سندھ میں سیرت نگاری۔۔محمد احمد

وادی ء مہران کو جس طرح سب سے پہلے قرآن پاک کے ترجمے کا اعزاز حاصل ہے، اسی طرح فنِ سیرت نگاری میں بھی علما سندھ کا بڑا حصہ ہے۔جب فنِ  سیرت مدون ہورہا تھا تو سندھ کے عظیم سپوت ابو معشر نجیح بن عبدالرحمٰن السندی نے اس فن میں کتاب لکھی، آپ ان کی عظمت کا اندازہ لگائیے۔سندھ اور علما  سندھ کی علمی حیثیت دیکھیں، فن ِ سیرت کی تدوین کا سہرا علمِ  حدیث کی تدوین کی طرح حضرت عمر بن العزیز کے سر ہے۔ انہوں نے جس طرح حدیث مرتب کرائی اور اسی طرح سیرت کی طرف بھی توجہ دی اور اپنی ذاتی دلچسپی اور علمی ذوق کی وجہ یہ خدمت بھی سرانجام دی ،ایک طرف فن ِ سیرت کی حفاظت کی خاطر عاصم بن عمر کو حکم دیا کہ وہ دمشق کی جامع مسجد میں سیرت کا درس دیں اور دوسری جانب فن کو باضابطہ طور پر مدون کرنے کے لیے امام محمد بن شہاب الزہری کو مغازی پر کتاب لکھنے کا حکم دیا۔ امام زہری جس طرح حدیث کے امام تھے اسی طرح وہ سیرت اور مغازی کے بھی بڑے ماہر تھے۔ علامہ سہیلی لکھتے ہیں کہ: “اول من صنف فی المغازي الإمام الزھری” یعنی  مغازی میں جس نے سب سے پہلے تصنیف کی وہ امام زہری ہیں۔

امام زہری بڑے بڑے محدثین کے استاد تھے، ان کے شاگردوں میں سیر اور مغازی کے اماموں محمد بن عقبہ اور محمد بن اسحاق کا بھی شمار ہوتا ہے۔

امام زہری کی کتاب کو اگرچہ الگ وجود نہیں مل سکا ۔اس وجہ سے  حاجی خلیفہ چلپے لکھتے ہیں کہ “اوّل ماصنف فیہ الإمام المعروف بمحمد بن اسحاق رئيس اھل المغازی”۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مغازی میں پہلی کتاب محمد بن اسحاق نے تصنیف کی ہے۔ اور ان ہی کو سیرت کا امام مانا جاتا ہے۔

اس تحقیق سے یہ بات معلوم ہوئی  کہ سیرت نگاری کی تدوین دو ہجری میں ہوئی ہے۔ یہ تحقیق محقق العصر مولانا غلام مصطفی قاسمی نے اپنے مضمون” علم سیرت جی اوسر ،ارتقا سنڌ ۾” میں پیش کی ہے۔ (البتہ معروف سیرت نگار اور محقق سید عزیز الرحمٰن صاحب نے یہ تحقیق پیش فرمائی ہے کہ سب سے پہلی کتاب یا تو عروہ بن زبیر کی ہے یا ابان بن عثمان کی۔ دونوں معاصر ہیں۔۔عروہ زبیر پہلی صدی میں 94 میں وفات پا تے ہیں،اور ابان بن کا وفات 105ہجری ہے۔

اس لیے یہ بات کہنا درست نہیں کہ سیرت کی تدوین دوسری صدی میں شروع ہوئی۔البتہ ان دونوں حضرات کی کتب اسی طرح موجود نہیں جس طرح ابن شہاب زہری کی بھی اصل شکل میں ہم تک نہیں پہنچ سکی)۔

جب یہ فن مدون ہورہا تھا اور اپنی ترتیب و تدوین کے مراحل میں تھا، اسی دور میں سندھ کے عظیم سپوت امام ابو معشر نجیح بن عبدالرحمٰن السندی نے بھی سیرت میں ایک کتاب تصنیف فرمائی جن کو “امام السیر والمغازی” کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ واقدی جیسے مشہور مؤرخ ان کے تلمیذ رشید تھے۔
جن کے بارے میں خطیب بغدادی لکھتے ہیں “وکان من اعلم الناس بالمغازی” یعنے وہ مغازی کے بڑے عالم تھے۔
یہ کسی سندھی عالم کی سیرت پر پہلی کتاب تھی جو سن دو ہجری میں لکھی گئی لیکن اس وقت ناپید ہے۔

اس کے بعد سن تین ہجری میں امام ابو جعفر محمد بن ابراہیم بن عبداللہ دیبلی “مکاتیب النبی صلی اللہ علیہ وسلم” رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت و تبلیغ کے حوالے سے جو مختلف شاہوں اور قبائلی سرداروں کی طرف خطوط لکھے  تھے ،وہ جمع کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب زمانے کے حوادث سے محفوظ رہی اور آج بھی موجود ہے۔ یہ تو سیرت پر علما سندھ کی عربی کتب تھی ،اس کے بعد مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی رح نے سندھی زبان میں “قوت العاشقين” کے نام سے ایک منظوم کتاب 1127 ھجری  میں لکھی جس میں صرف معجزوں کا بیان ہے، تقریباً 160 معجزوں کو نہایت تحقیق اور پوری سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ برصغیر میں رائج زبانوں میں سے سیرت پر سب سے پہلی کتاب کا اعزاز اس کتاب کو حاصل ہے۔

اس کے علاوہ مخدوم صاحب کی ایک اور کتاب” بذل القوۃ فی حوادث سنی النبوۃ”اس کو  اگر عالم اسلام میں اپنی طرز پر یکتا اور منفرد کتاب کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ اس کتاب میں مخدوم صاحب نے دو حصوں میں ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد والے واقعات کو سن وار ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب 1966 میں مخدوم امیر احمد کی تحقیق کے ساتھ سندھی ادبی بورڈ سے چھپ بھی چکی ہے۔
مخدوم صاحب نے اس کا اختصار “فتح العلی فی حوادث سنی البنوۃ صلی اللہ علیہ وسلم” کے نام سے لکھا ہے۔
1197 میں مخدوم عبدالسلام نے “شمائل ترمذی” کا منظوم سندھی ترجمہ کیا تھا اور کتابی صورت میں چھپ چکا ہے۔
یہ تھی سندھ میں سیرت نگاری کی مختصر تاریخ وتعارف اس کے علاوہ بھی کئی کتب لکھی گئی ہیں جن کا ایک مضمون میں احاطہ مشکل ہے۔

آج تلک سندھی زبان میں سیرت پر سینکڑوں کی تعداد میں نظم ونثر، منقوط و غیر منقوط اور ضخیم کتابیں لکھی جاچکی ہیں، جن میں سے بعض کو عوام میں بڑی پذیرائی حاصل اور بعض صدارتی ایوارڈ یافتہ ہیں۔

دیگر زبانوں میں غیر منقوط کتاب لکھنا آسان ہے، لیکن سندھی زبان میں “کار باشد” جس کے سہ حرفی کلمے میں بھی بارہ بارہ نقطے ہیں۔ مبارکباد کے لائق ہیں مایہ ناز ادیب اور مصنف جناب رسول بخش تمیمی صاحب جنہوں نے سندھی زبان میں سیرت پر بغیر نقطوں کے کتاب “محمد رسول اللہ ” لکھی۔ تمیمی صاحب نے اس کے علاہ “پارہ عم” کا بغیر نقطوں کے ترجمہ بھی کرچکے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ماہ ربیع الاوّل کی نسبت سے “سندھ میں سیرت نگاری” کے عنوان یہ مضمون لکھ دیا، لاکھوں درود وسلام ہوں ہمارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر!
اور رب کریم ہمیں رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply