• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سعودی عرب ریاستی و معاشی جائزہ، ویژن 2030 پر ایک تبصرہ۔منصور ندیم/قسط 1

سعودی عرب ریاستی و معاشی جائزہ، ویژن 2030 پر ایک تبصرہ۔منصور ندیم/قسط 1

سنہء 2017 سعودی عرب کی 83 سالہ تاریخ کا اہم سال۔ خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت, خواتین کا مخلوط پروگراموں میں شمولیت، اور معاشی بحران ۔
سعودی عرب پوری دنیا میں مسلمانوں کے لئے ہمیشہ سے ہی مرکز و محور رہا ہے، آج سے قریب 83 سال قبل سعود خاندان کی بادشاہت کے بعد سے یہاں پر اسلامی قوانین کا سختی سے اجراء کیا گیا ، یہ الگ بات ہے کہ وہ پورے عالم اسلام کے تمام ممالک کے لئے چاہے قابل قبول نہ رہے ہوں لیکن ان کی قبولیت اور پسندیدگی بھی بہت سارے حلقوں کے لئے قابل تقلید رہی ہے۔ 1960ء میں پٹرول نکلنے کی وجہ سے اس ملک نے جس طرح بین الاقوامی طور پر جگہ بنائی اس کی بھی مثال دنیا بھر میں نہیں ملتی، شاید آرامکو کا ادارہ آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ حصص رکھنے والا مہنگا ادارہ ہے اور ان 5 دہائیوں میں اس خطے کے لوگوں کی زندگی جس تیزی سے بدلی اور وسائل اور معاش کے لئے پوری دنیا کے ہنر مند، پڑھے لکھے اور تیسری دنیا کے مزدوروں نے سعودی عرب کا سفر کیا وہ بھی ایک مثال ہے۔

سعودی عرب کا ایک اجمالی جائزہ بحیثیت ریاست:
سعودی عرب کو جہاں ایک خصوصیت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی وجہ سے حاصل ہے، تو دوسری طرف لاکھوں غیر ملکیوں کے لئے یہاں روزگار کا حصول بھی وجہ رہا ہے، ان پانچ دہائیوں میں یہاں کے مقامی لوگوں کا رہن سہن جس تیزی سے تبدیل ہوا ہے، جہاں اس کے فوائد رہے وہاں بہت سارے مضمرات بھی سامنے آئے ہیں۔ یہاں کے عام مقامی لوگوں کا لائف اسٹائل بھی بلا شبہ ترقی یافتہ ممالک سے بہتر ہے، لیکن یہ کلی طور پر اجناس خوردونوش سے لے کر روزمرہ استعمال کی چیزوں اور صنعت سے لے کر عام دکانداری تک غیر ملکیوں کے محتاج ہیں ۔ باوجود اس کے کہ ریاست کی جانب سے جتنی مراعات ایک عام شہری کو ملتی ہیں اس کا تصور یورپی ممالک میں بھی نہیں ہے۔

یہاں دنیا بھر کی جدید ترین گاڑیاں بغیر کسی ڈیوٹی کے امپورٹ کی جاتی ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگوں کو چاہے وہ کسی بھی سطح پر ہنرمند اور پڑھے لکھے نہ بھی ہوں لیکن ریاست نے ان کی کم از کم تنخواہ کا اسکیل بھی لگ بھگ پاکستانی ایک لاکھ روپے مقرر کیا ہوا ہے اور حکومتی سطح پر صرف سعودی شہری اور نجی اداروں کو بھی مخصوص تعداد میں مقامی افراد رکھنے بہت ضروری ہیں اور پڑھے لکھے اور ہنر مند سعودی شہریوں کی تنخواہ بہت ہی اچھے اسکیل پر ہوتی ہے۔ بجلی پٹرول سے پیدا ہوتی ہے ، اور لوڈ شیڈنگ کا کوئی تصور بھی نہیں اور نرخ بھی بہت ہی مناسب ہیں، یہاں کا موسم سال کے 10 مہینے بہت شدید گرم رہتا ہے، ائیرکنڈیشن کے بغیر زندگی کا تصور بھی محال ہے، سعودی عرب کے پاس اپنی کھانے کی کوئی بھی روایتی مقامی ڈش نہیں ہے ، یہاں کی مشہور ڈش مندی اور کھبسہ بھی افغانی اور یمنی کھانے ہیں اور میٹھے کی بھی لا تعداد ڈشز یا تو لبنانی ہیں اور یا یمنی ہیں۔

یہاں کی تمام اسلامی یونیورسٹیاں، اوقاف، اسلامک سنٹر اور مساجد حکومتی انتظام کے تحت چلتے ہیں، اور بلا شبہ اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ ان کا نظم و نسق بہت اعلی ہے۔ یہاں کے تمام اسکول اور کالجز بھی ریاستی انتظام کے تحت ہیں اور یہاں پر تمام طلبا کی تعلیم مفت ہے ، کتابیں اور ماہانہ وظیفہ ، حتی کہ پرائمری اسکول کے بچوں کو بھی جو ماہانہ وظیفہ ملتا ہے۔ (وہ پاکستانی کرنسی میں تقریبا 8000 روپے ماہانہ بنتا ہے)- اسی تناسب سے اسکول کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلبا کو بھی مفت تعلیم اور مراعات دی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ پرائیویٹ انٹرنیشنل اسکول بھی ہیں لیکن وہاں فیس لی جاتی ہے ۔؎

یہاں دو طرح کے ہسپتال ہیں گورنمنٹ اور پرائیویٹ، پرائیویٹ ہسپتال کا علاج بغیر میڈیکل انشورنس کے انتہائی مہنگا ہے، غیر ملکیوں کے لئے یہاں انشورنس کارڈ بنوانا لازمی ہے جس کی بنیاد پر ان کو اصل فیس کے بجائے صرف % 20 ادائیگی کرنا پڑتی ہے اور یہ انشورنس کارڈ مقامی افراد کے لئے بھی ہے ، لیکن حکومتی ہسپتال صرف مقامی شہریوں کے لئے ہیں الا یہ کہ کچھ مخصوص پیشے والے غیر ملکی یہاں پر علاج کروا سکتے ہیں، یہاں فقط 5 ریال فیس ہے اور اس کے بعد مکمل ٹریٹمنٹ، کسی بھی قسم کے ٹیسٹ، Blood test, X- Rays, Ultra Sound, Doctor consultancy, Follow Up , Medicines, سب کچھ شامل ہے، جو یقیناً ایک فلاحی ریاست کا خاصہ ہوتا ہے۔

یہاں کی پولیس کی تنخواہیں اور مراعات بھی بہت معقول ہیں جس کی وجہ سے جرائم اور کرپشن تقریبا نہ ہونے کے برابر ہیں، زنا اور قتل کے مرتکب افراد کا بچنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے اور ریاست خود ایسے کیسز کی سخت پیروی کرتی ہے ، حادثاتی اموات میں دیت کا قانون ہے اور دیت کی ادائیگی میں ریاست اور اہل ثروت یا مقامی فلاحی ادارے مدد کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں کسی بھی قسم کے اور معاملات بھی فریقین کے درمیان پولیس طے کرواتی ہے ، چونکہ یہاں ہر ادارہ دوسرے ادارے سے Inter- connected ہے ، اس لئے ہر چیز ریاست فورا سلجھا لیتی ہے۔

ٹریفک کا نظام بھی کافی اچھا ہے، ایکسیڈنٹ کی صورت میں انشورنس کمپنیاں کلیم ادا کرتی ہیں اور حکومتی ادارہ (نجم) اس کے معاملات کو طے کرتا ہے اور بہت ہی اعلی اور مربوط نظام ہے ، ایکسیڈنٹ کی صورت میں کسی بھی فریق کو آپس میں بحث کرنے کے بجاے نجم کو کال کرنا ہوتی ہے وہ فورا ًکسی بھی قریبی گشت پر موجود گاڑی کو منٹوں میں جائے حادثہ پر بھیج دیتے ہیں اور وہ فریقین کے مابین فیصلہ دے جاتا ہے ۔یہاں ہر دوسرے مقامی شہری کے گھر پر غیر ملکی خدامہ اور ڈرائیور موجود ہیں ۔پٹرول اور بنیادی کھانے پینے کی کئی اشیاء پر حکومت سبسڈی دیتی ہے۔

سعودی عرب میں بھیک مانگنا قانوناً جرم ہے، اس لئے کہ یہاں مملکت کی طرف سے ہر مقامی بچے اور گھریلو عورت کو مناسب وظیفہ دیا جاتا ہے، علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے ریکارڈ کے تحت پوری دنیا میں سب سے زیادہ اگر کسی ملک کی خواتین نوکری کرتی ہیں تو وہ سعودی عرب ہے، لیکن حقیقت میں ایسا ہے کہ یہاں حکومت کے “روزگار نقاطات پروگرام” کی بنیاد پر کہ ہر نجی ادارے کو چونکہ کچھ تناسب میں مقامی سعودی افراد کا رکھنا کافی ہے تو بہت ساری گھریلو خواتین صرف اپنا نام مختلف کمپنیوں میں رجسٹر کروا کر صرف گھر بیٹھے مخصوص تنخواہ لیتی ہیں۔

یہاں ایک خاتون اگر “روزگار نقاطات پروگرام” کے تحت نوکری کرتی ہے تو وہ دو افراد کے برابر سمجھی جاتی ہے اور اگر کوئی معذور آدمی کہیں نوکری کرے تو وہ حقوق میں چار افراد کے برابر سمجھا جاتا ہے اور اگر خاتون معذور ہو تو اس کو 8 افراد کے برابر سمجھا جاتا ہے ، جو یقینا خواتین اور معذور افراد کے لئے ریاست کی طرف سے ایک قابل تحسین اقدام ہے۔انڈسٹریل یونٹ اور انڈسٹری کے فروغ کے لئے حکومت کی طرف سے مقامی افراد کو انڈسٹریل ایریا میں مفت زمین اور آسان قرضے بھی فراہم کئے جاتے ہیں ، گاڑیاں اور رہائشی مکان کے لئے بھی آسان اقساط میں قرضے مل جاتے ہیں ۔

ٹیکسز کا نظام اور ممالک کی برآمدات یا پیداواری اجناس یا صنعت پر مختلف ٹیکسز کے بجاے زکوتہ کی بنیاد پر ہے۔
یہ وہ تمام بنیادی حقوق ہیں جس کی بنیاد پر ایک ریاست یقینا اپنے شہریوں کی بنیادی ضرورتوں کا حقیقتا خیال کرتی ہے۔ لیکن یہ تمام معاملات گزشتہ دو سال پہلے تک صحیح چل رہے تھے لیکن انٹرنیشنل مارکیٹ میں پیٹرول کی گرتی قیمت اور دوسرے انرجی کے وسائل کی دستیابی کی وجہ سے سعودی عرب کی معاشی حالت دن بدن گراوٹ کا شکار ہو رہی ہے۔

سعودی عرب کا معاشی بحران اور سیاسی غلطیاں:
اگر ہم گزشتہ 5 دہائیاں قبل چلے جائیں تو سعودی عرب کی معیشت کو ہم صرف عمرہ اور حج پر آنے والے زائرین کی آمدنی پر ملنے والی معیشت پر دیکھیں گے، حتی کہ یہاں اس وقت مقامی کرنسی بھی نہیں تھی۔ لین دین کے لئے دوسرے ممالک کی کرنسی ہی استعمال ہوتی تھی۔ یہاں کے مقامی قبائل کی زندگی اس وقت تک بالکل ابتدائی زمانہ قرون جیسی ہی تھی۔ مادی ترقی کا کوئی بھی اور کسی بھی سطح پر کوئی ادراک و فہم نہیں تھا۔ مقامی لوگوں کا گزر بسر ماسوائے چند مقامی پھل ، سبزیاں اور اونٹ بکرے کا گوشت اور دودھ ہی تھا۔ 1933 میں پٹرول کی موجودگی کا پتہ چلا، اس وقت تک ایران اور عراق نے بھی New Zealand اور دوسرے مغربی ممالک سے پٹرول نکالنے کے معاہدوں کا آغاز کردیا تھا۔

4 مارچ 1938 کو سعودی عرب کے مشرقی حصے ظہران میں پہلے پٹرول کے کنویں کا آغاز ہوا ، 1940 میں الحساء کے مقام پر دوسرے کنویں کا آغاز ہوا۔ اور باقاعدہ امریکہ اور سعودی عرب کے Joint Venture ادارے Aramco کا قیام ہوا جس نے آنے والے وقت میں پورے خلیج کی تقدیر بدل ڈالی۔ یہ سفر 1940 سے 1960 تک سعودی عرب میں انقلابی تبدیلیاں لاچکا تھا۔ یہاں پینے کے میٹھے پانی کے لئے کنویں کے متبادل ذرائع Water Treatment Plants , ڈیری فارمز ، پولٹری فارمز اور سڑکوں کے جال بچھنے کا آغاز ہوگیا تھا، مقامی سطح پر اسکولوں کا قیام ، جن کے زیادہ تر اساتذہ مصر اور لبنان سے بلواے گئے تھے۔

پھر اگلی مزید 4 دہائیوں تک تو سعودی عرب پوری دنیا کے ہنرمندوں اور مزدوروں کے لئے مرکز نگاہ بن گیا، لق ودق صحرا اور کالے اور ہیبت ناک پہاڑوں کو بہترین شاہراہوں اور بلند وبالا عمارتوں میں بدل دیا گیا۔ چونکہ یہاں بادشاہت کا نظام تھا ملکی وسائل کے سارے وسائل کی ملکیت شاہی خاندان کی تصور کی جاتی ہے۔ انہوں نے مقامی شہریوں کے لئے ملکی وسائل سے وظائف ، ترقی کے مواقع، بنیادی ضروریات زندگی کی اشیاء پر سبسڈی، مفت تعلیم اور مفت علاج جیسے مربوط نظام کی بنیاد ڈالی۔ مقامی شہریوں کی زندگی تو سہل ہوگئی، لیکن ان وسائل کی دستیابی کی وجہ سے سعودی شہری آرام پسند ہوگئے اور عام معاشرتی زندگی کے تمام ہی شعبہ جات کے لئے بیرون ممالک کے ہنرمندوں اور مزدوروں پر انحصار کے عادی ہوگئے۔ مقامی شہری نوکریوں کے معاملات میں صرف ایگزیکٹو نوکریاں یا ایسے کاروبار کرنے کو ترجیح دینے لگے جس کا انحصار غیرملکی مزدورں اور ہنرمندوں پر ہو۔

ریاست نے ہر مقامی شہری کو کسی بھی چھوٹے سے کاروبار کے لئے غیر ملکی ویزوں کا اجراء شروع کر دیا۔ اور رہا سوال شاہی خاندان کا تو ان کی مراعات اور پر تعیش زندگی کے قصوں نے تو پوری دنیا کو ہی ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ شاہی خاندان نے پوری دنیا خصوصا یورپ اور امریکہ میں مہنگی ترین جائیدادیں اور لگژری لائف کی مثالیں قائم کردیں۔مملکت میں موجود تمام فوڈ چینز ، کپڑوں کے برانڈز کی اور دوسرے روز مرہ استعمال کی اشیاء کی ملٹی نیشنل کمپنیاں اور بڑے ہوٹل یہاں کے شاہی خاندان کے افراد کے لائسنس پر چلتے ہیں جس کی وجہ سے ان افراد کو ماہانہ یا سالانہ ایک خاص طے شدہ رقم منافع کی شرح میں سے شاہی خاندان کے افراد کو ادا کرنی ہوتی ہے اور یہی سلسلہ عام شہریوں تک بھی پھیلا ہوا ہے

مملکت میں موجود تمام چھوٹے کاروبار خواہ وہ دکانداری کریانہ اسٹور، پھل سبزی پلمبر و الیکٹرک ، ورکشاپ، مکینک، کارخانہ یا کھانے پینے کے عام ہوٹل ہوں وہ سب یہاں پر غیر ملکی ہی چلاتے ہیں لیکن چونکہ وہ مقامی شہریوں کے نام پر ہوتے ہیں اس وجہ سے ان کو کچھ طے شدہ رقم ماہانہ یا سالانہ ادا کرتے ہیں ۔ مقامی شہریوں کو ویزے کے اجراء کی وجہ سے یہاں ان ویزوں کی خرید وفروخت کا بھی ایک ایسا سلسلہ رہا جس کی وجہ سے مقامی شہری ویزہ بیچنے کے بعد بھی آنے والے غیر ملکیوں سے ماہانہ کفالت لیتے رہے ، ان تمام وجوہات کی بنیاد پر مقامی شہریوں کا انحصار غیر ملکیوں سے ملنے والی کفالت پر انحصار رہا۔یہ سلسلہ 2015 تک ایسے ہی چلتا رہا- چونکہ سعودی عرب نے ریاستی سطح پر ملک کی کی تمام معیشت کو صرف آرامکو کے ہی انحصار پر رکھا، جس کی وجہ سے سعودی عرب پٹرول کے علاوہ کسی درجے میں حج و عمرہ سے ملنے والے زر مبادلہ اور غیر ملکیوں کے اقامہ فیسز کے سوا کسی بھی اور ذریعہ آمدنی کی طرف نہیں جا سکا۔ نہ ہی سعودی عرب صنعت و حرفت یا کسی بھی پیداواری اجناس پر انحصار کر کرنے کے قابل ہے۔

بدلتی دنیا نے انرجی کے متبادل ذرائع اور دوسری دنیا کے مختلف حصوں میں پٹرول نکلنے کی وجہ سے بھی سعودی معیشت کو اچھا خاصا جھٹکا لگا۔ شاہ فہد اور شاہ عبداللہ کے ادوار تک سعودی معیشت ریاستی اخراجات کو کنٹرول کر رہی تھی۔ سعودی عرب دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ممالک میں سے ایک ہے ، پھر مذہبی اور مسلکی اجارہ داری قائم کرنے کے لئے پوری دنیا خصوصاً اسلامی ممالک کی Proxy War کا بھی حصہ بنا رہا۔ اور پٹرول کی آمدنی کو ملک کے اندر جدید تعلیم ، یونیورسٹیوں، ریسرچ سینٹرز ، صنعتی ترقی یا زمینی پیداور کے ذرائع کے منصوبوں کے بجائے یورپی ممالک و امریکہ میں انویسٹمنٹ یا وہاں کے بنکوں میں رکھا۔ مقامی طور پر جبیل اور ینبوع جیسے انڈسٹریل شہر آباد کئے گئے اور مختلف میگا پروجیکٹ شروع کئے گئے یہ تمام پراجیکٹس Oil & Gas Industry سے ہی متصل تھے اور ان کا انحصار کسی نہ کسی صورت آرامکو سے ہی متصل رہا۔ تعمیراتی یا انڈسٹریل سروسز گروپس کا بھی واسطہ آرامکو سے رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

سنہء 2015 کے اواخر میں یمن جنگ کے بعد تمام بڑے پروجیکٹس کے حکومت کی طرف سے اخراجات روک لینے کی بنا پر سعودی عرب کی تمام بڑی پرائیوٹ کمپنیاں شدید خسارے یا دیوالیہ کا شکار ہوگئیں ۔ اس کا اثر نیچے تک آیا اور Sub Contracting اور چھوٹے سپلائرز گروپ یا Organization بھی اس عتاب میں آگئے ۔ یہ سلسلہ پھیلتے پھیلتے دوسرے تمام کھانے پینے اور روزمرہ کے کاروبار پر بھی کمی کی صورت میں اثر پذیر ہونے لگا۔ اور اس وقت سعودی معیشت شدید انحطاط کا شکار ہے۔شاہ عبداللہ کا انتقال رواں برس کے آغاز میں ہو گیا تھا اور ان کے بعد شاہ سلمان کو اقتدار منتقل ہوا ۔ اور شاہ سلمان نے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو ولی عھد نامزد کیا۔ محمد بن سلمان نے ملکی اکانومی کی سنبھالنے کے لئے سعودی وژن 2030ء پیش کیا ہے ۔
جاری ہے۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply