جمہوری سوچ متوجہ ہو۔۔حسان عالمگیر عباسی

ملک کو نکّے کے ابّے نے نہیں اللہ نے بچانا ہے اور اللہ نے تب فرشتوں کے ذریعے امداد بھیجنی ہے جب اصولوں پر کھڑا رہا جائے۔ ملک کو چلانے کا بہترین اصول یہی ہے سب اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہیں۔ جب دوسروں کے کام میں ٹانگ اڑائی جائے تو اصول برہنہ ہو کے ناچنے لگتا ہے۔

اگر ملک اندرونی خلفشار کا شکار ہے تو سمجھیں کوئی جنگ اسلحے سے لڑے بغیر ہی جیت رہا ہے۔ دشمن یہی چاہتا ہے کہ ملک دیمک کی طرح چاٹ لیا جائے۔ اس ساری صورتحال میں جمہوریت سے محبت کرنے والوں یا جمہوریت کو آمریت سے بہتر ماننے والوں کی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ ایک ذمہ داری کی ادائیگی دوسری ذمہ داری کو نبھانے کے لیے اسٹیج تیار کرتی ہے۔ پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ دشمن کی پہچان کرنی ہے۔ یاد رہے دشمن کے سینگ نہیں ہوتے۔ آس پاس ہی ہوتے ہیں۔ ملک کو کھوکھلا کرنے کا کرایہ لیتے ہیں۔ مثلاً مشرف تھا تو پاکستانی لیکن کیا آپ اسے ملک کا ساتھی سمجھتے ہیں؟ وہ تو امریکہ کا  ،کاکا تھا۔ ضیا الحق کو آپ خلیفہ مانتے ہیں؟ وہ تو غدار تھا، آئین توڑنے والا شخص، اور جمہوریت دشمن! اب ایسے منافقوں سے تو مخالفت پہ آنے والا محارب جنگجو اچھا ہوتا ہے۔

ہم ان منافقوں کو محاربوں سے لڑنے، ملکی دفاع، سرحدوں کی حفاظت اور غیر ملکوں میں ہونے والی سازشوں کو بے نقاب کرنے کا ذمہ سونپتے ہیں اور یہ اپنا ہی ملک فتح کرنے کی تاک میں ہوتے ہیں۔ یہ خود کہتے ہیں کہ ملک کی حفاظت ان کی اولین ذمہ داری ہے۔ قسم لیتے ہیں کہ سیاست چاہے نوعیت کے لحاظ کیسی بھی ہو، ان کا دخول حرام ہے۔

نفاق کی علامات اب ظاہر ہو چکی ہیں۔ دہشت گردوں کو مسجدوں میں ڈھونڈتے ہیں۔ اپنے ہی بچوں پہ ڈرون طیارے گرواتے ہیں۔ لال مسجد کو قربان گاہ میں بدل ڈالتے ہیں۔ آئی ڈی پیز کے نام پہ بوڑھوں بچوں کو تنگ کرتے ہیں۔ جس کو دل کیا اٹھا لیتے ہیں۔ آئی جی تک غیر محفوظ ہے۔ مسلم لیگ کی اہم ذمہ دار کا شبستان تک خطرے میں ہے۔ ایسے ہیں ہمارے راج دلارے!

یہ وہ ہیں جو پاکستان دو لخت کرنے والے ہیں۔ ان کی ملک میں سیاہ حکمرانی کی طویل شامیں اور راتیں گزری ہیں۔ کشمیر بھی پیالے میں رکھ کر دشمن کو دے دیا گیا ہے۔ غیروں کی جنگ کا حصہ بنے رہے ہیں۔ ان کے کہنے پہ اپنے ہی بچوں کو دہشت گرد سمجھ کر دہشت پھیلانے اور ان کے خون سے ہاتھوں کو رنگتے رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ دشمن کون یے؟ صرف سفید چمڑی یا پڑوسی ہی دشمن نہیں ہوتا۔ دشمن سرحدوں کی بجائے آپ کے ارد گرد بھی گھات لگائے بیٹھ سکتا ہے۔ عمران خان صاحب کہتے تھے کہ مولانا فضل الرحمان کے ہوتے ہوئے کسی یہودی نے سازش ہی کیوں کرنی ہے حالانکہ ان کے ہوتے ہوئے ہنودی آلہ کار اس وقت وزیر اعظم ہاؤس میں مقیم ہے۔

یہی کہنا ہے کہ ایسے جوانان جو پاکستان توڑنے والے اور کشمیر پہ سودا بازی کریں، کے ہوتے ہوئے ملک کو دفاع کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دفاع کس کا کرنا ہے؟ ملک دشمن کے قبضے میں ہے۔ تمام جمہوری سوچ رکھنے والوں کا اب امتحان ہے کہ ترک عوام کیسے بننا ہے۔ ترک محفوظ رہا لیکن مقدس گائے پہ حملہ ہو جائے تو ملک، مذہب، اور قوم پہ خطرات منڈلانے لگتے ہیں۔ دشمن سر پہ ہے, سر کے بل گرائیں یا سر کٹوالیں لیکن ووٹ کی عزت کے ورد سے زبان تر رہے کیونکہ یہ اب نواز شریف کا ایجنڈا نہیں ہے، اب یہ پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔ قوم ملکی سلامتی اور سالمیت لیے وطن کی مقروض یے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دادِ شجاعت دَورِ سِتم میں یہ بھی کام ہمارا
حق آئے باطِل مِٹ جائے یہ پیغام ہمارا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply