• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • چھ استعماری ہتھکنڈے(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔نذر حافی

چھ استعماری ہتھکنڈے(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔نذر حافی

پانچواں ہتھکنڈہ:
سیکولر اور دینی قوتوں کا گٹھ جوڑ
آج استعمار نے اپنے مختلف ہتھکنڈوں اور حربوں کے ذریعے پورے عالمِ اسلام کو چاروں شانے چِت کر دیا ہے۔ اس وقت اگر استعمار کے خلاف کوئی اسلامی ملک حقیقی معنوں میں بلاک تشکیل دیتا ہے، اقوام کی آزادی اور خود مختاری کی بات کرتا ہے اور یا پھر مساوی انسانی حقوق کیلئے جدوجہد کرتا ہے تو وہ اس وقت صرف اور صرف اکیلا ایران ہی ہے۔ اس موقع پر ہم رجب طیب اردگان اور ترکی کے متاثرین کو ایک مرتبہ پھر غیر جانبدارانہ دعوتِ فکر اور دعوتِ تحقیق دیتے ہیں، وہ جذبات و عقیدت کے بجائے ترکی، مغرب اور اسرائیل کے موجودہ و قدیمی تعلقات کا تحقیقی جائزہ لیں۔ تحقیق سے ہی انہیں اردگان اور ترکی کی حقیقت کا پتہ چلے گا۔ اس دور میں مذکورہ بالا چار طریقوں کے ساتھ ساتھ پانچواں طریقہ واردات بھی زیرِ استعمال ہے۔ آیئے پانچویں طریقہ واردات کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔

یہ مقولہ واقعی سچ ہے، آپ نے بھی سنا ہی ہوگا، کہتے ہیں کہ جب تک بیوقوف موجود ہے، تب تک عقل مند بھوکا نہیں مرے گا۔ استعمار نے طولِ تاریخ میں ہمیشہ اپنے مفادات کیلئے بیوقوف مسلمانوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال افغان جہاد ہے۔ یورپ، ضیاء الحق اور سعودی تھنک ٹینکس کے پرچم کے نیچے لبرل عناصر اور دینی شدت پسند مولویوں کا جو مشترکہ محاذ تشکیل دیا گیا تھا، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس محاذ سے ایک طرف نظامِ مصطفٰیﷺ کا اعلان کرکے ہمارے مذہبی حلقوں کو خوش کیا جاتا رہا اور دوسری طرف مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں گلے کاٹنے کا کام لیا گیا۔ دی ورلڈ میگزین کے ایک تجزیہ کار نے 6 نومبر 2018ء کو اپنے تجزیے میں لکھا تھا کہ پاکستان میں حال ہی میں قتل ہونے والا سمیع الحق اس چنگاری کو روشن کرنے میں اپنے کردار کے لئے بڑے پیمانے پر مشہور تھا، جس نے افغانستان میں سوویتوں کے خلاف شورش کو متحد کیا تھا۔ اس کے اثر و رسوخ نے اس شورش کو “اسلامی فریضے” میں تبدیل کر دیا تھا۔

وہ لکھتے ہیں کہ 1980ء کی دہائی میں، سمیع الحق کے دارالعلوم حقانیہ نے، افغان جنگ کو ایک مقدس رنگ و نسل عطا کرنے کیلئے، دینی تعلیم دینے والے مختلف مدارس کی قیادت اپنے ذمہ لی۔ حقانی مدرسے اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کے اشتراک کے عمل کو انہی کے جملوں سے سمجھنے کی کوشش کیجئے: Haq’s message found resonance with Pakistan’s military establishment, where his namesake, Pakistan’s then ruler General Zia ul Haq – found ‘jihad’ as the right message to win the war. اسی طرح امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے یہ اعتراف کیا تھا کہ وہابیت دراصل ہمارے مغربی دوستوں کی ضرورت تھی، انہوں نے کہا کہ وہابیت پھیلانے کیلئے ہمیں امریکہ اور یورپ نے کہا تھا۔ ہم نے ان کے کہنے پر مختلف ملکوں میں وہابیت کی تبلیغ کیلئے مساجد اور مدارس کی تعمیر پر سرمایہ لگایا۔ اسی طرح آج بھی ہمارے ملک میں لبرل و سیکولر عناصر دینی قوتوں کے ساتھ مل کر عوام کے لسانی، علاقائی و دینی جذبات کو ابھارتے ہیں اور اپنے اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں۔ ایسے میں عوام کو اشتعال کے بجائے تجزیہ و تحلیل کی طرف راغب کرنا بہت ضروری ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے استعمار کے چھٹے حربے یا ہتھکنڈے کے بارے میں بھی جان لیجیئے۔

چھٹا ہتھکنڈہ:
عامیانہ رویہ
چھٹے طریقہ واردات یعنی عامیانہ رویئے کو سمجھنے کیلئے اس مثال کو سمجھئے، مثال کے طور پر ایک سکول میں ایک بچہ بہت جھگڑالو ہو اور سکول میں ہر روز گالی گلوچ کرتا ہو، حد سے زیادہ چڑچڑا ہو، جس پر بعض استاد یہ کہیں کہ یہ بچہ اس لئے گالیاں دیتا اور لڑتا ہے کہ دوسرے بچے بھی اسے تنگ کرتے ہیں، یہ ایک عامیانہ سوچ اور سطحی نظر ہے، لیکن اگر کوئی استاد اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے اس بچے کو کسی ماہر نفسیات کے پاس لے جائے اور ماہر نفسیات اس کے بارے میں ساری معلومات لینے کے بعد یہ کہے کہ اصلی مسئلہ اس بچے کا نہیں ہے بلکہ اس ماحول اور گھر کا ہے، جس میں یہ رہتا ہے، لہذا اس کے ماں باپ کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ اس پر اگر کوئی شخص ڈاکٹر سے یہ کہے کہ کیا آپ اس کے ماں باپ کا نام بتا سکتے ہیں؟ ہم اس کے ماں باپ کو جانتے ہیں، وہ تو بڑے اچھے لوگ ہیں۔۔۔ اس کے بعد ڈاکٹر کے پاس مزید بحث کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔ یہی چھٹا ہتھکنڈہ ہے، جس کے مطابق سمجھدار اور دانشور حضرات کے تجزیہ و تحلیل اور تحقیقات کے مقابلے میں اہم مسائل کے بارے میں سطحی اور عامیانہ باتیں پھیلائی جاتی ہیں اور حوصلہ شکنی، دھمکیوں، ٹارگٹ کلنگ جیسی چالوں سے تجزیہ و تحلیل کرنے والی آوازوں کو خاموش کرا دیا جاتا ہے۔

اس بات کو ایک اور مثال سے بھی سمجھئے۔ مسلمانوں کے درمیان تنازعات، لڑائی جھگڑوں، تکفیری گروہوں اور شدت پسند ٹولوں کی تشکیل کے بارے میں بھی دو رائے پائی جاتی ہیں۔ ایک عامیانہ اور سطحی رائے ہے کہ جس کے مطابق چونکہ ایک فرقے کے لوگ گالیاں دیتے تھے، دوسروں کے مقدسات کی توہین کرتے تھے، لہذا دوسرے نے بھی جوابی کارروائی شروع کی، جس سے شدت پسندی اور تکفیریت نے جنم لیا جبکہ اس کے مقابلے میں ایک دوسری رائے پائی جاتی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اس شدت پسندی اور تکفیریت کا تعلق امریکہ و برطانیہ سمیت پاکستان و اسلام دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیوں سے پایا جاتا ہے۔ ان خفیہ ایجنسیوں میں وہ خواہ سی آئی اے، موساد، را، ایم آئی سکس اور ایم آئی فائیو وغیرہ میں سے جو بھی ہو، ان میں مسلمانوں کو مسلمانوں لڑوانے نیز مسلمانوں کو غیر مسلمانوں سے لڑوانے اور مسلمانوں میں شدت پسندی کو فروغ دینے کے لئے مخصوص شعبے اور ماہرین موجود ہیں، یہ ادارے ہر وقت سرگرم رہتے ہیں۔ اللہ یاری اور یاسر الحبیب جیسے مولویوں نیز غالی ذاکروں کے دشمنوں کی خفیہ ایجنسیوں کے آلہ کار ہونے میں کسی کو کیا شک ہوسکتا ہے۔ سطحی اور عامیانہ طرز تفکر کے بارے میں ہم ذیل میں چند تاریخی مستندات و حقائق کو بھی بعنوان ِمثال پیش کر رہے ہیں۔

چند تاریخی مستندات:
1۔ سعودی عرب و امریکہ کے تعلقات
ہم آپ کو ایک اور واضح مثال دیتے ہیں، یہ مثال سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات کی ہے۔ استعماری کے پالکوں نے رائے مشہور کر رکھی ہے کہ ایران کے انقلاب کی وجہ سے سعودی عرب مجبور ہے کہ وہ امریکہ سے تعلقات مضبوط رکھے، جبکہ ان تعلقات کی حقیقت کو سمجھنے کیلئے ان کی تاریخ کو جاننا ضروری ہے۔ آپ “جان فیلبی” (John Fillby) جو کہ اپنے دور کا معروف مستشرق تھا، اسی کے بارے میں مطالعہ کرکے دیکھ لیں کہ اس نے کس طرح سے سعودی عرب کو امریکہ کے چنگل میں پھنسایا۔ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کے بارے میں ایک سطحی اور عامیانہ سوچ یہ ہے کہ ایران کے خوف کی وجہ سے امریکہ اور سعودی عرب آپس میں متحد ہیں، جبکہ ان تعلقات کا تاریخی پسِ منظر یہ ہے کہ 1930ء میں امریکہ نے جان فیلبی کو خریدا۔ جان فیلبی اس سے پہلے برطانیہ کے لئے کام کرتا تھا، یہ کئی کتابوں کا مصنف اور ایک نامور محقق تھا، اس نے ابتدائی طور پر تیل نکالنے والی ایک امریکی کمپنی میں مشاور کی حیثیت سے کام شروع کیا اور خاندان سعود سے دیرینہ تعلقات کی بنا پر سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تیل نکالنے کا ایک بڑا منصوبہ منظور کروایا، جس سے برطانیہ کی بالادستی کو دھچکا لگا اور خطّے میں امریکی استعمار کی دھاک بیٹھ گئی۔ یہ شخص تقریباً 35 سال تک سعودی عرب میں ابن سعود کا مشیر رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ و سعودی عرب دونوں اپنے تعلقات کے سلسلے میں جان فیلبی کی خدمات کے معترف ہیں، امریکہ و سعودی عرب کے تعلقات ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد کی پیداوار نہیں بلکہ یہ جان فیلبی کے زمانے سے چلتے آرہے ہیں۔

