بیتی۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ میں جس سے ملا‘ اُس کی زندگی کا حصہ بن گیا۔ دراصل زندگی افکار و کردار کے مجموعے کا نام ہے۔ ایک منبعِ حدّت و شوق کے قرب میں جو بھی آیا‘ اپنے حصے کی حرارت وصول کر کے اُٹھا۔ اللہ نہ کرے‘ کسی کا مقدر لکڑی کے اُس کندے کی طرح ہو‘ جس تک حرارت پہنچتی ضرور ہے لیکن وہ اُسے وصول نہیں کر سکتا۔ اِس دُعا میں یہ بندۂ ناقص و ناکس سب سے پہلے خود کو شامل کرتا ہے۔ حدّت یا حرارت کے موصول ہونے کے لیے خود موصل ہونا ضروری ہے۔ لکڑی غیر موصل ہوتی ہے، یہ جل جاتی ہے لیکن حرارت کی ترسیل نہیں کر پاتی۔ حرارت اور گرمجوشی‘ زندگی ہے، سردی اور سرد مہری‘ موت!!
عرصۂ دراز سے دوست احباب مُصر تھے کہ مرشد کے حوالے سے اپنی یادداشتوں کو مرتب کروں۔ بوجوہ ‘تاخیر سے کام لیتا رہا، آج کا کام کل پر ٹالنے کی عادتِ نامہرباں سے ابھی تک نجات حاصل نہیں کر سکا۔ کبھی کبھی شاعری بھی کرتا ہوں ‘اس لیے بتاتا چلوں کہ کاہلی میں بحرالکاہل کے وزن پر ہوں۔ یہ خیال بھی دامن گیر رہا کہ ان یادداشتوں کے بیان میں کہیں خودنمائی کا پہلو برآمد نہ ہو جائے۔ مرشد کا فرمان تھا کہ خود کو نمایاں نہیں کرنا، آپؒ کے مخصوص الفاظ تھے ٗ کبھی خود کو prominent نہ کرنا۔ گزشتہ دنوں صاحبزادہ کاشف محمود نے بھی کہا کہ یادداشتیں قلم بند کرنی چاہییں۔ اسرار غنی اسد کی حسب ِ معمول پْراَسرار تاکید اور پروفیسر حامد اقبال بٹ کے پُرزور اِصرار نے بھی قلم اٹھانے پر مجبور کیا۔ ایک اہم محرک کا تذکرہ ہنوز باقی ہے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے‘ گزشتہ سے پیوستہ برس صفر کے مہینے میں انہی دنوں دوستوں کے ہمراہ حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کے سالانہ عرس پر حاضری سے واپس آرہا تھا کہ جی پی او آفس کے سامنے اشارے پر گاڑی رکی… دل پر گزرنے والے واقعات اپنے جزئیات سمیت یاد رہتے ہیں… کوئٹہ سے میرے کالم کے ایک مستقل قاری کی فون کال موصول ہوئی۔ اس ہفتے کے کالم میں بھی حسب ِ معمول مرشد کا تذکرہ تھا۔ اْس نے کہا‘ ڈاکٹر صاحب! آپ حضرت واصف علی واصفؒ کی سوانح کیوں نہیں لکھتے؟ میں نے کہا کہ اس حوالے سے آپؒ پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے محققین لکھ رہے ہیں اور یوں بھی ہمارے حلقۂ احباب میں سے بہت سے لوگ آپؒ کے ساتھ گزرے ہوئے ماہ و سال کے واقعات لکھ رہے ہیں۔ کہنے لگا‘ وہ تو سب ٹھیک ہے لیکن آپ بھی لکھیں۔ میں نے پوچھا‘ میرا لکھنا کیونکر ضروری ہے؟ اُس نے ایسا جواب دیا کہ مزید سوال کرنے سے دفعتاً روک دیا گیا۔ کہنے لگا‘ دیکھیں آپ کا لکھا ہوا ایک ادبی دستاویز ہوگی، کیمرے کی بنائی ہوئی تصویر میں اور ایک مصور کے برش کی تصویر میں فرق ہوتا ہے، مصور کی تصویر میں اس کے اپنے باطنی رنگ بھی کینوس پر روشنی بکھیرتے دکھائی دیتے ہیں۔باہر سورج تو موجود ہے، سب کو معلوم ہے لیکن اِس ناظر نے اُسے کیسے دیکھا‘ یہ جاننا مطلوب ہے۔ (خبردار! مشتری ہوشیار باش! یہاں ایک توصیفی جملہ لکھنے لگا ہوں) کہنے لگا کہ آپ کا لکھا ہوا‘ ایسا ہو گا جیسے بانو قدسیہ نے قدرت اللہ شہابؒ کے متعلق “مردِ ابریشم” لکھی ہے۔ جس طرح تصویرکشی اور فنِ مصوری میں فرق ہوتا ہے ، اِسی طرح تحریر اور تخلیق میں بھی فرق ہے۔ ہمیں تخلیق چاہیے‘ ناں کہ صحافیانہ تحریر!! منظر‘ منظر بنانے والے کا ہے، لیکن منظر کا بیان ناظر کا زاویۂ نظر ہوتا ہے۔ درحقیقت سننے اور پڑھنے والے کا تخیل اس زاویۂ نگاہ کا محتاج ہے۔ صاحبِ بیان بدل جائے تو اندازِ بیان بدل جاتا ہے اور اندازِ بیان بدل جائے تو منظر بدل سا جاتا ہے۔ مرشد کا جملہ سند ہے، مؤرخ بدل جائے تو تاریخ بدل جاتی ہے۔ ہائی کورٹ کے سامنے سالٹ اینڈ پیپر میں دوستوں کے ہمراہ فش رائس کھاتے ہوئے گول میز کانفرنس ہوتی رہی کہ ہاں! یادداشتیں ضرور تحریر کرنی چاہییں۔۔۔ لیکن حسبِ توقع نشستند، گفتند کے بعد خوردند کے ساتھ برخاستند ہوئے۔
اگر دیکھا جائے تو واقعاتی طرزِ تحریر کی صورت میں، مَیں اپنے ہی ایک اصول کی پامالی کا مرتکب بھی ہو رہا ہوں۔ اس ناچیز کا اصول رہا کہ واقعات بیان نہ کیے جائیں بلکہ اُن کی تاثیر بیان کی جائے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا قول بھی پیشِ نظر رہا کہ ’’محسن کی ذات بیان نہ کرو بلکہ محسن کے احسانات بیان کرو‘‘۔ محسن کے احسانات کے سلسلے ہی کو فیض کہتے ہیں۔ سب سے بڑا فیض تو طرزِ فکر میں انقلاب برپا کرنا ہے۔ بحمدللہ ! تحدیثِ نعمت کے طور پر اپنی تحریروں کی صورت میں اس کا اظہار بصورتِ اعتراف گزشتہ تینتیس برس سے تا دمِ تحریر کرتا چلا آرہا ہوں… اور سچ پوچھیں تو درِ واصفؒ کی یہ عطا۔۔۔ جسے حُسنِ خیال بلکہ واصف خیال کہنا چاہیے۔۔۔ اپنے اظہار و ترسیل کے باب میں ہم پر فرض بھی ہے اور قرض بھی! اس فرض میں جب اور جہاں کوتاہی ہوئی اس کی معافی طلب کرتے ہوئے تلافی کے طور پر یادداشتوں کے اس سلسلے کا آغاز کر رہا ہوں۔ کوشش ہوگی کہ روزانہ کی بنیاد پر یادوں کی زنبیل سے کچھ نہ کچھ برآمد کرتا رہوں… اِس اُمید پر کہ’’در‘‘ آمد بھی جاری رہے گی۔
یارانِ محفل! اس مریدِ بے صفا و بے وفا کی اپنے مرشدِ باصفا کے ساتھ رفاقت شمسی کیلنڈر کے اعتبار سے ظاہری طور پر آٹھ سال اور پانچ دن کی رہی۔۔۔۔۔تیرہ جنوری 1985ء سے 18 جنوری 1993ء کا سورج غروب ہونے تک۔ شروع شروع میں‘ آپؒ کے ہاں میں ایک ایسے طالبعلم کے طور پر جاتا تھا جسے حلقہ ارباب ذوق اور حلقۂ تصنیف ادب سے بہتر حلقۂ فکر و سخن میسر آ گیا ہو، اور وہ اس محفل ِ حکمت و دانش سے دانائی کا عطر کشید کرنے کے لیے آن پہنچا ہو۔ البتہ میرے لیے یہ بات حیرت کا باعث ہوتی کہ اس محفلِ علم و دانش کا آغاز تلاوت سے اور اِختتام درودِ تاج سے ہوتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ روحانیت اور تصوف کی مجھے کچھ خبر نہ تھی، اگر تصوف کی بابت علمی حد تک کچھ تعارف تھا بھی تو وہ بس بدعلمی کی حد تک تھا۔ ہمارا خاندان روائتی طور پر ایک ایسے طرزِ فکر پر کاربند تھا جہاں شرک، بدعت اور تصوف ایک ہی سانس میں پڑھا جاتا ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ واصف صاحب کی داڑھی کیوں نہ تھی، ان کے ہاتھ میں تسبیح اور مالا کیوں نہ تھی، اہلِ طریقت حیران ہوتے ہیں کہ انہوں نے اپنے مرشد خانے کا تعارف کیوں نہ کروایا ، اگروہ چشتی تھے تو اپنے ہاں ختمِ خواجگان کی روایت کیوں نہ جاری کی… ان سب اعتراض نما سوالوں کا جواب۔۔۔۔ میں خود ہوں۔ حاشاوکلّا!! اگر آپؒ کی محفل میں ایسا کوئی روایتی مذہبی رنگ نظر آتا تو مجھ ایسا دانش ِ فرنگ میں لتھڑا ہوا طالب علم وہاں سے ضرور بدک جاتا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جیسی ڈیوٹی ہوتی ہے‘ ویسی وردی ہوتی ہے، اور یوں بھی خفیہ والے اپنی روائیتی وردی، فیتوں اور تمغوں میں کب سامنے آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ محفل میں حاضری کے ابتدائی دنوں میں مجھے ایک خواب ضرور دکھائی دیا ، جس میں دیکھا کہ واصف صاحبؒ کے ہاں محفل میں جبہ و دستار کے حاملین بیٹھے ہیں اور وہاں ایک روایتی خانقاہ قائم ہے، بہت حیران ہوا ‘ یہ کیا ماجرا ہے، ہم تو وہاں دانش کے موتی چننے کے لیے جاتے ہیں، اور یہاں کچھ اور ہی معاملہ… یعنی’’مذہبی‘‘ معاملہ دکھائی دیتا ہے۔ بہرطور خواب کو جھٹکتے ہوئے بیداری کے عمل یعنی حاضری کا تسلسل برقرار رکھا۔ بڑی خجالت سے بتا رہا ہوں کہ بعض اوقات میں آپؒ کی محفل میں بے وضو بھی چلا جاتا… ظاہر ہے میں تو صرف دانائی کے نکات چننے جاتا تھا، اب کسی دانا کا باوضو ہونا ضروری تھوڑا ہے۔ حکمت اور دانائی میں یہی تو فرق ہے۔ حکمت کا تعلق خوفِ خدا سے ہے ٗاور ماورا سے ہے، دانائی ماسوا کی بھی ہاتھوں ہاتھ بکتی ہے۔ اس زمانے میں ہم ذہنی طور پر مذہب تیاگ چکے تھے، گورنمنٹ کالج کے چند ہم نشیں ہمارے لامذہبی افکار سن کر ہمیں’’آندروپوف‘‘بھی کہا کرتے۔ یوں بھی ہر وقت فلسفہ جھاڑنے کی عادت کے سبب کلاس فیلوز نے ہمارا نک نیم’’علامہ صاحب‘‘ رکھا ہوا تھا۔
اب چشمِ تصور میں آپؒ کی رہائش گاہ 22 فردوس کالونی گلشنِ راوی کی بیٹھک المعروف ’’آفس‘‘ میں اپنی پذیرائی کا منظر دیکھتا ہوں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ایک باغی قسم کے متلون مزاج طالبعلم کو کس قدر تحمل سے آپؒ نے برداشت کیا ہو گا۔ سلام ہے‘ آپؒ کی قوتِ برداشت پر… آپؒ ہی کا قول ہے ’’سب سے بڑی قوت ، قوتِ برداشت ہے‘‘۔
اب آپ اسے آپ بیتی کہیں یا جگ بیتی… آپؒ سے ملاقاتیں مجھ پر بیت چکی ہیں، اِس لیے من و تو کے جھنجھٹ سے آزاد ہو کر اِس کتاب کا نام ’’بیتی‘‘ رکھنا مناسب خیال کیا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply