مثالی خاندان اور سیرت رسولﷺ۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

مقدمہ
خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے اسی سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ خاندان کے تمام افراد وہ ستون ہوتے ہیں جو  اس بنیادی معاشرتی اکائی کو تشکیل دیتے ہیں۔ یہ اکائی جس قدر مضبوط و مستحکم ہو گی معاشرہ اتنا ہی بہتر اور توانا ہو گا۔ اسی لیے ہر تہذیب اپنے معاشرتی نظام کی تشکیل کے لیے خاندان پر بہت توجہ دیتی ہے۔ مرد و عورت کے مجموعی حقوق و فرائض کے دائرہ کار کو طے کیا جاتا ہے، ان کی مختلف حیثیتوں کو واضح کیا جاتا ہے۔ خاندانی اقدار کا تحفظ ہی معاشروں کو زندگی کے اتار و چڑھاؤ میں مدد دیتا ہے۔ مغرب نے خاندانی نظام کو اجتماعیت سے انفرادیت کی شکل دے دی  اس سے انہیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے ادارے جو  اجتماعیت میں بے معنی تھے اور انہیں عیب سمجھا جاتا تھا۔

انفرادیت کا راستہ اختیار کرنے کے لیے وہ بہت ضروری ٹھہرے اولڈ ہومز کا تصور، بے تحاشہ انشورنس، انفرادیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفسیاتی بیماریاں اور ان کی علاج گاہیں غرض جتنا سوچتے جائیں گے اتنی ہی چیزوں میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ انفرادیت نے نسلوں کے تجربات کو ختم کر دیا اور ہر چیز کمپنی کی پیداوار سے حاصل ہونے لگی۔ اس وقت مغربی تہذیب کا حملہ ہے اور ہمارے معاشرے کو بڑی تیزی سے مغربی رنگ میں رنگنے کی میڈیا کی مہم چل رہی ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ نبی اکرمﷺ کی زندگی میں موجود اسلام کے خاندانی نظام کے لیے مکمل رہنمائی سے استفادہ کیا جائے۔ یہ رہنمائی انسان کے خالق کی طرف سے ہے جو فطرت انسانی کا بھی خالق ہے اس کی طرف سے دیا گیا خاندانی نظام یقینا انسان کی دنیاوی راحت اور اخروی بھلائی  کا باعث ہو گا۔

خاندان کیا ہے؟
سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ خاندان کہتے کسے ہیں، اس کی حدود و قیود کیا ہیں؟ تاکہ ہم اس کے نتیجے میں اسلامی خاندان کو سیرت طیبہ کی روشنی میں سمجھ سکیں۔ سب سے پہلے ماہرین کی نظر میں خاندان کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈاکٹر خالد علوی خاندان کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“خاندان ایک ایسا ادارہ ہے جو انسانی رویئے اور طرز عمل کی تشکیل کرتا ہے۔ خاندان ہی وہ ادارہ ہے جس کے ذریعے معاشرتی تربیت ہوتی ہے۔ خاندان ہی وہ ادارہ ہے جو فرد کو اپنے فرائض کا احساس دلاتا ہے۔ اسے فرق مراتب کا شعور بخشتا ہے۔ اگر خاندان کا استحکام کم ہو جائے تو انسانی طرز عمل، معاشرتی فرائض کا شعور اور افراد معاشرہ کے مراتب کا یقین سب کچھ ختم ہو جائے گا”۔1
ڈاکٹر محمد امین خاندان کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“تمام مذاہب میں خاندان کی وکالت اس طرح کی گئی ہے کہ گویا یہ خاندان مرد کے لیے گھونسلہ اور عورت کو اولین استاد قرار دیا گیا ہے، جس جیسا استاد مہیا ہونا نا ممکن ہے”۔2 اس کے علاوہ بھی خاندان کی بہت سی تعریفیں کی گئی ہیں بنیادی طور پر یہ انتہائی قریبی رشتہ داروں کا گروہ ہوتا ہے جو خاص اقدار کو لیے نسل نو کی دنیاوی اور دینی ضروریات کی تکمیل کرتا ہے کہ انسان معاشرے کے لیے مفید شہری بن سکے۔

رشتوں کی اہمیت:
اسلام نے رشتوں کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ دراصل یہ رشتوں کا تقدس ہی ہے جو خاندان کی بنیاد بنتا ہے اور انہیں قائم رکھتا ہے۔ اسلام نے ایک تو رشتوں کو اہمیت دی اور دوسرا ان کی حفاظت کو ضروری قرار دیا۔ اگر کسی بھی وجہ سے ان میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہو تو اس بگاڑ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی تعلیم دی۔ نبی اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے، رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم یقول، “قال اللّٰہ تبارک و تعالیٰ أنا اللّٰہ و أنا الرحمٰٰن خلقت الرحم و شققت لھا من اسمی فمن وصلھا و صلتہ و من قطع بتتہ”3 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ تبارک و تعالٰی کا ارشاد ہے میں اللہ ہوں، میں رحمان ہوں، میں نے رشتہ و قرابت کو پیدا کیا ہے اور اپنے نام رحمٰن کے مادہ سے نکال کر اس کو رحم نام دیا ہے، پس جو اسے جوڑے گا میں اس کو جوڑوں گا، اور جو اس کو توڑے گا میں اس کو توڑ دوں گا۔4 اس حدیث میں کس خوبصورتی سے رشتہ داری کو یعنی رحم اور پھر اسے رحمٰن سے جوڑا گیا ہے جو اللہ کی بہت رحمت و الفت والی صفت ہے۔ رشتہ داروں کو ذوی الارحام کہا جاتا ہے، ایک ذی رحم پکارا جاتا ہے اور رحمٰن کا مادہ اصلی رحم ہے یوں رحمٰن اور رحم آپس میں جڑ جاتے ہیں۔ رشتہ دار بھی آپس میں ملے ہوئے ہوتے ہیں اس ملے ہوئے ہونے کا لحاظ رکھنے کی اور جڑے رہنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ رشتہ داروں سے جڑنا اللہ سے جڑنا ہے اور ان سے  قطع تعلقی اختیار کرنا اور دوری اختیار کرنا اللہ سے دوری کا باعث ہے۔

رشتوں کا احترام:
رشتے احترام سے قائم رہتے ہیں اور مضبوط ہوتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ ہماری اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ ہم رشتوں کا احترام کریں۔ اس کے نتیجے میں خاندان مضبوط ہو گا ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوط ہوں گے اور خاندان ترقی کرے گا۔ مشہور واقعہ ہے۔ حلیمہ سعدیہ جس کے گھر میں آپﷺ بچپن میں رہے وہ قبیلہ ہوازن سے تھیں، اس قبیلہ سے غزوہ حنین میں جنگ ہوئی، مسلمانوں کو فتح ہوئی مگر بعد میں ہوازن مسلمان ہو گئے، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے قیدی جو غلام بنائے گئے تھے واپس کر دیئے کہ وہ حلیمہ کے اہل قرابت تھے۔ 5 غزوہ حنین کے موقع پر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئیں، آپ ان کے لیے کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر بچھا دی۔ حلیمہ اور حلیمہ کے خاوند مسلمان ہو گئے تھے۔6

نبی اکرمﷺ  اور حلیمہ سعدیہ ؓ کا رشتہ جو زیادہ سے زیادہ کہا جاتا ہے وہ  رضاعی والدہ کا تھا آپﷺ کو اس کا اتنا پاس تھا کہ آپﷺ نے اس کی خاطر اس کے قبیلے کے سارے قیدی رہا کر دیئے۔ جب حلیمہ سعدیہ ؓ آپﷺ کے پاس تشریف لائیں تو اس قدر احترام کیا کہ اپنی چادر بچھائی، انتہائی ادب سے حلیمہ سعدیہ ؓ کے سامنے بیٹھے۔ رشتوں کا یہ احترام خاندان کی بنیاد ہوتا ہے جس سے معاشرہ  ترقی کرتا ہے۔ صرف رضاعی ماں نہیں بلکہ رضاعی بہن کا بھی بہت احترام کیا جب ایک خاتون آپﷺ کے پاس لائی گئی اور نبی اکرمﷺ کو اس نے بچپن کا ایک واقعہ یاد دلایا تو آپﷺ نے فرمایا ہاں تم میری بہن ہو آپﷺ کا مشہور فرمان ہے، “یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب”۔ 7 کہ دودھ کا رشتہ بھی ایسے ہی ہے جیسے نسب کا رشتہ ہے۔ رحم کے رشتہ داروں کے حقوق بہت زیادہ ہیں انسان ان سے کبھی بھی لاتعلق ہو کر نہیں رہ سکتا اس لیے ضروری ہے کہ  ان رشتہ داروں کا احترام کیا جائے تاکہ یہ رشتے مضبوط رہیں۔

خاندان میں مرد:
اسلام کے خاندانی نظام کو ڈسکس کرتے ہوئے اس پر بات کرنا بہت ضروری ہے کہ اسلام نے مرد کو عورتوں پر قوام قرار دیا ہے۔ اس قوام  کے کیا معنی ہیں؟ کیا اس سے مراد یہ ہے کہ مرد عورت کا مالک  و مختار ہو جاتا ہے، اب وہ بادشاہ ہے جو مرضی کرے، عورت کو ہر صورت میں اس کی اطاعت کرنا ہو گی؟ یا اس مطلب کچھ اور ہے  اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے، “الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَ بِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ”۔ مرد عورتوں پر نگہبان ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس لیے کہ مردوں نے اپنا مال خرچ کیا ہے۔ علامہ محسن علی نجفی حفظہ اللہ  اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛ “مرد عورتوں کے محافظ اور نگہبان ہیں یعنی عائلی نظام میں مرد کو قیَم اور ستون کی حیثیت حاصل ہے چونکہ مردوں کو عقل و تدبر اور زندگی کی مشکلات کا تحمل اور مقابلہ کرنے میں عورتوں پر برتری حاصل ہے اور عورتوں کو جذباتیت اور مہر و شفقت میں مردوں پر برتری حاصل ہے۔

یہاں سے ان دونوں کی ذمہ داریاں بھی منقسم ہو جاتی ہیں۔ اسلام کے عائلی نظام میں مرد کو برتری حاصل ہے اس سے عورت کا استقلال و اختیار سلب نہیں ہوتا اپنے اپنے مقام پر مرد وزن کی ذمہ داریاں ہیں. عورت کو انسانی زندگی سے مربوط داخلی امور کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اور مرد کو بیرونی امور کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں، یہ بات مرد و زن کی جسمانی ساخت و بافت اور نفسیاتی خصوصیات سے بھی عیاں ہے۔ عورت ضعیف النفس، نازک مزاج، حساس ہوتی ہے اور اسکے ہر عمل پر جذبات غالب ہوتے ہیں جبکہ مرد طاقتور، جفاکش اور اسکے ہر عمل پر عقل و فکر حاکم ہوتی ہے.” علامہ آلوسی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں، “مرد کی قوامیت سے مراد مہر اور نفقہ کی ادائیگی ہے”۔

اس آیت کو قرآن مجید کی اس آیت سے ملا کر دیکھا جائے تو صورتحال بہت واضح ہو جاتی ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے، “يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاء”۔ 11 اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت (روئے زمین پر) پھیلا دیئے۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ پہلی آیت میں قوام سے مراد ذمہ داریوں کا مختلف ہونا ہے اور خاندانی نظام کی تقسیم میں زیادہ اور سخت ذمہ داریوں کا مرد کے کاندھے پر آ جانا ہے۔ مرد اور عورت دونوں ایک جان سے خلق ہوئے اور تخلیق میں کسی کو برتری نہیں ہے ذمہ داریاں الگ الگ ہیں۔

خداندان میں عورت کا مقام:
خاندان بنیادی طور پر جن دو اکائیوں سے مل کر تشکیل پاتا ہے ایک مرد ہے اور دوسری عورت ہے، ان کے عقد نکاح کے ذریعے باہم حلال ہونے سے اولاد کا سلسلہ چلتا ہے اور ایک خاندان  کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ مرد کے کردار کے بارے میں کچھ بات کی اب عورت کے کردار پر کچھ گفتگو کرتے ہیں۔ اسلام نے عورت کو اس کی نزاکت اور فطری میلان کے پیش نظر  آسان ذمہ داریاں دی ہیں۔اس پر ذمہ داریوں کا بوجھ کم سے کم  ڈالا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام نے اس کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے اسلام نے عورت کو بہت اہمیت دی ہے۔ بیٹی، بیوی اور ماں کے روپ میں اسلام نے خاندان کی بنیادی ذمہ داریاں عورت کے کندھوں پر ڈالی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ اپنی بیٹی کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں، “فاطمة بضعة منی، من سرها فقد سرنی و من ساءها فقد ساءنی، فاطمة اعز الناس علی”۔ فاطمہ سلام اللہ علیھا میرا ٹکڑا ہے جس نے انہیں خوش کیا اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے انہیں ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا، فاطمہ ؑمیرے لئے تمام لوگوں سے زیادہ عزیز ہیں۔

آقائے نامدار ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں، “ان الله لیغضب لغضب فاطمة و یرضی لرضاها” 13 بے شک خداوند متعال فاطمہ سلام اللہ علیھا کے ناراض ہونے سے ناراض اور فاطمہ سلام اللہ علیھا کے راضی ہونے سے راضی ہوتا ہے”۔ نبی اکرم ﷺ نے  فرمایا، “جهاد المراة حسن التبعل”۔ 14 عورت کا جہاد شوہر کے حقوق کو اچھی طرح ادا کرنا ہے۔ اسلام میں فضیلت کا معیار جنس نہیں ہے بلکہ تقوٰی ہے، اسی لیے دنیا کا کونسا مسلمان ہے جو فضیلت میں حضرت فاطمہؑ کی برابری کا فقط دعوی ہی کر دے؟ یقینا ایسا کوئی نہیں ہے۔ اچھی عورت ہی اچھا خاندان تشکیل دیتی ہے اور  نیک خاتون ہی شوہر کے ساتھ حسن سلوک کر کے عملی جہاد کرتی ہے۔

بیوی سے حسن سلوک:
آج مغرب و مشرق کے معاشروں کا بڑا مسئلہ عورتوں پر تشدد ہے اور انہیں درست مقام نہ دینا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں این جی اوز اس پر کام کر رہی ہیں کہ عورتوں پر تشدد ہو رہا ہے اسے کسی طرح سے روکا جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عورت کا صنف نازک سمجھ کر اس پر بہت زیادہ تشدد کیا جاتا ہے۔اس کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور اسے ذہنی اور جنسی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نبی اکرمﷺ کی سیرت طیبہ بڑی واضح ہے آپ ﷺ نے فرمایا، “كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، وَكَانَ مَعَهُ غُلاَمٌ لَهُ أَسْوَدُ يُقَالُ لَهُ أَنْجَشَةُ، يَحْدُو، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَيْحَكَ يَا أَنْجَشَةُ رُوَيْدَكَ بِالقَوَارِيرِ”۔15 رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے اور آپ کے ساتھ آپ کا ایک سیاہ فام غلام تھا۔ اسے انجثہ کہا جاتا تھا۔ وہ حدی پڑھ کر اونٹ چلا رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اے انجثہ! افسوس تجھ پر، آبگینوں کو آہستہ آہستہ لے کر چلو۔ یعنی آپ ﷺ نے عورتوں کو نازک آبگینوں سے تشبیہ دی کہ جب وہ تمہارے ساتھ ہیں تو اونٹوں کو آہستہ چلاؤ۔

ایک اور مقام پر آپﷺ عورتوں پر تشدد سے روکتے ہوئے فرماتے ہیں، “عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَجْلِدُ أَحَدُكُمْ امْرَأَتَهُ جَلْدَ الْعَبْدِ”۔ 16 وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا، تم میں سے کوئی شخص بھی اپنی بیوی کو اس طرح نہ پیٹے جس طرح غلام کو پیٹا جاتا ہے۔ اس طرح آپﷺ نے اپنی امت کو یار دلایا  ہے کہ اپنی خواتین پر تشدد نہ کیا کرو۔ اسی لیے مذہب سے واقف اور اسلام پر عمل کرنے والے اپنے بیویوں کا بہت خیال رکھتے ہیں اور تشدد کو روا نہیں رکھتے۔ تشدد سے خاندان تباہ ہو جاتے ہیں اگر طلاق نہ بھی ہو تو  بے سکونی گھر کا راستہ دیکھ لیتی ہے اور برکت اٹھ جاتی ہے۔ اس لیے آپﷺ نے ہر قسم کے تشدد کی نفی کرتے ہوئے بیوری سے حسن سلوک کی تعلیم دی ہے۔ آپ ﷺ نے پوری زندگی اپنی کسی بیوی پر تشدد نہیں کیا۔ اللہ کے نبی ﷺ ارشاد فرماتے ہیں، “أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، و خياركم خياركم لنسائهم”۔17 مومنوں میں کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں۔ اور مومنوں میں بھلا وہ شخص ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بھلا ہو۔ یعنی بہترین آدمی وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بھلائی کرتا ہے  اور یہی بھلائی جذبہ اسلام معاشرے میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔

گھر کا کام:
گھر کے کام کاج عام طور پر عورت کی ذمہ داری سمجھے جاتے ہیں، معاشرے نے ایک تقسیم کر لیے جو فطرت کے مطابق بھی ہے کہ گھر کے کام خواتین کرتی ہیں اور باہر کے کام مرد کرتے ہیں۔ اس حوالے نبی اکرمﷺ کی سیرت طیبہ میں ملتا ہے کہ  آپﷺ اس تقسیم کے باوجود گھر کے کام بھی کیا کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ کی گھریلو زندگی کے بارے میں کہ آپ گھر کا کام بھی کرتے تھے۔ گھر میں جھاڑو دیتے، اپنے کپڑے اور جوتوں کو پیوند لگاتے اور اپنی بکری کا دودھ خود دھتے تھے۔ 18 اس حوالے سے آپﷺ نے حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کے درمیان امور کی جو تقسیم کی مسلمان گھرانے اسی کو مشعل راہ سمجھتے ہیں۔ “عن ابی عبد الله عن ابیه قال! تقاضی علی و فاطمة الی رسول الله فی الخدمة فقضی علی فاطمة خدمة دون الباب و قضی علی علی بما خلفه، فقالت فاطمة؛ فلا یعلم ما دخلنی من السرور الا بالله” 19 امام جعفر صادق ؑسے روایت ہے کہ جب امیر کائناتؑ اور خاتون جنت (س) کی تزویج ہوئی اور انکی خانوادگی زندگی کا آغاز ہوا تو ایک دن دونوں ہستیاں حضور اکرمﷺ کی خدمت عالیہ میں تشریف لائیں اور گھریلو امور کے حوالے سے ذمہ داریوں کی تقسیم بندی کے بارے فیصلہ کرنے کا تقاضا کیا تو رسالتمآب ﷺ نے فیصلہ کیا کہ گھر کے اندرونی کام فاطمہ سلام اللہ علیھا بجا لائے گی اور گھر سے باہر کے کام علیؑ بجا لائیں گے. جناب زہراء سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں اس فیصلہ سے مجھے جو خوشی ہوئی اسے خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

گھر کے کام کی سربراہی عورت کرے گی اور باہر کے امور مرد دیکھے گا یہ عورت کی نفاست و نزاکت کے عین مطابق ہے۔ اللہ کے نبی حضرت علیؑ کو مخاطب ہو کر ارشاد فرماتے ہیں، “ما من رجل یعین امراتة فی بیتها الا کان له بکل شعر علی بدنه عبادة سنة…. یا علی! ساعة فی خدمة البیت خیر من عبادة الف سنة..”۔ تم میں سے کوئی مرد گھر میں اپنی خاتون کی مدد کرے تو اسکو اسکے بدن پر موجود ہر بال کی نسبت ایک سال کی عبادت کا ثواب ملے گا۔ آگے فرمایا، یا علی! گھریلو خدمت کی ایک گھڑی ایک ہزار سال کی عبادت سے بہتر ہے۔۔۔” گھر کا کام کرنا خاتون خانہ کی مدد کرنا اس قدر ثواب کا حامل ہے کہ اسے ہزار سال کی عبادت سے افضل قرار دیا جا رہا ہے۔

والدین کا احترام:
آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص کی ناک خاک آلودہ ہو جو بوڑھے ماں باپ سے جنت حاصل نہ کرسکے ان کی (خدمت کرکے)۔ 21 حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش مکہ کے (صلح حدیبیہ) معاہدے کے زمانے میں میری ماں جو اپنے مشرکانہ مذہب پر قائم تھی، سفر کر کے مدینہ میں میرے پاس آئی، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میری ماں میرے پاس آئی ہے اور وہ کچھ خواہش مند ہے، تو میں کیا اس کی خدمت کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! اس کی خدمت کرو۔ 22

والد کے عزیزوں سے حسن سلوک:
“عن ابن عمر قال، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیس الوصل بالمکافی ولکن الواصل الذی اذا قطعت رحمہ وصلھا” (رواہ البخاری) بسا اوقات لوگ اپنے والدین کی خدمت تو کرنے میں کسی قدر دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں، مگر اپنے والد کے دوستوں اور ان کے بھائی یعنی چچا کے ساتھ صلہ رحمی کی بجائے ان کو اپنا حریف اور فریق سمجھتے ہیں، حالانکہ والدین کے انتقال کے بعد چچا اور خالہ اسی طرح والدین کے دوسرے متعلقین کے ساتھ حسن سلوک کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے برابر بتلایا گیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی یہ چاہے کہ قبر میں اپنے باپ کو آرام پہنچائے اور خدمت کرے تو باپ کے انتقال کے بعد اس کے بھائیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھے۔ (ابن حبان) اسی طرح بڑے بھائی کو باپ کا درجہ دیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بڑے بھائی کا چھوٹے بھائی پر ویسا ہی حق ہے، جیسا کہ باپ کا اولاد پر حق ہے۔ “الأخ الکبیر بمنزلۃ الأب” بڑا بھائی باپ کی طرح ہوتا ہے۔

اولاد سے محبت:
نبی کریم ﷺ کے دل میں تمام بنی نوع انسان کے لیے محبت و شفقت کے جذبات پائے جاتے تھے۔ مگر چونکہ فطری طور پر انسان اپنے اہل و عیال اور قبیلہ کی نسبت سے پہچانا جاتا ہے اسی بناء پر آپ ؐ نے اپنی اولاد کے ساتھ محبت و شفقت کا اعلٰی نمونہ قائم کیا۔ اہل عرب اپنے بچوں کو چومنا، ان سے لاڈ پیار کرنا اپنی سرداری کے خلاف سمجھتے تھے۔ مگر آپ ؐ نے ہمیشہ اس رسم کی مذمت کی۔ آپ ؐ اپنے بچوں کو گود میں اٹھا لیتے۔ بعض اوقات کندھے پر بٹھا لیتے۔ سواری پر ہوتے تو اپنے آگے پیچھے انھیں سوار کر لیتے۔ ان کی پیشانی کو چومتے۔ انہیں خیر و برکت کی دعا دیتے۔۔23

صلہ رحمی خاندان کی بنیاد:
“عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ حَاسَبَهُ اللهُ حِسَابًا يَسِيرًا وَ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِهِ، قَالُوا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: تُعْطِي مَنْ حَرَمَكَ، وَتَعْفُو عَمَّنْ ظَلَمَكَ، وَ تَصِلُ مَنْ قَطَعَكَ. قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ، فَمَا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: أَنْ تُحَاسَبَ حِسَابًا يَسِيرًا وَ يُدْخِلَكَ اللهُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِهِ”۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم :۳۹۱۲) ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، تین صفات ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں بھی ہوں اللہ تعالی اس سے آسان حساب لے گا اور اسے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کن (صفات والوں) کو؟ آپﷺنے فرمایا: جو تجھے محروم کرے تو اسے عطا کر، جو تُجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کر، اور جو تجھ سے (رشتہ داری اور تعلق) توڑے تو اس سے جوڑ۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ! اگر میں یہ کام کر لوں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: تجھ سے حساب آسان لیا جائے گا اور تجھے اللہ تعالی اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرما دے گا۔

اِس کے برخلاف رشتہ ناطہ کو توڑ دینا اور رشتہ داری کا پاس و لحاظ نہ کرنا اللہ کے نزدیک حد درجہ مبغوض ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اِرشاد فرمایا کہ میدانِ محشر میں رحم (جو رشتہ داری کی بنیاد ہے) عرشِ خداوندی پکڑ کر یہ کہے گا کہ جس نے مجھے (دُنیا میں) جوڑے رکھا آج اللہ تعالیٰ بھی اُسے جوڑے گا (یعنی اُس کے ساتھ انعام و کرم کا معاملہ ہوگا) اور جس نے مجھے (دُنیا میں) کاٹا آج اللہ تعالٰی بھی اُسے کاٹ کر رکھ دے گا (یعنی اُس کو عذاب ہوگا)”۔ (بخاری ٥٩٨٩، مسلم ٢٥٥٥، الترغیب والترہیب ٣٨٣٢) “عن عبد الرحمان بن عوف قال: سمعت رسول الله ﷺ یقول: قال الله تبارک و تعالی: أنا الله و أنا الرحمان، خلقت الرحم و شققت لها من اسمي، فمن وصلها وصلته و من قطعها بتته”۔ (ابوداود، مشکوٰة:۴۲۰)

Advertisements
julia rana solicitors london

ترجمہ: حضرت عبد الرحمٰن بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ بزرگ و برتر ارشاد فرماتا ہے کہ میں اللہ ہوں، میں رحمان ہوں (یعنی صفتِ رحمت کے ساتھ متصف ہوں) میں نے رحم یعنی رشتے ناتے کو پیدا کیا ہے اور اس کے نام کو اپنے نام یعنی رحمٰن کے لفظ سے نکالا ہے، لہذا جو شخص رحم کو جوڑے گا یعنی رشتہ ناتہ کے حقوق ادا کرے گا تو میں بھی اس کو (اپنی رحمتِ خاص کے ساتھ) جوڑوں گا اور جو شخص رحم کو توڑے گا یعنی رشتے ناتے کے حقوق ادا نہیں کرے گا میں بھی اس کو (اپنی رحمت خاص سے) جدا کردوں گا“۔ حدیث میں ہے، “عن أنس  قال: قال رسول الله ﷺ من أحب أن یبسط له في رزقه و ینسأ له في أثر فلیصل رحمه۔ متفق علیه۔” (مشکوٰة:۴۱۹) ترجمہ: حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا، جو شخص چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں وسعت و فراخی اور اس کی اجل میں تاخیر کی جائے (یعنی اس کی عمر دراز ہو) تو اس کو چاہیئے کہ وہ رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:

1۔ خالد علوی، ڈاکٹر،اسلام کا معاشرتی نظام،المکتبہۃ العلمیہ،لاہور،۱۹۹۸،: 83
2۔ محمد امین ،ڈاکٹر ،اسلام اور مغرب کی تہذیبی کشمکش ،مکتبہ بیت االحکمت،لاہور،: 230
3۔ (ابو داؤد
4۔ ابو داؤد
5۔ مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد 8، صفحہ 552
6۔ مرقات اشعہ، بحوالہ مرآۃ شرح مشکوۃ، جلد6، صفحہ767
7۔ الروض المربع ص385   الوسائل 20 : 371 / أبواب ما يحرم بالرضاع
8۔ النساء، آیت ۳۴
9۔ نجفی، شیخ محسن علی، البلاغ القرآن، ص ۱۱۵
10۔ الألوسي، شهاب الدين محمود بن عبد الله الحسيني روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، دار الكتب العلمية – بيروت الطبعة: الأولى، 1415 ھ، 5 :23
11۔ النساء،1
12۔ المجلسی،محمد باقر، بحار الانوار، ج -۴۳، ص ۳۹، باب” مناقبھا و بعض احوالھا،  الطبعہ الثانیہ، ۱۹۸۳ء، موسسۃ الوفاء ،بیروت لبنان
13۔ صحیح بخاری، ج،3، کتاب الفضائل باب مناقب فاطمہ، ص 1374
14۔ من لا یحضرہ الفقیہ، ج-۳، ص ۲۷۷
15۔ بخاری، الجامع الصحیح، کتاب الادب، رقم الحدیث:6161
16۔ بخاری، الجامع الصحیح، کتاب النکاح، رقم الحدیث: 5204
17۔ ترمذی، محمد بن عیسی ابو عیسیٰ، الجامع، کتاب الرضاع، باب ما جاء فی حق المراۃ زوجھا، دار الشرکۃ مکتبہ و مطبوعہ مصطفی البانی الحکیم ۔س۔ن،مصر، رقم الحدیث 1162
18۔ بخاری، کتاب النفقات، باب حدقہ الرجل فی اھلہ، رقم الحدیث : 5363
19۔ الانصاری الزنجانی، اسماعیل، الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہرا س، ج ۱۷، ص ۱۲۵، الطبعۃ الثانیہ ۱۴۲۹ھ، قم ایران، بحار الانوار، ج۴۳، ص ۱۶۹
20۔ بحار الانوار، ج ۱۰۱، ص ۱۳۲،
21۔ مسلم، ابن حجاج، قشیری، الجامع الصحیح، کتاب البر دار الحیاء التراث العربی، بیروت, 4/312
22۔ بخاری مسلم
23۔ صحیح بخاری، بحوالہ “محمد رسول اللہ، شعبہ اردو ، دائرہ معارف اسلامیہ، جامع پنجاب، لاہور

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply