چلغوزوں سے جن والی بوتل تک

یہ صرف پاکستان کا المیہ ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ پاکستان میں بھی رہنے بسنے والے صرف اُس مخصوص طبقے کا المیہ ہے جس نے اینٹ کا جواب بھی فقط اپنے ہی طرز کی بنائی ہوئی مخصوص مٹیریل کی اینٹ سے دینے کی قسم کھائی ہوئی ہے.
ویسے بھی ہم لوگ چائے کی پیالی میں جب تک کسی طوفان کو برپا نہ کر دیں ہمیں چین نہیں پڑتا.
خدا جانے ہم کب سمجھیں گے کہ جو بات سماجی طور پر رد کی جا چکی ہو اسے باشعور سمجھدار لکھنے پڑھنے والے افراد بعض اوقات اتنی اہمیت دے ڈالتے ہیں کہ وہ ایک مخصوص دائرے میں رہنے والے طبقے کے لیے خاصی وجہِ شہرت بن جاتی ہے.
مثال کے طور پر کچھ روز قبل ایک طبقے سے تعلق رکھنے والے صاحب کی جانب سے اپنی سوچ کو لیکر خواتین کے لیے جس طرح سے چلغوزے کی مثال دی گئی وہ سوشل میڈیا سمیت کئی حلقوں میں کافی ادھم مچاتی رہی حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ ادھم بھی خاص تو پر اُس حلقے نے مچایا جس کا اس مثال سے دور دور کوئی لینا دینا نہیں تھا.
مگر کیا کہا جائے کہ اودھم تو مچانا ہی تھا کیونکہ انکے پاس میرے اندازے کے مطابق کرنے کو اس دن یقیناً کچھ خاص نہیں ہوگا اس لیے شاید تفریح کی خاطر ہی سہی مگر اودھم مچتا رہا اور جنہیں مخصوص لقب کیساتھ مخاطب کیا گیا تھا انہوں نے اپنے آپکو صرف پڑھنے اور ادھم تماشہ دیکھنے کی حد تک ہی رکھا…
ایک صاحب کی جانب سے خواتین کو چلغوزہ سے مثال دینے کے بعد تو جیسے سوشل میڈیا پر انکے خلاف ڈرائی فروٹ کی مارکیٹ لگا دینے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی.
اتنا شور و غل مچایا گیا کہ صنفِ نازک کو مثال دیکر سمجھانے والے ڈاکٹر صاحب موصوف نے بہتر سمجھتے ہوئے اپنے الفاظ بمع پوسٹ ڈیلیٹ کر دیئے.
یہ بات درست ہے کہ خواتین کو اس مثال سے رنج پہنچا چونکہ دی گئی مثال کسی حد تک درست بھی نہیں تھی.
موصوف کا اپنے لکھے گئے الفاظ واپس لینا ان کی جانب سے ایک اچھا عمل تھا حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کچھ لوگ مثال دینے والے صاحب کی جانب سے الفاظ واپس لینے کے باوجود بھی اس گڑے مردے کو نجانے کیوں کھود کر باہر نکالنے پر تلے ہوئے ہیں.
جبکہ میری رائے میں تو باشعور افراد کو چاہیے کہ وہ کھلے زہن کیساتھ اگر اس عمل کی تائید نہیں کر سکتے تو کم از کم اس معاملے کو بڑھانے سے ہی انہیں گریز کرنا چاھیے.
جبکہ پڑھے لکھے سمجھدار معاشروں کا اصول ہے کہ جب ایک معاملہ خوش اسلوبی سے اختتام پذیر ہو جائے تو اسے ختم ہی سمجھنا چاہیے نا کہ اس پر مزید بحث مباحثہ کر کے ایک بےجان موضوع میں پھر سے ہوا بھر دی جائے.
میرا اپنے لکھنے پڑھنے اور چھاپنے والے ان تمام حضرات سے دست بدستہ التجا ہے بلکہ خاص طور پر کچھ لبرل حضرات سے کہ مثال کو صرف مثال کی حد تک ہی رکھیں اس مثال کی بوتل پر ڈھکن چڑھا ہی رہنے دیں اسے خوہمخواہ دانتوں سے کھولنے کی کوشش نا کریں.
ویسے بھی کچھ بوتلوں کے ڈھکن کھولنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا نقصان ہی دیکھا گیا ہے.
لکھنے لکھانے والوں کو یہ ہرگز زیب نہیں دیتا کہ وہ چلغوزوں کے جواب میں اپنی اپنی بوتلیں نکال کر ایک فضول اور مردہ نان ایشو کو ایشو بنائیں یہ فقط بیل کو سرخ کپڑا دکھانے کی کوشش ہے کیونکہ بازی گر جانتا ہے کہ بیل لال کپڑے پر دوڑ بھی پڑتا ہے اور تفنن طبع کا باعث بنتا ہے.
اور ویسے بھی ہم نے تو یہ تک سنا ہے کہ اکثر اوقات بوتل سے گیس نہیں نکلتی بلکہ کبھی کبھار جنات بھی نکل آتے ہیں…

Facebook Comments

رضاشاہ جیلانی
پیشہ وکالت، سماجی کارکن، مصنف، بلاگر، افسانہ و کالم نگار، 13 دسمبر...!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply