کوئٹہ جلسہ: عوام کی امنگوں کا ترجمان۔۔گوتم حیات

ان تصویروں میں جبری طور پر اٹھائے گئے افراد کی دکھی ماؤں اور نوعمر لڑکیوں کو انہوں نے اپنے سینے سے لگایا ہوا تھا۔۔۔ وہ جبری طور پر گمشدہ افراد کے لواحقین کے غم میں مبتلا اپنے ان ہموطنوں کے ساتھ تھیں جن کے بارے میں ہم وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ آیا وہ زندہ بھی ہیں یا عقوبت خانوں میں اذیتیں سہہ، سہہ کر دم توڑ چکے ہیں۔۔۔ جنوبی ایشیا اور بطورِ خاص پاکستان و ہندوستان میں جبری طور پر اٹھائے جانے والے افراد کا معاملہ دن بہ دن اب شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف ہندوستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں تقریباً دس ہزار کے قریب لوگ ابھی تک لاپتہ ہیں۔

جنرل مشرف کے غیر آئینی دور اقتدار کے عروج میں جب نائن الیون کی وجہ سے انہوں نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف ہونے والی امریکہ کی جنگ میں جھونکا تو لاپتہ افراد کے مسئلے نے جنم لیا، ملک کے اندر کیے جانے والے مختلف ملٹری آپریشنز کے نتیجے میں بہت سے لوگ جبری طور پر اٹھا لیے گئے، وقت گزرتا رہا اور گمشدہ افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ کچھ لوگ واپس اپنے گھروں میں پہنچے لیکن اس حال میں کہ ان کے پیارے ان کو پہچان نہ سکے، کچھ مار دیے گئے اور کچھ تاحال   لاپتہ ہیں۔ مشرف کی آمریت کا سورج غروب ہوا مگر افسوس کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ بڑھتا ہی چلا گیا، عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والی ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی حکومتیں بھی اس مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام رہیں، دراصل ان کی اس ناکامی کی اصل  ذمہ دار وہ طاقتیں تھیں جو عوام کے منتخب نمائندوں کو جیل، جلاوطنی یا پھر سولی پر چڑھا کر ملک میں ایک ایسی فضا قائم کرتی ہیں کہ کوئی کچھ بول نہ سکے۔

لواحقین کے دکھ درد میں ڈوبی ہوئی مریم نواز کا چہرہ بیحد افسردہ تھا، ان کیفیات میں وہ بمشکل ہی اپنے آنسو ضبط کر سکیں۔۔۔ آنسو جو ان کی آنکھوں میں رواں تھے۔ آنسو جو ان کے ارد گرد موجود بدنصیب ماؤں، آدھی بیواؤں اور نو عمر اور کم عمر بچیوں کی آنکھوں سے بھی رواں تھے ،جنہیں وہ کئی مہینوں اور سالوں سے مستقل بہائے چلی جا رہی ہیں۔ اسی لیے تو آج انہوں نے جلسہ گاہ کی اسٹیج پر آکر وہ سب کچھ کہہ دیا جو ہم عوام دہائیوں سے سننا چاہ رہے تھے اور ہم میں سے بہت سے تو یہ سب سننے کی حسرت لیے موت کی تاریکی میں اتر چکے ہیں۔۔۔ لیکن ہم جو ابھی زندہ ہیں اور جمہوریت کی بحالی و بالادستی کو حاصل کرنے کے خواہاں ہیں، پُرامید ہیں کہ آخری فتح ہماری ہی ہو گی۔۔۔ ہم عوام اور ان کے ووٹوں سے منتخب کردہ نمائندوں کی حقیقی فتح۔

یہ بات تو اب سب ہی جان چکے ہیں کہ “پی ڈی ایم” کے حالیہ تینوں جلسوں میں ملک کی بہتر سالہ سیاسی تاریخ کو بغیر کسی مصلحت پسندی کے تقریباً سب ہی سیاسی رہنماؤں نے بیان کر دیا ہے۔ یہ وہ تلخ تاریخ ہے جسے ہماری اشرافیہ نے اسکول و کالج کے منظور شدہ نصابوں سے ہمیشہ دور رکھا ہوا تھا لیکن اب گھر گھر ان جلسوں کی گونج سے ایک نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے، جسے عوام کے حافظے سے کھرچا نہیں جا سکے گا۔۔۔ گوجرانولہ، کراچی اور اب کوئٹہ کے جلسے نے عوام کو یہ باور کروا دیا ہے کہ اس ملک میں اصل طاقت کن فولادی ہاتھوں میں ہے، وہ کس کے ہاتھ ہیں جو اپنی ہی عوام کو بار بار فتح کیے جا رہے ہیں، وہ فرعونی ہاتھ جو معصوم نوجوانوں کو جبری طور پر گمشدہ کر کے انہیں دوسروں کے لیے نشان عبرت بنا دینے میں کسی بھی قسم کی کوئی جھجھک، کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔۔۔ وہ فرعونی ہاتھ جو کبھی اپنے جنگی عزائم کی تکمیل کے لیے امریکی ڈالروں اور سعودی ریالوں کے عوض عوام کو مجاہدین کے غولوں میں ڈھالتے ہیں اور کبھی انہیں دہشت گرد کہہ کر گوانتاناموبے کے بدنام زمانہ عقوبت خانوں میں پہنچا دیتے ہیں ۔۔۔ اور کبھی ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے اندر سیاسی طور پر متحرک معصوم لڑکوں کو جبری طور پر اٹھا کر، انہیں مسخ شدہ لاشوں میں تبدیل کر کے پہاڑوں اور ویرانوں میں گدھوں کی خوراک بننے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

میں سوچتا ہوں کہ وہ گِدھ بھی جب ان مسخ شدہ، لاغر انسانی جسموں پر اپنی چونچ اور پنجے گاڑھتے ہوں گے تو ایک جھٹکے کے ساتھ رک جاتے ہوں گے، کیا وہ واقعی میں رک جاتے ہوں گے۔۔۔؟ ہاں وہ رک جاتے ہوں گے۔۔۔ وہ ان مسخ شدہ, کھنڈر نما انسانی جسموں سے اپنے آپ کو نکال کر، خالی پیٹ انتظار کرتے ہوں گے ان توانا جسموں کا جو اپنی طبعی موت مرتے ہیں۔اس دوران کیا انہیں واقعی میں یہ ادراک ہو جاتا ہو گا کہ جو جسم ان کے سامنے پڑے ہوئے ہیں وہ مسخ شدہ ہیں۔۔۔؟ ہاں کیونکہ گدھ مردار کھاتے ہیں، ایسے مردار جو اپنی طبعی موت مرے ہوں۔۔۔ ہزاروں سال کی ریاضت سے گِدھ باآسانی یہ فہم تو رکھ سکتے ہیں کہ تشدد زدہ، گلے سڑے، نیل زدہ کھوکھلے بدن تو ان کے پیٹ کی آگ کو نہیں بجھا سکتے۔۔۔ تو وہ خالی پیٹ ان مسخ شدہ لاشوں سے دور ہٹ کر ایک ایسی موت کا انتظار کرتے ہیں جو طبعی طور پر واقع ہونے والی ہو۔۔۔

آج اس ملک کی ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں عوام نے سنا، انہوں نے دیکھا کہ جس بچی کے تین بھائی لاپتہ ہیں، اس کو اپنے ساتھ کھڑا کر کے وہ کہہ رہیں تھیں؛
“‏مجھے جیل میں ڈالا، میرے باپ کو قید کیا، میری ماں مر گئی میں نہیں روئی، مگر اس بچی کی داستان سن کر میں رو پڑی۔۔ اس بچی کے تین بھائی ہیں، سوچو کیا گذرتی ہے جب ایک ماں کے تین، تین بیٹے غائب ہوتے ہیں، مرجائے کوئی تو سکون آجاتاہے، لیکن جب آپ کو یہ نہیں معلوم کہ وہ مردہ ہے، وہ زندہ ہیں یا وہ کہاں ہے تو ان ماں باپ اور بہن بھائیوں پر کیا گذرتی ہے، خدا کا خوف کرو ،خدا کے قہر کو آواز نہ دو، ان کی بد دعا میں اور آسمان میں کوئی حجاب نہیں”
سلام ہے مریم نواز شریف پر۔۔۔ ان کے بلند ہوتے ہوئے حوصلے و ہمت پر!

مریم کے الفاظ کی گونج سے جبری طور پر گمشدہ افراد کے لواحقین کے افسردہ، مرجھائے ہوئے ہزاروں چہروں میں امید کی شمعیں یقیناً منور ہوئی ہوں گی۔۔۔ کاش کہ انتظار کی یہ طویل گھڑیاں اب اپنے اختتام کو پہنچیں اور عقوبت خانوں سے ہمارے وہ بدنصیب ہم وطن باہر آ سکیں جو کئی سال بلکہ گزشتہ دو دہائیوں سے روشنیوں سے جبری طور پر محروم کر دیے گئے ہیں۔۔۔
مریم نواز کے حالیہ خطاب نے ایک بار پھر بہادری سے ان غیر جمہوری قوتوں کو للکارا ہے جن کے بوٹوں تلے کروڑوں عوام کی زندگیوں کو روندا گیا اور روندا جا رہا ہے۔۔۔
وہ کہہ رہیں تھیں۔۔
“‏پاکستان کی تقدیر بدلنے کا وقت آگیا ہے، اب یہاں غداری کے سرٹیفیکیٹ نہیں بٹیں گے، ماؤں کے سپوت، بہنوں کے بھائی لاپتہ نہیں ہوں گے۔۔۔ اب عوامی حاکمیت کا سورج طلوع ہونے کو ہے، ووٹ عزت پانے کو ہے، اور ووٹ کو پاؤں تلے روندنے کا سلسلہ بند ہونے کو ہے”
گوجرانولہ اور کراچی کے بعد “پی ڈی ایم، کوئٹہ” کے جلسے نے عوام کی بھرپور طاقت دکھا کر واضح کر دیا ہے کہ لوگ اب اپنے جمہوری حقوق حاصل کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔۔۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مزاحمت کے روشن چراغوں میں ایک اور چراغ کا اضافہ ہو چکا ہے۔۔۔ مریم نواز کی صورت میں یہ چراغ اب کئی بجھے ہوئے یا جبری طور پر بجھائے گئے چراغوں کو روشن کرے گا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں خوش ہونا چاہیے بلکہ پرامید ہونا چاہیے کہ مریم نواز اب اس قافلے میں شامل ہو چکی ہیں جس کی روح رواں بیگم شائستہ اکرام اللہ تھیں۔
بیگم شائستہ اکرام اللہ سے مریم نواز شریف تک کا یہ سفر نہایت دشوار، خاردار تاروں میں الجھا ہوا اور کٹھن ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں ہے ۔۔۔ اور یہ سفر ابھی جاری ہے۔۔۔ مریم نواز نے موجودہ کٹھن حالات میں جس جرات مندانہ موقف کو اپنایا ہے وہ قابلِ تحسین اور داد کے مستحق ہے۔
سلام مریم نواز!

Facebook Comments