2۔ پاکستان میں دہشتگردی
اسی طرح پاکستان میں سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور طالبان وغیرہ کے بارے میں ایک سطحی نگاہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے مسالک کو نافذ کرنے کے لئے ہتھیار اٹھا لئے جبکہ اس کا تاریخی پسِ منظر یہ ہے کہ 1979ء میں ایک طرف سے روسی استعمار افغانستان میں داخل ہوچکا تھا اور دوسری طرف ایران میں امریکہ مخالف انقلاب کامیاب ہوگیا تھا۔ ان دونوں خطرات سے نمٹنے کے لئے سی آئے اے نے ایک طرف سپاہ صحابہ جیسے گروہوں کی اور دوسری طرف طالبان جیسے لشکروں کی بنیاد ڈالی۔ یہی وجہ ہے کہ سپاہ صحابہ نے صرف شیعوں کو قتل نہیں کیا بلکہ پاکستان میں متعدد ایرانیوں کو بھی نشانہ بنایا۔ سپاہِ صحابہ کو پاکستان میں ایران کا راستہ روکنے کا ہدف دیا گیا تھا اور طالبان کو افغانستان سے روس کو نکالنے کا۔ بعد میں جتنے بھی دہشت گرد گروپ بنے، وہ انہی کے کیمپوں کی پیداوار ہیں۔ سی آئی اے کے وہ ماہرین جنہوں نے اس سلسلے میں کام کیا اور پاکستان کی ایجنسیوں کو بھی اپنے اہداف کے حصول کے لئے اعتماد میں لیا، ان کی مختصر جھلک ان چند سطور میں دیکھی جا سکتی ہے:
Assuming the presidency in 1978, Zia played a major role in the Soviet–Afghan War. Backed by the United States and Saudi Arabia, Zia systematically coordinated the Afghan mujahideen against the Soviet occupation throughout the۱۹۸۰In his first speech to the nation, Zia pledged the government would work to create a true Islamic society.

3۔ بابری مسجد
اسکے بعد ہندوستان میں چلتے ہیں، مثال کے طور پر ہندوستان میں بابری مسجد کے مسئلے کو لیجئے، اس پر سطحی اور عامیانہ نگاہ یہ ہے کہ یہ پہلے ہندووں کا مندر تھا، جسے مسلمانوں نے مسجد بنا دیا اور اب ہندو دوبارہ اسے مندر بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن اگر آپ اس پر تحقیقی نگاہ ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس مسئلے کا آغاز ایچ او نوبل نامی مستشرق کی اس تحریر سے ہوا، جو اس نے 1885ء میں لکھی کہ بابری مسجد پہلے ہندوں کا بت خانہ یعنی ایک مندر تھا۔ اسی سال ہندووں نے اس مسئلے کو اٹھایا اور ہندووں نے پہلی مرتبہ یہ دعویٰ کیا کہ اس مسجد کے باہر رام کی جنم بھومی یعنی پیدائش کی جگہ ہے۔ اسی سال فسادات شروع ہوئے اور 75 مسلمان شہید ہوئے۔ یہ سلسلہ عدالتوں اور جھگڑوں کی صورت میں چلتا رہا اور 1949ء میں اس مسجد کو بند کروا دیا گیا اور چالیس سال تک یہ مسجد متنازعہ رہی اور اس تنازعے میں ہزاروں انسان مارے گئے۔

استعماری کارندوں کی فعالیت کو مزید سمجھنے کیلئے ایک طائرانہ نگاہ جاسوس مستشرقین پر بھی ڈالتے ہیں، ان کا کام مسلمانوں کے اہم مقامات، معدنی ذخائر، جنگی نظریات و طریقہ کار، باہمی روابط نیز مختلف اسلامی فرقوں کے اختلافات کو ڈھونڈنا، ان کی معلومات کو قلمبند کرنا اور کسی مسلمان ملک سے جنگ ہونے کی صورت میں درست اعداد و شمار کے ساتھ اپنی حکومتوں کی بروقت رہنمائی کرنا تھا۔ مستشرقین کی فراہم کردہ معلومات کے باعث ہی اس وقت بھی اسلامی ممالک کے معدنی ذخائر کو نکالنے کی قراردادیں غیر مسلم ممالک سے بندھی ہوئی ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کے خلاف جنگیں بھی مستشرقین کے نقشے کے مطابق لڑی جاتی تھیں، مثلاً آج بھی ہم میں سے کتنوں کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ صلیبی جنگوں کی تعداد کتنی ہے اور یہ کتنا عرصہ لڑی گئیں اور ان میں مستشرقین کا کیا کردار تھا۔؟

مستشرق جاسوسوں پر ایک اجمالی نگاہ:
حوزہ علمیہ قم سے تعلق رکھنے والے مسلمان محقیقین کے ایک تحقیقی گروہ کے مطابق مستشرقینِ سیاسی و استعماری میں سرِفہرست لارنس آف عریبیہ کا نام آتا ہے۔ ملاحظہ فرمایئے کتاب شرق شناسی و اسلام شناسی غربیان، صفحہ 207 تا 214۔ ان سات صفحات میں بطورِ نمونہ سولہ ایسے مستشرق جاسوسوں کا تعارف کروایا گیا ہے کہ جنہوں نے جہانِ اسلام کا نقشہ تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب ہم بھی آپ کے سامنے اس وقت صرف تین مستشرق جاسوسوں اور ان کے طریقہ واردات کا ذکر کرتے ہیں، تاکہ آپ کو مستشرقین سیاسی و استعماری کی فعالیت کا قدرے اندازہ ہوسکے۔

1۔ لارنس آف عریبیہ
لارنس آف عریبیہ کا مکمل نام تھامس ایڈورڈ لارنس تھا، مارچ 1916ء میں جب دجلہ کے ساحل پر برطانوی فوج کو ترکوں سے دندان شکن شکست ہوئی تو انگریزوں نے خلافت عثمانیہ سے میدان جنگ میں لڑنے کے بجائے مسلمانوں کو آپس میں لڑاو اور ان پر حکومت کرو کا منصوبہ تیار کیا۔ اس منصوبے کو عملی کرنے کی ذمہ داری تھامس ایڈورڈ لارنس کو سونپی گئی۔ خلاصہ تحقیقات یہ ہے کہ لارنس نے ترک خلافت کے خلاف عربوں میں نفرت کو ابھارنے کے لئے اس نظریئے کو عام کیا کہ عرب عربوں کے لئے ہے۔ اس نے اس مقصد کے لئے حاکم مکہ شریف حسین اور اس کے بیٹوں کو مرکزی حکومت کے خلاف اکسایا کہ وہ ترکوں کے ساتھ ٹکرانے کے لئے عرب قبائل سے مخفیانہ بیعت لیں۔ اس مقصد کے لئے اس نے خوب رقم خرچ کی اور اس کے نقشے کے مطابق کچھ ہی عرصے میں عرب قبائل ترکوں کی خلافت کے خلاف کمر بستہ ہوگئے۔

پہلی جنگِ عظیم 28 جولائی 1914ء سے 11 نومبر 1918ء تک جاری رہی۔ 14 جولائی 1915ء کو اہلِ عرب، قوم پرستی کو لے کر ترکوں کے خلاف کھلے عام باغی ہوگئے۔ اس بغاوت میں حاکم مکہ شریف حسین اور نجد کے حکمرانوں یعنی آل سعود نے نمایاں کردار ادا کیا۔ جس کے بعد عرب مناطق ترکوں کے ہاتھ سے نکلتے چلے گئے۔ جس طرح لارنس آف عریبیہ حاکم مکہ کی مدیریت کر رہا تھا، اسی طرح جان فیلبی نجد کے حکمرانوں (آل سعود) کی سرپرستی کرنے میں مشغول تھا۔ جب 1918ء میں پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا تو سلطنت عثمانیہ بھی روبہ زوال تھی۔ بالآخر کمال اتاترک نے 3 مارچ 1924ء کو خلافت عثمانیہ کو بالکل ختم کرنے کا اعلان کر دیا، خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد آل سعود نے حاکم مکہ سے بھی سلطنت چھین لی، یوں وقت کے ساتھ ساتھ عرب بھی اور ترکی بھی مزید چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر ہمیشہ کے لئے اہلِ مغرب اور امریکہ کے محتاج ہوکر رہ گئے۔ عثمانی خلافت کے خاتمے کے بعد لارنس آف عریبیہ واپس برطانیہ چلا گیا اور اس نے وہاں جا کر اپنے تجربات کی روشنی میں درس و تدریس اور نئے افراد کی تربیت کا کام شروع کر دیا، جو کہ اس کی موت تک جاری رہا۔

2۔ جان فیلبی
جان فیلبی، ایک برطانوی لکھاری، محقق اور مشاور تھا، اس نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے اور حرمین شریفین پر آل سعود کے قبضے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ شاہ عبدالعزیز اپنے تمام امور میں اس سے مشورہ کرتا تھا، جان فیلبی کا کہنا ہے کہ میں شاہ عبدالعزیز کی زندگی کے چھتیس سال اس کے ہمراہ رہا اور اس کی زندگی کے آخری تئیس سالوں میں ہمیشہ اس کے ہمراہ رہا اور ہمارا تعلق کبھی منقطع نہیں ہوا۔
3۔ کارل ہینرش بیکر
یہ ایک جرمنی کا مستشرق جاسوس تھا، جو کہ جرمنی میں مجلۃ الاسلام کا بانی بھی تھا۔ یہ استعماری منصوبہ سازی میں جرمنی کا خادم تھا، ۱۸۸۵-۸۶ میں اسے افریقہ پر جرمنی کے تسلط کو قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی، اس نے اپنے نقشے کے مطابق افریقہ کے اسلامی ممالک کو اس طرح جرمنی میں ضم کیا کہ 1918ء تک وہاں جرمنی کا تسلط قائم رہا۔ اب آیئے صرف تحقیق کرنے والے مستشرقین کی بات کرتے ہیں، تو انہوں نے بھی مختلف زبانوں میں قرآن و حدیث کے ترجمے کئے اور اسلامی عقائد کو متعارف کروایا، اس کے ساتھ ساتھ کئی مستشرق مسلمان بھی ہوئے، لیکن زیادہ تر نے مذہبی تعصب کی بنا پر قرآن و حدیث کا اپنی زبانوں میں ترجمہ کرتے ہوئے، قرآن و حدیث پر اشکالات وارد کئے اور ساتھ ہی مسلمانوں کے عقائد کی غلط تبیین کی، تاکہ لوگ اسلام کو قبول کرنے کے بجائے، اسلام سے متنفر ہونے لگیں۔

خلاصہ
دوست اور دشمن کی شناخت بہت ضروری ہے۔ حقائق پر پردہ ڈالنا دراصل عقل پر پردہ ڈالنا ہے۔ عقل پر پردہ ڈال کر اقوام کے درمیان عزت و سربلندی کے ساتھ نہیں جیا جا سکتا۔ ترقی اور سربلندی کے زینے وہی اقوام طے کرتی ہیں، جو دوست اور دشمن، کھرے اور کھوٹے، اپنے اور پرائے نیز درست اور غلط کو اچھی طرح سمجھتی ہیں۔ استعماری عناصر نے آج اسلامی دنیا کو کرائے کے قاتلوں کے ساتھ لڑائی میں مصروف کیا ہوا ہے۔ اگر کوئی اسلامی دنیا کے پسِ پردہ محرکات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتا ہے تو استعماری لے پالکوں کی طرف سے اُس پر نیوٹرل اور غیر جانبدار رہنے کیلئے دباو ڈالا جاتا ہے۔ ہر باشعور آدمی یہ سمجھتا ہے کہ ظالم کے مقابلے میں نیوٹرل ہو جانا دراصل ظالم کی ہی حمایت ہے، لیکن نام نہاد لبرلز نے ظالم کی حمایت کا نام ہی نیوٹرل ہونا رکھ دیا ہے۔ یہ استعماری لے پالک آج سمجھدار لوگوں کو نیوٹرل کرکے اسلام کی شکل کو بگاڑ کر پیش کر رہے ہیں، مسلمانوں میں فرقہ واریت کو زندہ رکھنے کیلئے پرانے و تاریخی مسائل پر یکطرفہ طور پر مبنی کتابیں اور مقالات لکھنے کے ساتھ ساتھ طالبان، القاعدہ، داعش، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی جیسے دہشت گرد گروہوں کو تشکیل دے کر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کر رہے ہیں۔

کچھ کام لبرل ازم اور سیکولر حلقے کے نام پر ہو رہا ہے اور کچھ کام دین کے لبادے میں شدت پسند خطیبوں، اماموں، امیروں، قاضیوں، پیروں، مفتیوں اور مولویوں کے ذریعے انجام پا رہا ہے۔ یوں روشن فکری و دین دوستی کے نام پر دونوں محاذوں سے مسلمانوں کے خلاف سازشیں جاری ہیں۔ جب تک جہانِ اسلام کی شعوری سطح بلند نہیں کی جاتی اور مسلمانوں کی سادہ دلی کے مرض کا درمان نہیں کیا جاتا، تب تک امت مسلمہ کو وحدت کی لڑی میں نہیں پرویا جا سکتا، تب تک آمریت کی آغوش میں جمہوریت سوتی رہے گی، ہمارے اقتصادی، سفارتی، سیاسی و عسکری فیصلے مغرب کی ایما پر ہوتے رہیں گے، مجاہدین کے نام پر دہشت گرد پروان چڑھتے رہیں گے، خودکش حملے ہوتے رہیں گے اور ملکی و قومی املاک جلتی رہیں گی۔ چنانچہ اس وقت ہمیں استعمار کے قدیم و جدید لے پالکوں کی شناخت اور طریقہ واردات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ آج ہر مسلمان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سچائی کی حمایت کے بجائے نیوٹرل رہنا، دشمن کی شناخت کے بجائے مغرب کی پرستش، مسلمانوں کو متحد کرنے کے بجائے امریکہ کی جی حضوری نیز فتووں، تکفیر اور ایک دوسرے کی اہانت و توہین، ان میں سے کوئی بھی راستہ کامیابی اور سعادت کی منزل کی طرف نہیں جاتا۔ ہمیں عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے اور عقل کی غذا علم اور تحقیق ہے۔ عقل کا تقاضا برادرکُشی نہیں بلکہ دشمن شناسی ہے۔ استعمار کی چھتری کے نیچے بہت سارے دینی رہنماء، روشن فکر اور مستشرقین مل کر جہانِ اسلام کی وحدت اور اتحاد کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ ان کو پہچاننا، ان کے طریقہ وارادت کو سمجھنا اور ان کے مقابلے کیلئے سوچ و بچار کرنا وقت کا تقاضا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع

Advertisements
julia rana solicitors london

1.Australian Journal of International Affairs،Pakistan at war with itself،Ashok K. Behuria
2. Bonaparte and Islam, Creston Charfs,publisher, Guadalquivir Ediciones (January 1, 2002)
3. Encyclopedia of Islam and the Muslim World، Richard C. Martin، publisher: Macmillan Reference USA, a part of Gale, Cengage Learning, 2016
4. NEWS18-Urdu،First published: Jan 23, 2017 03:14 PM IST
5. The Washington Post
6. trtworld /magazine/who-was-the-father-of-the-taliban
7. Voice of Nation
8. Wynbrandt, James (2009). A Brief History of Pakistan.
9. اسکندری، مصطفیٰ، شناخت استعمار، مرکز بین المللی ترجمه و نشر المصطفیٰ قم
10. آئی این پی نیوز ایجنسی۔ 21 مئی2017ء
11. زمانی، محمد حسن، شرق شناسی و اسلام شناسی غربیان، بوستان کتاب قم، 1389
12. زمانی، محمد حسن، مستشرقان و قرآن، بوستان کتاب قم، 1389
13. سعید، محمد علی، بریطانیا و ابن سعود: العلاقات السیاسیة و تأثیرها علی المشکلة الفلسطینیة،ناشر: Organisation De Propagation Islamique …
14. صبری فالح الحمدیج، ون فیلبی و البلاد العربیة السعودیة فی عهد الملک عبد العزیز بن سعود، كتابخانه دانشگاه قرآن و حديث (پردیس تهران)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply