حقیقت کا ادراک (75)۔۔وہاراامبار

کوانٹم تھیوری کے بانیوں کی بنائی کوانٹم تھیوری ہماری روزمرہ کی زندگی کی فزکس کی سمجھ نہیں تبدیل کرتی لیکن اس نے ہماری روزمرہ زندگی بدل دی ہے۔ اتنی بڑی تبدیلی ہے جتنی صنعتی انقلاب تھا۔ کوانٹم تھیوری کے قوانین انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے پیچھے ہیں جنہوں نے جدید معاشرہ بنایا ہے۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ، سیٹلائیٹ، موبائل فون، اور الیکٹرانکس۔ لیکن جتنا اہم عملی اطلاق ہے، اتنا ہی اہم یہ جاننا ہے کہ کوانٹم تھیوری ہمیں فطرت کے بارے میں اور سائنس کے بارے میں کیا سکھاتی ہے۔

نیوٹونین دنیا کے ورلڈ ویو کی فتح کا وعدہ تھا کہ اگر ہمارے پاس ریاضی کی کیلکولیشن درست ہو تو انسان تمام نیچرل دنیا کی پیشگوئی اور وضاحت کر سکیں گے۔ اور اس نے سائنسدانوں کے لئے ہر شعبے میں امید پیدا کی تھی کہ وہ بھی “نیوٹنائز” ہو سکے۔ بیسویں صدی کے پہلے نصف کے کوانٹم سائنسدانوں نے اس امید پر پانی پھیر دیا۔ اور وہ سچ دریافت کیا جو بیک وقت ہمیں بہت طاقتور بھی بتانا ہے اور بہت ہی عاجز بھی کر دیتا ہے۔ طاقتور اس لئے کہ کوانٹم تھیوری دکھاتی ہے کہ ہم اپنے محسوسات سے کہیں آگے کی ان دیکھی دنیا کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔ اسے بھی قابو کر سکتے ہیں۔ عاجز اس لئے کہ ہزاروں سال کی سائنسدانوں اور فلسفیوں کی پروگریس سے ہمارا خیال تھا کہ ہماری اس دنیا کو سمجھنے کی صلاحیت لامحدود ہے۔ لیکن فطرت ہمیں کوانٹم سائنسدانوں کی ان عظیم دریافتوں کی مدد سے سرگوشی کرتی ہے کہ ہم کتنا جان سکتے ہیں؟ اس کی حدود ہیں۔ ہم کتنا کچھ کنٹرول کر سکتے ہیں؟ اس کی بھی حدود ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ کوانٹم ہمیں یاددہانی کرواتا ہے کہ ان دیکھی دنیائیں موجود ہو سکتی ہیں۔ اور یہ کہ کائنات غیرمعمولی طور پر پرسرار ہے۔ اور معلوم کے افق سے کچھ ہی پرے، نامعلوم فینامینا ہیں جو وضاحت طلب ہیں اور وہ فکر کے نئے انقلاب کا تقاضا کرتے ہیں۔

ہم جسمانی اور ذہنی طور پر طویل سفر کر کے یہاں پہنچے ہیں۔ ہم نے پہچان لیا ہے کہ نیچر پر قوانین کی حکمرانی ہے لیکن یہ قوانین ان سے زیادہ ہیں جو ہماری روزمرہ کی زندگی کا مشاہدہ ہیں۔ اور جیسا ہیملٹ نے ہوریشیو کو کہا تھا، “آسمان و زمین میں اس سے زیادہ چیزیں ہیں جس کا ہمارے فلسفے نے خواب بھی دیکھا ہے”۔

آنے والے وقت میں ہمارا علم بڑھتا رہے گا۔ اور جتنے زیادہ لوگ اب سائنس کر رہے ہیں، یہ معقول خیال ہے کہ ہم امید رکھیں کہ اگلی صدی میں ہم پچھلی صدی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی کریں گے۔ لیکن اگر آپ نے یہ سلسلہ غور سے پڑھا ہے تو پھر جانتے ہوں گے کہ لوگ جو سوال کرتے ہیں، وہ صرف سائنس کے تکنیکی پہلو نہیں ہے۔ ایسا گمان کرنا بھی بالکل غلط ہے۔ ہم، انسان، فطرت میں خوبصورتی دیکھتے ہیں۔ اس میں معنی تلاش کرتے ہیں۔ ہم صرف یہ نہیں جاننا چاہتے کہ کائنات کام کیسے کرتی ہے۔ ہم یہ بھی سمجھنا چاہتے ہیں کہ ہم اس میں کہاں پر فِٹ ہوتے ہیں؟ ہم اپنے محدود وجود کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ اس تناظر کو سمجھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ہم دوسرے انسانوں سے تعلق جوڑنا چاہتے ہیں۔ ان کی خوشی میں، ان کے غم میں۔ اور اس وسیع کائنات سے بھی جس میں ہماری خوشی اور غم بس ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ فطرت اس میں ایک بے نیاز استاد ہے۔ ہم اس سے اور ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کو سکھاتے ہیں۔ یہ فکر کا سفر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(مندرجہ ذیل حصہ ملوڈینو کی کتاب سے کیا گیا ترجمہ ہے)۔

اپنی جگہ پہچاننے کا سفر مشکل ہے۔ لیکن قدیم یونانی ہوں، قرونِ وسطیٰ کے عرب یا نیوٹن اور آئن سٹائن۔ ان کا بنیادی سوال فطرت میں اپنی جگہ پہچاننے کا سوال ہے۔ فزیکل دنیا اور انسانی دنیا میں کنکشن کا سوال میرے لئے ایک روز بہت ہی واضح طور پر سامنے آ گیا۔

یہ ایک عام سا دن تھا۔ میں اپنے کام پر تھا اور اپنے ساتھیوں سے گفتگو ہو رہی تھی۔ اس میٹنگ کے دوران پہلی بار مجھے اس حقیقت کا اتنے صاف انداز میں سامنا ہوا کہ ہم، انسان، فطرت سے بالاتر نہیں۔ گلاب کے پھول یا باغ کی چڑیوں کی طرح ہی ہیں۔ آنے اور چلے جانے والا عارضی وجود۔

مجھے فون کال ٹرانسفر کی گئی۔ دوسری طرف ہسپتال سے فون تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ میرے والد کو سٹروک ہوا ہے اور وہ کوما میں ہیں۔ کچھ وقت کے بعد میں ہسپتال میں تھا۔ شام ہو چکی تھی۔ میں اپنے والد کی طرف نظریں جمائے ہوئے تھا۔ وہ کمر کے بل لیٹے ہوئے تھے۔ ان کی آنکھیں بند تھیں۔ وہ پرسکون لگ رہے تھے۔ میں ان کے پاس بیٹھ گیا اور ان کے بال سہلانے لگا۔ مجھے لگا کہ وہ گرم تھے اور زندہ تھے۔ جیسے کسی بھی وقت اٹھ بیٹھیں گے اور مجھے قریب پا کر مسکرا دیں گے۔ میرا بازو تھپتھپا کر کھانے کا پوچھیں گے۔

میں ان سے باتیں کرتا رہا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں ان سے کتنا پیار کرتا ہوں۔ میرے لئے وہ کتنے اہم ہیں۔ لیکن ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ وہ سو نہیں رہے۔ وہ میری آواز نہیں سن سکتے۔ ان کی دماغ کی ریڈنگ بتاتی ہے کہ وہ تقریباً مردہ ہیں۔ ان کا گرم جسم بس ایک خول ہے۔ اس میں کوئی فنکنشن اب نہیں ہو سکتا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ کچھ دیر میں ان کا بلڈ پریشر گرنے لگے گا۔ ان کی سانس دھیمی ہو جائے گی اور پھر سب ختم ہو جائے گا۔

یہ وہ وقت تھا جب مجھے سائنس زہر لگنے لگی۔ میری خواہش تھی کہ یہ سب غلط ثابت ہو جائے۔ یہ ڈاکٹر اور ان کی سائنس تو میرے والد کو جانتے بھی نہیں۔ انہوں معلوم ہی نہیں کہ یہ کتنے اہم ہیں۔ یہ کون ہوتے ہیں کہ بتائیں کہ ان کی قسمت کیا ہے؟ میں اس وقت کچھ بھی دے سکتا تھا کہ وہ واپس آ سکیں۔ ایک دن کے لئے ہی سہی یا ایک گھنٹہ ہی سہی یا پھر چند منٹ ہی۔ وہ اٹھ بیٹھیں۔ میں انہیں الوداع ہی کہہ سکوں۔ لیکن نہیں ۔۔۔۔ میری شدید ترین خواہش کچھ نہیں بدل سکی۔ بالکل وہی ہوا اور ویسے ہی ہوا جیسا ڈاکٹر نے بتایا تھا۔

ان کی وفات کے بعد ہماری روایات کے مطابق سات روز کا سوگ منایا گیا اور دعا کی گئی۔ اس کمرے میں جہاں ان سے باتیں کیا کرتا تھا، اب وہ بس ایک یاد بن گئے تھے۔ مجھے معلوم تھا کہ اب کبھی وہ وقت واپس نہیں آئے گا۔ وہ اب بس میرے اور ان سے پیار کرنے والوں کے ذہن میں زندہ رہیں گے۔ اور مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ زیادہ سے زیادہ چند دہائیوں کے بعد میرے ساتھ بھی یہی ہو گا۔

اور میرے لئے ایک حوصلہ افزا احساس یہ تھا کہ اس فزیکل دنیا کو سمجھنے کی میری جدوجہد نے مجھے بے حس نہیں بنایا تھا۔ اس نے مجھے طاقت دی تھی۔ اپنی تکلیف سے آگے بڑھ جانے کی ہمت دی تھی۔ اس نے میرے لئے اس کائنات کی اور میرے اپنے وجود کی حیران کن خوبصورتی محسوس کرنے کی آنکھ کھولی تھی۔

میرے والد کالج نہیں گئے تھے۔ ان کے بچپن اور میرے بچپن کی دنیا میں کوئی مماثلت نہیں تھی۔ ہم الگ وقتوں کے انسان تھے۔ لیکن ہم دونوں کا اس دنیا کو جاننے کے تجسس میں کوئی بھی فرق نہیں تھا۔ وہ مجھ سے سوال کیا کرتے تھے۔ میری کہانیاں شوق سے سنتے تھے۔ انہیں بھی یہ سب کچھ جاننے کا شوق تھا۔ ایک روز میں نے ان سے ایک وعدہ کیا تھا۔ میں ان سب کہانیوں کو جمع کر کے ایک کتاب لکھوں گا۔

یہ وہ والی کتاب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملوڈینو تھیورٹیکل فزکس کے Caltech میں پروفیسر ہیں اور کئی مشہور کتابوں کے مصنف۔ انہوں نے دو کتابیں سٹیفن ہاکنگ کے ساتھ لکھی ہیں۔ ان کی ایک کتاب (Upright Thinkers) ان کے اپنے والد سے مکالموں اور سائنسی تاریخ کی کہانیوں پر ہے۔ یہ سیریز اس کتاب سے ماخوذ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply