اہل حجاز کی نئے ہجری سال کی رسمیں۔۔۔منصور ندیم

قدیم زمانہ سے مختلف اقوام و ممالک میں نئے سال کی آمد پر طرح طرح کی رسمیں کی جاتی ہیں۔ کئی تہذیبیں اسے جشن کی طرح بھی مناتی ہیں، جیسے نوروز (لغوی معنی: ’’نیا دن‘‘) ایرانی سال نو کا نام ہے، جسے فارسیوں کا نیا سال بھی کہا جاتا ہے۔ نوروز کا تہوار دنیا بھر میں متنوع نسلی و لسانی گروہ مناتے ہیں۔ مغربی ایشیا، وسط ایشیا، قفقاز، بحیرہ اسود اور بلقان میں یہ تہوار 3000 سالوں سے منایا جا رہا ہے۔ بیشتر تہوار منانے والوں کے لیے یہ ایک سیکولر تعطیل ہے جو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ مناتے ہیں۔

لیکن زرتشتی، بہائی اور بعض مسلم گروہوں کے لیے بھی یہ مذہبی دن ہے۔ اس تہوار کے منانے والے ممالک میں ایران، کردستان، البانیا، آذربائیجان، بنگلہ دیش (بنگلہ دیشی شیعہ مسلمانوں اور دیگر کی جانب سے)، چین (سنکیانگ کے تاجکوں اور ترک لوگوں کی طرف سے)، جارجیا، بھارت (بھارتی ایرانیوں، پارسیوں اور بعض دیگر بھارتی مسلمانوں کی طرف سے)، اسرائیل (ایرانی یہودیوں، کوہستانی یہودیوں اور یہود بخاری کی طرف سے)، عراق (کردوں اور عراقی ترکمانوں کی طرف سے)، قازقستان، کرغیزستان، پاکستان (بلوچیوں، ایرانیوں، پارسیوں اور پشتونوں کی طرف سے)، روس (تبرسرانیوں اور کریمیائی تاتاریوں کی طرف سے)، شام (کردوں کی طرف سے)، تاجکستان، ترکی (آذربائیجانیوں، کردوں اور یوروکیوں کی طرف سے)، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہیں۔

دنیا میں سب سے زیادہ نئے سال کا جشن یا اہتمام عیسوی تقویم کا کیا جاتا ہے، جسے اردو میں سال کے بعد ‘ء’ سے لکھا جاتا ہے، اس سال کا آغاز بنسبت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے لگایا جاتا ہے (اگرچہ اس بات میں اختلاف ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا سال کیا تھا، کیونکہ پوپ جولیس اول نے 25 دسمبر کو رسمی طور پر عیسیٰ مسیح کا روز تولد قرار دیا)٫ مثلاً پوپ گریگوری نے سولہویں صدی میں تاحال آخری قابلِ ذکر تبدیلی کی تھی اسی لیے اسے ہم گریگورین تقویم یا عیسوی کلینڈر یا شمسی کلینڈر بھی کہتے ہیں۔

ابتدا میں یہ صرف سنجیدہ مذہبی تہوار تھا جس میں حضرت عیسیٰ مسیح کی قربانیوں کا ذکر ہوتا تھا اور ان کے دنیا میں آنے کی خوشیاں منائی جاتی تھیں۔ رفتہ رفتہ اس میں بہت سی رسومات شامل ہوتی گئیں اور نسل و نژاد کی قید سے آزاد یہ ایک اجتماعی تہوار بن گیا۔ جسے آج پوری عیسائی دنیا مناتی ہے، اور چونکہ دنیا کی مرکزی اسٹاک مارکیٹ کی وجہ سے اس دن تقریبا پوری دنیا میں ہی تعطیل ہوتی ہے۔

بالکل ایسے ہی مسلمانوں میں ہجری سال رائج ہے جسے قمری سال بھی بھی کہا جاتا ہے، ہجری تاریخ کی شروعات پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے 17ویں سال کے بعد سے خلیفہ دوم عمر بن خطاب نے کی تھی ۔

میرے لئے یہ ایک حیران کن بات تھی جب میں نے سعودی عرب کے ایک مقامی مجلہ”سیدتی” میں پڑھا کہ آج بھی سعودی عرب کے قدیم علاقوں میں ہجری سال کا اہتمام کیا جاتا ہے، مدینہ منورہ ، جدہ اور مکہ مکرمہ کے لوگ ہر نئے ہجری سال کی آمد پر کئی رسموں کے عادی ہیں، جیسے دوسری اقوام اپنے سال کے آغاز کو مناتے ہوئے رشتے داروں ، احباب اور ہمسایوں کے درمیان محبت اور اخوت کے رشتے تازہ کرنے کیلئے کئی رسمیں کرتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی اہل عرب بھی ان رسموں سے ایک مثبت صحت مند ایکٹوٹی کرتے ہیں۔ کئی رسمیں جو اہل عرب میں رائج ہیں ان کی تفصیل یہ ہے۔

قہوہ بیضا ء :

سعودی عرب میں جب بھی نئے قمری (ہجری) سال شروع ہوتا ہے ۔ تب مکہ ، مدینہ اور جدہ کے لوگ ’القہوہ البیضاء ‘نامی میٹھی ڈش کا اہتمام کرتے ہیں۔یہ دودھ ،چاول کے آٹے اور کُٹے ہوئے بادام سے گھروں میں تیار کی جاتی ہے ۔اسکا رنگ سفید ہوتا ہے اس لئے اسے ( بیضاء) کہا جاتا ہے، گرم دودھ زیادہ مقدار میں ہوتا ہے ، قہوے سے مماثلت رکھتا ہے ۔ اسی وجہ سے اسے (قہوہ بیضاء ) کا نام دیا جاتا ہے ۔ بعض لوگ اسے ایک اور نام سے یاد کرتے ہیں ، یہ نام ہے ’ قہوۃ ستنا خدیجہ ‘اس کے معنی ہیں ہماری امیر خدیجہ کا قہوہ ۔

ملوخیہ:

نئے ہجری سال پر دوسری اہم ڈش ’ملوخیہ‘ تیار کی جاتی ہے ۔اس کا رنگ سبز ہوتا ہے ۔یہ ایک طرح کا مقامی ساگ ہے، ہر نئے سال پر دستر خوان کی اہم ترین ڈش یہی ہوتی ہے ۔جدہ ، مکہ ، مدینہ والوں کی سوچ یہ ہے کہ سبز اور سفید رنگ خوش امیدی کی علامت ہے ۔اسی لئے سبز اور سفید رنگ کی ڈشوں سے نئے سال کی شروعات کی جاتی ہے ۔

سبزے پر چہل قدمی :

اس دن مقامی لوگوں میں سبزے پر چہل قدمی کا بھی رواج ہے ۔ رشتے دار اور دوست احباب نئے سال کی مبارکباد دینے کیلئے ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے ہیں۔ انہیں اپنے آباء و اجداد سے یہ رسم ورثے میں ملی ہے ۔ جسے انہوں نے آج تک زندہ رکھا ہوا ہے اور آج بھی اس کی پابندی کی جاتی ہے۔

سفید لباس:

مکہ کے کئی گھرانے آج تک نئے ہجری سال کی آمد پر نئے سفید لباس پہننے کی پابندی کرتے ہیں، سفید لباس روشن امید کی علامت ہے اسی لئے نئے سال کے پہلے دن سفید لباس استعمال کیا جاتا ہے ۔بعض خواتین سال کے پہلے دن سفید رنگ والی ایک ڈش تیار کرتی ہیں جسے ’السلیق ‘کہا جاتا ہے ۔یہ چاول سے بنائی جاتی ہے اور سال کے پہلے دن دستر خوان کی زینت بنتی ہے، بعض خاندان سال کے پہلے دن کفایت شعاری کا مظاہرہ کرتے ہیں تاکہ سال بھر خرچ میں توازن رہے ۔

گلاب اور چنبیلی کے پھول:

Advertisements
julia rana solicitors london

مدینہ منورہ کے لوگ نئے ہجری سال کے پہلے دن گلاب کا پھول اور پودینہ خریدتے ہیں ۔بہت سارے گھرانے ایسے ہیں جو چنبیلی کے پھول خرید کر رشتے داروں اور پڑوسیوں میں تقسیم کرتے ہیں ۔یہ ان کے یہاں نئے ہجری سال کے پہلے دن کی بڑی پکی رسم ہے ۔بعض بوڑھے لوگ نئے ہجری سال کی رات کو چنبیلی کے پھول بھاری مقدار میں خرید لیتے ہیں اور سال کے پہلے دن اعزہ اور احباب میں تقسیم کرتے ہیں ۔مدینہ منورہ کے لوگ نئے ہجری سال کے پہلے دن گلاب کا پھول اور پودینہ بھی لازمی خریدتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply