لوگوں کا سمندر تھا،کل رات جلسہ تھا۔۔گوتم حیات

کل شب کے جلسے نے تو سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔۔ لوگوں کی بڑی تعداد جمع تھی جن کو کیمرے کی ڈیجیٹل اور ایڈوانس آنکھ بھی شمار نہیں کر سکتی تھی اور یہ وہ لوگ تھے جو اپنے ضمیر کی آواز پر “باغ جناح” میں جمع ہوئے تھے, ان میں سے بہت سے اس بات کا خصوصی طور پر ادراک رکھتے تھے کہ گزشتہ الیکشن میں ان کا “ووٹ بینک” منظم طریقے سے چوری کیا گیا ہے، اور اس کے نتیجے میں تاج حکمرانی ایک ایسی شخصیت کو سونپا گیا ہے جو سِرے سے اس کا روادار تھا ہی نہیں۔ عوام کے سامنے اب واضح لکیر آشکار ہوچکی ہے، وہ اس راز کو جان چکے ہیں کہ کرپشن کے نام پر جن سیاسی نمائندوں سے مینڈیٹ چھینا گیا، انہیں پابند سلاسل رکھا گیا، ان کی تواتر سے کردار کشی کی گئی دراصل یہی نمائندے عوام کے حقیقی نمائندے ہیں۔ ان حقیقی نمائندوں کو کرپشن کی زنجیروں میں جکڑ کر یہ لوگ جن “مقدس چہروں” کو عوام کا نجات دہندہ ثابت کر رہے ہیں وہ سر تا پا نااہل، بداخلاق، سیاسی طور پر نابالغ اور ظلم و دہشت کے پجاری ہیں، انہیں عوام کے دکھ درد کا رتی برابر بھی احساس نہیں ہے، لفظ “ہمدردی” ان کی لغت سے خارج ہے, بھوک، بیماری اور بےروزگاری میں مبتلا عوام کا جم غفیر ان کی رعایا ہے اور یہ بات ہر باشعور، جمہوریت پر یقین رکھنے والا شخص جانتا ہے کہ “رعایا” کے کوئی حقوق نہیں ہوتے، رعایا کو تو بس اپنے ہر حق سے دستبردار رکھا جاتا ہے، وہ جب کوئی شکایت کریں تو انہیں سبز باغ دکھائے جاتے ہیں، انہیں اس زندگی کی سفاکیوں سے بے بہرہ کر کے ایک ایسی دنیا کی زندگی کا عکس دکھایا جاتا ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے انہیں طبعی طور پر موت سے ہم کنار ہونا ہو گا۔ ان کے سماجی و معاشی مسائل جو کہ سیاست سے وابستہ ہیں اور سیاسی مسند پر براجمان نمائندے ہی ان کو باآسانی حل کرنے کی قوت بھی رکھتے ہیں لیکن وہ کیوں حل کریں گے ان کے مسائل، حکمرانی کے دو سال بیت گئے، لیکن ان کے منہ سے باربار یہی سننے کو ملتا رہا کہ
“نواز شریف کرپشن کر کے ملک کو معاشی طور پر کمزور کر گیا ہے، نواز شریف کا احتساب کر کے ہی ملک معاشی طور پر خود کفیل ہو گا۔ اربوں ڈالر کی لوٹی ہوئی رقم ہم بہت جلد واپس پاکستان میں لے کر آئیں گے۔”
اور وقت گزرتا رہا، ہر روز ایک گھمبیر مسئلہ عوام کو یہ باور کرواتا رہا کہ کرپشن کے نام پر جو کچھ ان “سیلیکٹد نمائندوں” کی طرف سے بتایا جا رہا ہے وہ محض ایک سراب ہے، دھوکہ ہے۔ اور سراب کے پیچھے بھاگنا یا اسے اپنے ماتحت کرنا ایک انہونی ہے جو کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔۔۔۔ اسی لیے تو جب ہر طرف سے شکایات کا انبار بڑھنے لگا تو ان کی طرف سے فرمان جاری کیا جاتا ہے کہ
“سکون صرف قبر میں ہے”
گزشتہ رات “پی ڈی ایم” کے جلسے نے موجودہ حکومت جو کہ ایک غیبی طاقت کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے کا پردہ چاک کر کے عوام کو بتا دیا ہے کہ وہ جو اپنے آپ کو اہل ثابت کر رہے ہیں وہ کتنے اہل ہیں، اور جن کو نااہل کیا گیا وہ کتنی زیادہ اہلیت کے حامل تھے۔
جلسہ گاہ میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر، سیاسی جماعتوں کے قائدین کی سماجی، سیاسی اور تاریخ پر مبنی تقریریں، مختلف جماعتوں کے گانوں کی دھنیں اور عوام کا یک زبان ہو کر
“گو نیازی گو” کہنا، حکومت وقت کو نااہلی اور اہلیت کے درمیان کا فرق بتا رہا تھا۔ کیا وہ اس فرق کو سمجھے یا اس کو سمجھنے کے لیے انہیں اب گوجرانولہ اور کراچی کے بعد کوئٹہ، پشاور، ملتان اور لاہور میں ہونے والے “پی ڈی ایم” کے جلسوں کی سیریز کے عمل سے گزرنا ہو گا۔؟
مریم نواز اور بلاول کی گفتگو کے بعد مولانا صاحب کی تقریر کا آغاز ہوا تو میں جلسہ گاہ کے باہر سڑک کنارے بنی دیوار پر آکر بیٹھ گیا۔ میں بہت خوش تھا، لوگوں کی بھیڑ میں رستہ بناتا ہوا میں جب سڑک کنارے جا کر بیٹھا تو وہاں بھی قطاریں بنائے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران جھنڈے اور بینرز اٹھائے ہوئے عورتوں،مردوں اور بچوں کے بہت سے قافلے میرے سامنے سے گزرے۔ یہ خوشنما مناظر میں نے اپنی آنکھوں میں محفوظ کر لیے اور موبائل کھول کر فیس بک وال پر ایک پوسٹ اپلوڈ کی، میں نے لکھا تھا:

Advertisements
julia rana solicitors london

“میں اب جلسہ گاہ سے باہر آچکا ہوں۔اس وقت مولانا صاحب کی گفتگو اختتامی مراحل میں ہے۔ آج شب اس جلسے میں ایک سے بڑھ کر ایک تقریر سننے کو ملی اور مریم نواز کی حالیہ تقریر نے دل و دماغ کو امیدوں سے روشن کر دیا ہے۔ آج پہلی بار مریم نواز کو براہ راست سن کر اور انہیں اسٹیج پر دیکھ کر بیحد خوشی محسوس ہو رہی ہے”
ساتھیو میری یہ تحریر اب اختتام پذیر ہو رہی ہے، بس ایک آخری سطر لکھ کر آپ سب سے اجازت چاہوں گا، پھر ملاقات ہو گی۔۔
“اور جلسہ گاہ میں لوگوں کا سمندر تھا۔ کل رات جلسہ تھا”۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply