانیہ کے دو وزرائے اعظم نے جب اپنے اپنے ملکوں میں انتخابات جیتے تھے تو ان کی سیاسی سرگرمیوں کا محور اور نقطہ نظر بڑا واضح تھا اور ان کے مخاطب کون لوگ تھے؟؟ ۔۔جی  ہاں ! ملک کا ” اکثریتی” طبقہ اور دیہی علاقوں میں آباد ” قدامت پسند” جن کے سامنے یہ نعرہ بڑا مقبول ہوا تھا کہ ” یہ ملک تمہارا ہے ” تم اکثریت میں ہو اور ملک پر پہلا حق بھی تمھارا ہے ۔

2016 میں ریاست مشی گن وسکانسن پینسلوانیہ فلوریڈا جیسی “سونگز سٹیٹس” کے مضافات علاقوں میں  آباد سفید فام کی بڑی  آبادی کے ذہنوں  میں ایک طویل عرصے سے اٹھنے والے ان سوالات کو صدر ٹرمپ اور ان کی انتخابی مہم کے سرکردہ افراد بھانپ چکے تھے اور صدر ٹرمپ بالآخر ان ووٹرز کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ! آپ لوگوں کو یہ نقطہ سمجھنے میں اب کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں ہونا چاہیے کہ ” بے لگام آزادیوں” نے ہمارے اس عظیم ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ہے ۔۔ان ہی آزادیوں نے اس ملک کو جرائم پیشہ ،دہشت گردوں اور منشیات فروشوں سمیت جنسی درندوں کا گڑھ بنادیا ہے ۔اس بے لگام آزادی نے ہمیں 9/11 کا سانحہ دکھایا وغیرہ وغیرہ۔اور پھر دنیا کے سب سے طاقتور عہدے کے حصول کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں ان “اکثریتی عوام” کو وہ شخص مل ہی گیا کہ جسے انہوں نے اپنے درمیان طاقتوروں کو للکارتے دھاڑتے دیکھا تو نہ صرف انہیں اپنی منزل ملتی نظر آئی بلکہ لوگوں نے بھی نے شاید اپنی زندگیوں میں پہلی دفعہ برملا اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کیا کہ ہم نے یہ ملک طویل جدو جہد اور لازوال خونی قربانیوں دینے کے بعد حاصل کیا تھا اور ھمارے بزرگوں نے انتہائی بھاری قیمت ادا کرکے امریکہ کو دنیا کا عظیم ملک بنایا ہے۔

اب ہم اپنے ملک میں”بیرونی گھس بیٹھوں” کو ان کا “گندہ” کھیل مزید نہیں کھیلنے دیں گے ۔
3. دوسری طرف ڈیموکریٹ پارٹی کی صدارتی امیدوار ہیلیری کلنٹن بھی ذرا مختلف مزاج کی ہی خاتون تھیں ۔۔
اپنے پروفائل کا ہر وقت ذکر کرتے  ہوئے یہ کہنا کہ ان کا طویل سیاسی تجربہ جس میں وہ بطور سینیٹر، دو دفعہ خاتون اول سیکٹری خارجہ جیسے بڑے مناصب پر براجمان ہنے کے بعد  ہر لحاظ سے صدر کی ذمہ داریاں سنبھالے کے لیے تیار ہیں اور وہ لوگوں کو جیسے یہ بتا رہی تھیں کہ ‘ وہ تو پیدا ہی صدر بننے کے لئے ہوئی ہیں ” جیسی باتوں نے بھی انہیں شدید نقصان پہنچایا۔

یہی وجہ ہے کہ وہ جتنا زیادہ اپنے ” تجربے” کی باتیں کرتیں لوگوں کو اتنی ہی زیادہ ان سے چڑ ہوتی جاتی ۔۔ کہ جن کی آنکھوں کے سامنے ان کی ریاستوں میں تمام بڑی بڑی صنعتوں کو تالے لگے اور پورے کے پورے خاندان بیروزگار ہوگئے۔ اور وہ اس کا ذمہ دار صدر باراک اوبامہ کے پچھلے آٹھ سالہ دور سمیت واشنگٹن کی لالچی اور خودغرض اسٹبلشمنٹ کو ٹھہراتے تھے۔
لہذا اس دفعہ انہوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وائٹ ہاؤس میں کسی کاروباری شخص کو بھیجا جائے گا ۔۔اب کچھ لوگوں کو حیرت بھی ہوگی اور وہ شاہد محظوظ بھی ہوں گے جب وہ میرا اگلا جملہ پڑھیں گے اور ان کے ذہنوں میں فورا یہ سوال بھی ابھرے گا کہ ” امریکہ جیسے ملکوں میں بھی ایسی باتیں کی جاتی ہیں(مگر! یہ مت بھولئے کہ ہیلری کلنٹن بہرحال ایک خاتون صدارتی امیدوار تھیں)
2016 میں ہیلری کلنٹن کے بارے میں ووٹرز اور خاص طور پر خواتین بڑے طنزیہ انداز میں انہیں ووٹ نہ دینے کی دوسری وجوہات کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کہہ ڈالتیں کہ” دیکھیں جی جو عورت اپنے خاوند پر نظر نہیں رکھ سکتی اور اسے سنبھال نہیں سکتی ۔۔۔وہ بھلا ہمارا ملک کیسے سنبھالے گی۔۔۔۔ ( کلنٹن- لیونسکی سکینڈل) بعد میں صدر ٹرمپ نے بھی اس بات کو اپنے حق میں استعمال کیا جب  امریکی صدر بطور کمانڈر- ان چیف کا ذکر  چھڑتا۔

قارئین اس ساری تفصیل کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آج 2020 میں جب کہ تمام سروے نائب صدر جو بائیڈن کی کامیابی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ ڈیموکریٹس کی جانب سے ان تمام ” گرے ایریاز” پر مکمل طور پر نظر رکھی جارہی ہے جنہیں 2016 میں نظر انداز کیا گیا تھا ۔۔ لیکن پھر بھی انتخاب صرف چھ دن کی دوری پر ہونے کے باوجود ۔۔ کوئی واضح تصویر سامنے کیوں نہیں آرہی کہ جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ میں سے اقتدار کا ہما کس کے سر پر بیٹھے گا ۔۔ اوپر ذکر ہوا تھا سفید فام ووٹرز کا اکثریت میں ہونا اور سونگز سٹیٹس کے ووٹرز کا 2016 میں واشنگٹن کی اسٹیبلشمنٹ کے منہ پر زوردار مکہ مارنے کا ۔۔تو آج کا بڑا سوال جو ڈیموکریٹس کے ساتھ ساتھ اب غیر جانبدار تجزیہ کاروں کے ذہنوں میں بھی ابھر رہا ہے وہ یہ کہ—-
1: ” کیا صرف چار سال کے عرصے میں ہی ان خاموش ووٹرز کو ٫ واشنگٹن کی اسٹیبلشمنٹ پر دوبارہ پیار آگیا ہے ؟
2: کیا ان سونگز سٹیٹس کے ووٹرز اس حقیقت کو بھول جائیں کہ کرونہ وائرس بحران سے پہلے امریکی اکانومی بہت تیزی سے ترقی کر رہی تھی ۔
3: کیا یہ خاموش ووٹرز اس حقیقت کو بھی تسلیم نہ کریں کہ صدر ٹرمپ کے چار سالہ دور میں ٫ سب سے پہلے امریکہ” کے نعرے کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آیا ۔
4: ان ریاستوں کے خاموش ووٹرز یہ دیکھ رھے ہیں کہ صد ٹرمپ کے چار سالہ دور میں امریکہ بہت سے ایسے عالمی معاہدوں سے باھر نکلا ھے جس میں باقی ممالک کی نسبت امریکی امداد کئی گناہ زیادہ ہوتی تھی۔
5: یہ خاموش ووٹرز عرب اسرائیل تنازعہ میں ٹرمپ کے کردار سمیت کسی بھی بڑی جنگ سے گریز اور روس کوریا ایران اور چین جیسے شدید مخالف ممالک کو ” کٹھی میٹھی” باتوں سے امریکی مفادات کو ضرب پہنچانے سے باز رکھنے جیسے اقدامات ۔۔۔ کو سراہتے ہیں اور آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ ایک عوامی صدر کا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔
6: اور اگر کوئی  ری پبلکنز” اور ابھی فیصلہ نہ کرنے والے ووٹرز سے کرونہ وائرس کو شکست دیکر پچھلے دس دنوں سے ایک دن میں تین تین انتخابی جلسوں سے پوری توانائی کے ساتھ خطاب کرتے پھیپھڑوں کا پورا زور لوگ لگاکر دھاڑتے چھنگاڑتے .کمانڈر ان چیف ” کے بارے میں پوچھے!! اور اس کا موازنہ صدر جو بائڈن سے کرے تو ؟

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply