• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سعودی عرب ریاستی و معاشی جائزہ، ویژن 2030 پر تبصرہ۔منصور ندیم/آخری حصہ

سعودی عرب ریاستی و معاشی جائزہ، ویژن 2030 پر تبصرہ۔منصور ندیم/آخری حصہ

سعودی ویژن 2030ء
شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی اقتصادیات میں انقلابی تبدیلیوں کا منصوبہ پیش کرنے کا دعوی کیا تھا جس کے مطابق ان کا ملک “تیل کی آمدن کی عادت” سے چھٹکارا حاصل کرے گا اور گلوبل انویسٹمنٹ طاقت بنے گا۔
نائب ولی عہدکا   کہنا تھا کہ ان کا ملک اب ایک خصوصی فنڈ کے ذریعے سرمایہ کاری کے لیے موجود چھ ارب ڈالر کے سرمائے کو بڑھا کر سات کھرب ڈالر تک لے جائے گا، اس کے لیے تیل کی سرکاری کمپنی آرامکو کے پانچ فیصد حصص فروخت کیے جائیں گے۔
نائب ولی عہد شہزادہ محمد نے کہا تھا کہ، ’’ہم اپنے ملک کو بیرونی منڈیوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں زبردست کمی کی وجہ سے سعودی عرب کو ایک بڑے بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔

محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ سنہء 2020 تک ملک میں تیل کے علاوہ پیدا ہونے والے سرمائے کو چھ سو ارب ریال (ایک سو ساٹھ ارب ڈالر) تک لایا جائے گا، جب کہ سنہ  2030 تک اسے ایک کھرب ریال (دو سو 67 ارب ڈالر) تک پہنچا دیا جائے گا۔لیکن محتاط اندازے کے مطابق آرامکو کے حصص کی مالیت 2000 بلین ڈالر تھی لیکن   مارکیٹ میں اس کی موجودہ حصص کی لاگت 400 بلین ڈالرز سے زیادہ نہ لگ سکی ۔ اوپر سے “مرے کو مارے شاہ مدار ” کے  مصداق امریکی نو منتخب صدر Donald Trump نے اپنے پہلے دورہ سعودی عرب میں ہی 400 بلین ڈالرز کے دفاعی معاہدات کرلیے ہیں ۔ جس کے بعد اب سعودی عرب کے پاس سوائے نئے ٹیکسز لگانے کے کوئی چارہ باقی نہیں بچا ۔

جس میں مختلف اقسام کے ویزوں کے اجراء کی فیس میں اضافہ، اقامہ فیس میں اضافہ ، خصوصاً  غیر ملکیوں کی فیملیز پر ماہانہ بنیادوں پر ٹیکسز کا اجراء انتہائی حیران کن ہے کیونکہ یہاں کے غیر ملکی اگر ٹیکس کی ادائیگی کریں تو یقیناً  ان کو وہ تمام بنیادی حقوق  ملنے چاہییں  جو کسی بھی جدید دنیا کے ممالک کی ریاستیں اپنے ملک میں قانونی طور پر رہنے والے غیر ملکیوں کو ٹیکس کے بدلے میں دیتی ہیں۔ لیکن یہاں رہنے والے غیر ملکی تو قانونی طور پر صرف ملازمت کرتے ہیں ۔ اور نہ ہی کسی غیر ملکی کو یہاں املاک خریدنے کی اجازت ہے اور نہ ہی مقامی شہریت حاصل ہے ۔ علاوہ ازیں اس ٹیکس میں ہر سال دگنا اضافہ  مزید حیران کن امر ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ یہ غیر ملکیوں کا ہی تیل نکالنا چاہ رہے ہیں ۔

جولائی 2017 سے اس ٹیکس کے اطلاق کے بعد سے اب تک یہاں تمام انٹر نیشنل  سکول اور ایمبیسی  سکول میں طلبا کی تعداد میں حیران کن کمی واقعی ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ سپر مارکیٹ میں گروسری اور دوسری روزمرہ   اشیاء میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔مملکت مزید 2018 میں روز مرہ  اشیاء پر پہلی  بار GST کا اطلاق اور پٹرول کی قیمتوں میں % 80   اضافہ ، بجلی اور پانی کے نرخوں میں اضافے کا حکم نامہ جاری کرچکی ہے۔ کم تنخواہ والی غیر ملکی فیملیز ان ٹیکسز کے بعد رخت سفر باندھنے کی تیاری کر رہی ہیں ۔اقامہ فیسسز میں اضافہ اور نامساعد کاروباری حالات کی وجہ سے کافی کمپنیاں بھی ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کر رہی ہیں۔یہ ساری صورتحال یقینا بہت تشویش ناک ہے۔

اس کے علاوہ سعودی ویژن 2030ء میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب کی معاشرتی سطح پر جو انتہائی قدامت پسندی ہے اس میں بھی تبدیلیاں لائی جائیں گی اور اقتصادی سرگرمیوں میں خواتین کی شمولیت کی راہ بھی ہموار کی جائے گی۔ کیونکہ سعودی عرب کو ہمیشہ پوری دنیا سے خواتین کے حقوق اور Labor Law کے حوالے سے سخت تنقید کا سامنا رہا ہے۔ غیر ملکی ملازمین کا پاسپورٹ بھی یہاں کفیلوں یا کمپنیوں کے پاس رہتا تھا حکومتی اعلان کے باوجود یہاں کفیل یا کمپنیاں اس پر عمل پیرا ہونے پر تیار نہیں ۔

سعودی عرب میں یہ قانون رائج ہے، جس کے تحت خواتین کو کسی اہم یا پھر انتہائی معمولی سے کام کے لیے بھی گھر سے نکلنے کے لئے کسی مرد کی اجازت درکار ہوتی ہے۔ جیسے  اگر عورت کو کوئی طبی آپریشن کرانا ہے یا پھر اسے ملک سے باہر سفر کرنا ہے تو بھی اسے اپنے خاندان کے مرد کی اجازت درکار ہوتی ہے۔ سعودی عرب میں اپنے خاندان کے علاوہ کسی دوسرے مرد کے ساتھ کسی بھی طرح کا رابطہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے اور ایسا کرنے پر انہیں جیل بھی جانا پڑ سکتا ہے۔ سعودی خواتین کے لیے اپنی پسند سے شادی کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ اس ملک میں اسلامی تحقیق سے متعلق ایک طاقت ور کمیٹی نے فتویٰ جاری کیا ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سنی عورت شیعہ مرد یا کسی مذہب پر یقین نہ رکھنے والے مرد سے  شادی نہیں  کرسکتی۔

اس سال مئی میں سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے سرکاری دفاتر کو حکم دیا تھا کہ وہ خواتین کو مردوں کے اجازت نامے کے بغیر بھی نوکریاں دیں۔ سرکاری سطح پر خواتین کو نوکری حاصل کرنے کے لیے مرد کا اجازت نامہ نہیں چاہیے لیکن سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ کئی دفاتر خواتین کو نوکریاں دینے سے قبل ان کے گھر کے مردوں کی جانب سے اجازت نامہ مانگتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پر عورتوں کو برقعہ یا عبایا پہننا لازمی ہے۔خواتین کے حقوق میں رفتہ رفتہ اضافے کے باوجود ان پر اب بھی بے شمار پابندیاں عائد ہیں۔ سابق سعودی بادشاہ عبداللہ نے سنہ 2005ء میں بلدیاتی انتخابات متعارف کروائے تھے اور انہوں نے ہی طے کیا تھا کہ خواتین کب ان انتخابات میں حصہ لے سکیں گی۔

سن 2013ء میں کچھ خواتین کو کابینہ کے لیے مشاورتی کردار ادا کرنے والی شوریٰ کونسل کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ سعودی معاشرے میں انتخابات میں خواتین کی شمولیت کو عوامی سطح پر بہتر نمائندگی کی  سمت میں ایک بڑا قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ آئندہ بلدیاتی انتخابات میں قریب900  خواتین امیدوار شرکت کر رہی ہیں، جب کہ یہ بھی پہلا موقع ہے کہ خواتین ووٹرز اس سلسلے میں اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گی۔ سعودی عرب میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد اسی سال 12 دسمبر کو ہو رہا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ سعودی عرب میں کابینہ میں کوئی بھی خاتون شامل نہیں۔

گو کہ گزشتہ دن سعودی فرمانروا شاہ سلمان کے شاہی حکم نامے کی صورت میں سامنے آیا ہے اور منگل کی رات اس بابت اطلاعات سعودی سرکاری ٹی وی اور خبر رساں اداروں پر جاری کی گئیں  جس کے تحت سعودی خواتین کو ملک میں گاڑی چلانے کی اجازت تو دے دی ہے لیکن اس کا اطلاق جولائی 2018 سے ہوگا اور اس کی کچھ شرائط بھی ہوں گی۔تاہم یہ تبدیلی خواتین کے حقوق کے حوالے سے بہت سارے مطالبات میں سے ایک بڑی کامیابی ضرور ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ سعودی تاریخ میں خواتین کو صرف گاڑی چلانے پر متعدد مرتبہ شدید سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سنہ 1990ء میں پچاس خواتین کو گاڑی چلانے کے جرم میں حراست میں لے لیا گیا تھا اور ان سے  پاسپورٹ واپس لے لیے گئے تھے۔ اس کے قریب 20 برس بعد ایک خاتون کو سنہ  2011ء میں گاڑی چلانے کے جرم میں دس کوڑے مارنے کی سزا سنائی گئی تھی، جس پر عمل درآمد اس وقت کے سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ نے رکوا دیا تھا۔سنہ 2014ء میں دو سعودی خواتین کو گاڑی چلانے کے جرم میں دو ماہ تک حراست میں رکھا گیا تھا۔ ان میں سے ایک خاتون کے پاس متحدہ عرب امارات کا ڈرائیونگ لائسنس تھا، تاہم سعودی سرحد عبور کرنے کے بعد اسے قانون شکنی کے جرم میں حراست میں لے لیا گیا تھا-

گزشتہ ہفتے سعودیہ  میں ایک اور بڑی تبدیلی یہ دیکھنے کو ملی کہ پہلی مرتبہ خواتین کو کھیلوں کے اسٹیڈیم کے “فیملی سیکشن” میں جا نے کی اجازت دی گئی۔سعودی عرب میں قومی دن کی تقریبات کے موقع پر پہلی بار خواتین کو اجازت ملی ہے کہ وہ اسٹیڈیم میں مردوں کے ساتھ اس دن کی خصوصی تقریبات کو دیکھ سکیں۔ بہت سے لوگوں کے خیال میں یہ بظاہر چھوٹا ساا قدام ہے مگر یہ سعودی بادشاہت میں خواتین کی زیادہ آزادی کی راہ ہموار کرے گا۔

سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی معروف کارکن اور شاہ سعود  یونیورسٹی کی پروفیسر عزیزہ یوسف نے اس حوالے سے کہاکہ ، ’’مجھے انتہائی خوشی ہے۔ یہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک نہایت عمدہ قدم ہے۔‘‘
چند ماہ پہلے ایک پریس کانفرنس میں شہزادہ محمد سے جب یہ پوچھا گیا کہ ان کے منصوبے سعودی ویژن 2030ء کے مطابق ملازمتوں میں خواتین کا حصہ 22 تا 30 فیصد رکھا گیا ہے، تو کیا یہ آگے چل کر خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت کی جانب لے جائے گا؟ تو اس کے جواب میں شہزادہ محمد کا کہنا تھا،”’فی الحال معاشرہ اس کے لیے تیار نہیں اور اس کا منفی اثر پڑے گا۔ مگر ہم یہ بات زور دے کر کہیں گے کہ یہ فیصلہ سعودی معاشرے کو کرنا ہے۔ اس لیے کہ تبدیلی تھوپی نہیں جا سکتی”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

واضح رہے کہ خواتین پر پابندیوں کے اعتبار سے دنیا بھر میں سعودی عرب سرفہرست ہے جب کہ یہ واحد ملک ہے، جہاں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں تھی اس کے علاوہ سفر، شادی یا ملازمت کے لیے بھی خواتین کو ہر حال میں اپنے خاندان کے ارکان کی اجازت درکار ہوتی ہے۔تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے سعودی عرب کی حکومت معاشرتی سطح پر خواتین کے حوالے سے کسی حد تک اصلاحات کرتی بھی دکھائی دیتی ہے۔لیکن سعودی عرب کی موجودہ معاشی اور سیاسی صورتحال کسی بھی صورت اطمینان بخش نہیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply